وفاداری کا صلہ

تحریر : مومن احسان


اک زمانے کی بات ہے کہ کسی گاؤں میں ایک زمیندار رہتا تھا جس کی بہت ساری زمینیں تھیں۔ یہ گاؤں کا سب سے امیر آدمی تھا۔ اس کے محل نماگھر میں بہت سے ملازم تھے۔

زمیندار بہت سخی اور دانا بھی تھا، اسی وجہ سے وہ گاؤں والوںکے تمام مسائل اپنی دولت اور دانائی سے حل کردیتا تھا۔اس کی اس عظیم عادت کی وجہ سے کوئی کسی لڑائی جھگڑے میں نہ پڑتا اور گاؤں میں امن وامان رہتا۔وہ ہر ہفتے گاؤں کے لوگوں کو جمع کرتا، ان کے مسائل سنتا اور انہیں ایک اچھے کھانے کی دعوت سے نوازتا۔ اس کے اس طرز عمل سے سیکڑوں لوگ اس کے چاہنے والے بن گئے۔ مگر کچھ لوگ ایسے بھی تھے جن کی بری نظر اس کے مال و دولت پرتھی۔

زمیندار کے پاس اللّٰہ کا دیا ہوا سب کچھ تھا لیکن وہ دنیا کی سب سے بڑی نعمت اولاد سے محروم تھا۔یہی بات اسے ہمیشہ پریشان رکھتی کیونکہ اس کی جائیداد کا کوئی وارث نہ تھا۔وہ جب بھی لوگوں کو جمع کرتا تو ان سے دعا کرواتا کہ اللہ اسے اولاد سے نواز دے مگر یہ تمام دعائیں کسی اور صورت میں قبول ہونا تھیں۔اس بات کی حکمت اسے وقت گزرنے کے بعد سمجھ آئی۔

اس کے ملازموں میں سے دو نوجوان ملازم عزیر اور ابراہیم اس کے ایسے خدمت گزار تھے کہ مرتے دم تک ساتھ رہے۔ وہ نہ صرف اس کی خدمت کرتے بلکہ اس کی جائیداد کا مکمل ایمانداری کے ساتھ خیال بھی رکھا کرتے ۔ امیر زمیندار بھی ان پر اپنے دیگر ملازمین سے زیادہ بھروسہ کرنے لگا تھا۔ برسوں عزیر اور ابراہیم اسی طرح اس کی خدمت کرتے رہے، یہاں تک کہ زمیندار کو ان دونوں سے کبھی مایوسی نہ ہوئی۔

عزیر اورابراہیم نے اس کے دل کو تسلی تو دے رکھی تھی مگراسے اب بھی اولاد کی کمی محسوس ہوا کرتی۔ دوسری طرف گاؤں کے چند بدعنوان لوگ اس سے باخبر تھے کہ اس کی اپنی کوئی اولاد نہیں تاہم اس بوڑھے کی ساری دولت کو ہڑپ کیا جا سکتا ہے۔ وہ اس کے خلاف چالیں چلتے مگر اس کے بیٹوں جیسے دو خدمت گزار شاطر دماغی سے ان کی تمام چالوں کو ناکام بنا دیتے۔ بعض دفعہ تو زمیندار بھی ان کی ذہانت اور ایمانداری پرحیران ہوتا کہ وہ کیسے اتنے لوگوں کو میری جائیداد کی ایک پھوٹی کوڑی تک سلب نہیں کرنے دیتے اور پیسے پیسے کا کتنی ایمانداری سے خیال رکھتے ہیں۔

ان دونوں کی ایمانداری کا صلہ زمیندار نے انہیں علیحدہ گھر بنوا کر دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ  ان دونوں کو محض فصلوں کے انتظامی معاملات دیکھنے پر معمور کردیا۔ زمیندار کو یہ یقین ہونے لگا کہ وہ دونوں کبھی اس کی پیٹھ میں چھرا نہیں گھونپیں گے ۔اس کے باوجود زمیندار کو اب بھی یہی بات پریشان کئے رکھتی کہ اس کی جائیداد کا وارث کون بنے گا۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسے عزیر اور ابراہیم میں اپنی اولاد نظر آنے لگی اور اب وہ ان پرپہلے سے کہیں زیادہ اعتماد کرنے لگا۔اتنا اعتماد کہ اپنی جائیداد کو ان کے نام کرنے کا سوچنے لگا، تاکہ وہ خود اس خوف سے آزاد ہو کر موت کو سینے لگا سکے کہ اس کی جائیداد کا کیا بنے گا۔

اس کے ذہن میں خیال آیا کہ اب اسے اپنی جائیداد کے متعلق وصیت لکھنی چاہیے مگریہ آخری فیصلہ کرنے کیلئے اس بوڑھے زمیندار کا ایک فیصلہ کن امتحان باقی تھا۔ ایک دن اس نے انہیں آزمانے کیلئے کسی معمولی بات پر بہت جھڑکا اور کہا کہ اب تم دونوں میرے پاس کبھی نہیں آؤگے۔جو گھر اور دولت تم لوگوں نے مجھ سے کمایا ہے وہ اب سے تمھارا رہے گامگر آج کے بعد تم دونوں کا مجھ سے کوئی واسطہ نہیں۔ 

زمیندار نے انہیں کہا کہ میں نے تمہیں اپنی اولاد کی طرح پالا مگر تم نے میری دولت کی طرف نظر رکھی اور لالچ سے کام لیا۔ عزیر اور ابراہیم آنسو لیے صفائیاں دیتے رہے کہ ایسی کوئی بات نہیں جس پر آپ اتنا آگ بگولہ ہوں۔ 

 بوڑھا زمیندار جوجانتا تھا کہ یہ سچ کہہ رہے ہیں مگر ان کو آزمانے کیلئے کہ وہ کیا کرتے ہیں خاموش رہا۔ اس نے سوچا کہ اگر وہ میری دولت پر نظر نہیں رکھتے تو وہ مجھ سے لی گئی تمام دولت واپس کیے بغیر گھر سے باہر قدم نہیں رکھیں گے۔اسی عمل میں ان کی خوداری بھی تھی۔

ان دونوں نے بہت وضاحتیں پیش کیں کہ وہ اپنے باپ جیسے مالک کوا پنی ایمانداری کا یقین دلا سکیں مگروہ ناکام رہے۔ ان میں سے ابراہیم سامنے آیا اور کہنے لگا کہ ہم آپ سے کمائی ہوئی دولت کا ذرا سا حصہ بھی اپنے پاس نہیں رکھ سکتے کیونکہ ہم دولت کی بجائے آپ کی گاؤں پر شفقت اور محبت کی وجہ سے آپ کے ساتھ تھے۔اپنے گھراور تمام ساز و سامان کی چابیاں بوڑھے زمیندار کو تھمائیں اور وہاں سے جانے لگے۔

 وہ اس کی آنکھوں سے اوجھل ہونے ہی لگے تھے کہ زمیندار نے انہیں آواز دے کراپنے پاس بلایا اور دونوں کو اسی لمحے اپنے سینے سے لگا لیا۔ زمیندار روتا جاتا اور کہتا جاتا کہ اللہ نے مجھے تمہاری شکل میں حقیقی اولاد سے بھی زیادہ خوبصورت اولاد سے نوازا ہے۔ 

اسی دن اس نے ایک وصیت لکھی اور اپنی ساری جائیداد ان دونوں کے نام کر دی۔ یوں زمیندار کے دل سے اس کی جائیداد کی فکر ختم ہو گئی کہ وہ اپنے حقیقی حقداروں کے پاس پہنچ چکی تھی۔ ساتھ ہی ساتھ عزیر اور ابراہیم کو ان کی وفاداری اور ایمانداری کا بہترین صلہ بھی مل گیا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

آپسی میل ملاقات کے آداب

اسلام انسانی زندگی کی حفاظت اور اُس کی بقاء کا سب سے بڑا ضامن ہے وہ پوری انسانیت کو معاشرے میں ایک دوسرے کی جان ومال کی حفاظت اور حرمت کا پابند بناتا ہے اور جزا وسزا کے اُصولوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے بڑے متوازن انداز میں تنبیہ کرتا ہے: ’’اور جس جاندار کا مارنا اللہ نے حرام کیا ہے اسے قتل نہ کرنا مگر جائز طور پر (یعنی شریعت کے فتویٰ کی رُو سے) اور جو شخص ظلم سے قتل کیا جائے ہم نے اس کے وارث کو اختیار دیا ہے (کہ ظالم قاتل سے بدلہ لے) تو اس کو چاہیے کہ قتل (کے قصاص) میں زیادتی نہ کرے کہ وہ منصورو فتح یاب ہے‘‘(سورۃ الاسراء:33)۔

شوال کی فضیلت

شوال کا شمار 4 حرمت والے مہینوں میں ہوتا ہے، جن کا ذکر قرآن پاک میں بھی آیا ہے

غزوہ اُحدمعرکہ حق و باطل

غزوہ بدر کی شکست کا بدلہ لینے کے لئے مشرکین مکہ نے مسلمانوں سے یہ جنگ لڑی غزوہ اُحد میں70 مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا، جن میں زیادہ تر انصار تھے

مسائل اور ان کا حل

غیر محرموں کی موجودگی میں نماز پڑھنے کی صورت میں عورت کا چہرہ ڈھانکنا سوال:عورت اگرگھرسے باہرنمازپڑھے توچہرہ ڈھانک کرپڑھ سکتی ہے؟ جواب:جی ہاں غیر محرموں کے سامنے نماز پڑھنے کی صورت میں چہرہ ڈھانک کرہی نماز پڑھیں۔(جامع ترمذی)

حکومت کے معاشی و سیاسی چیلنجز

الیکشن اور حکومت سازی میں مشکلات کو عبور کرنے کے بعد مسلم لیگ (ن) کو اب حکومت چلانے میں نئی مشکلات کا سامنا ہے اور ان میں سب سے بڑا چیلنج ہے معاشی عدم استحکام اور بڑھتی ہوئی مہنگائی۔حال ہی میں ختم ہونے والے آئی ایم ایف پروگرام کی کڑی شرائط خصوصاً ًپٹرولیم، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بڑے اضافے نے مہنگائی میں جو اضافہ کیا ہے اس سے مہنگائی کے شعلے کچھ ایسے بے قابو ہوئے ہیں کہ یہ اب ہر سمت پھیلتے دکھائی دیتے ہیں، جبکہ ملکی معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے ایک اور آئی ایم ایف پروگرام ناگزیر قرار دیا جا رہا ہے ۔

حکومت مخالف تحریک اور حکومتی صف بندی

مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو بنے ہوئے ابھی دو ماہ ہی ہوئے ہیں اور حکومت خود کو ملک کے حالات کے تناظر میں سنبھالنے کی کوشش کررہی ہے مگر اس کو مختلف محاذوں پر مختلف نوعیت کے مسائل کا سامنا ہے ۔