صاحب طرزظرافت نگار مشتاق احمد یوسفی
تعارف: مشتاق احمد یوسفی 4 ستمبر 1923ء کو راجھستان کے شہر جے پور میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی۔ 1945ء میں انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے فلسفے میں ایم اے کیا۔ 1946ء میں پی سی ایس کر کے وہ ڈپٹی کمشنر مقرر ہوئے۔ اگلے ہی برس یعنی 1947ء میں ہندوستان تقسیم ہو گیا اور ان کے خاندان کے افراد ایک ایک کر کے پاکستان ہجرت کرنے لگے۔
یکم جنوری 1950ء کو مشتاق احمد نے بھی اپنا بوریا بستر باندھا اور کراچی آ بسے۔کراچی آ کر انھوں نے اپنا شعبہ بدل لیا اور سول سروس کے بجائے بینکنگ سے وابستہ ہو گئے۔ اس شعبہ میں ترقی کی منزلیں طے کرتے ہوئے 1974 میں وہ ایک بینک کے صدر مقرر ہوئے اور بعد میں بینکنگ کونسل آف پاکستان کے چیئرمین بھی رہے۔ 1979ء میں انہوں نے لندن میں بی سی سی آئی کے مشیر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں، اور بالآخر 1990 میں ریٹائر ہو کر مستقل کراچی آ بسے اور تادمِ مرگ وہیں مقیم رہے۔ بینکنگ کے شعبے میں ان کی غیر معمولی خدمات پر انہیںقائد اعظم میڈل سے نوازا گیا۔ یوسفی نے لکھنے لکھانے کا باقاعدہ آغاز 1955ء میں کیااور پہلا مضمون ’’صنفِ لاغر‘‘ کے نام سے لکھاجو ترقی پسند رسالے ’’سویرا ‘‘ میں شائع ہوا۔ان کے ادبی شہ پارے اردو کیلئے ایک نایاب تحفہ ہیں۔ ان کی پہلی کتاب ’’چراغ تلے‘‘ 1941ء میں چھپی جبکہ دوسری ’’خاکم بدہن‘‘ 1949ء، ’’زرگزشت‘‘ 1974ء، ’’آب گم‘‘ 1990ء اور آخری کتاب ’’شام ِ شعرِ یاراں‘‘2014ء میں چھپی۔ ان کی خدمات کو دیکھتے ہوئے صدر پاکستان نے 1999ء میں ’’ستارہ امتیاز‘‘ اور 2002ء میں ’’ہلال امتیاز‘‘ سے نوازا۔ 20 جون 2018 کو وہ کراچی میں انتقال کر گئے۔
یہ اردو زبان و ادب کی خوش قسمتی ہے کہ مشتاق احمد یوسفی جیسا ادیب اور دانشور اسے میسر آیا۔ تھوڑے بہت اختلاف کے ساتھ ناقدین فن کا اس امر پر اتفاق بھی ہے کہ مشتاق احمد یوسفی اردو زبان و ادب کے بے مثال ادیب ہیں۔ کسی ادیب کی اس سے بڑی خوش قسمتی اور کیا ہو سکتی ہے کہ اس کا اُسے محبت اور اخلاص سے اپنائے اور اپنا سرمایہ تسلیم کرے۔مشتاق احمد یوسفی کو محض اس وجہ سے میں اردو کے ان چند مزاح نگاروں میں شمار کرنے لگا جو مزاح کو محض حماقت نہیں سمجھتے اور نہ محض حماقت ہی سمجھ کر پیش کرتے ہیں بلکہ اسے زندگی کی اہم حقیقت شمار کرتے ہیں۔ اور اس طرح انگریزی کے اعلیٰ ترین مزاح نگاروں میں سے ایک یعنی ولیم میک پیس تھیکرے (william makepeace thackery) کے اس ڈفینیشن پر پورے اترتے ہیں جس سے بہتر مزاح کی تعریف میری نظر میں نہیں ہے۔
Truth Topsy -Turvy At once True And Absurd
یوسفی صاحب خود اپنے مضمون’’کرکٹ‘‘ میں انگریزوں کی بابت کہتے ہیں: ’’ان کی قومی خصلت ہے کہ وہ تفریح کے معاملے میں انتہائی جذباتی اور معاملات محبت میں پرلے درجے کے کاروباری ہو جاتے ہیں۔ اس خوشگوار تضاد کا نتیجہ ہے کہ ان کا فلسفہ حد درجہ سطحی ہے اور مزاح نہایت گہرا‘‘۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے مزاح کو تھیکرے کی ڈفینیشن سے میرے ناپنے پر وہ کسی طرح ناراض نہ ہوں گے۔ اصلیت یہ ہے کہ ہمارے زیادہ مزاح نگار اور ان کے سراہنے والے محض حماقت ہی کو مزاح گنتے ہیں اور اس پر ہنس کر یہ نہیں سوچتے کہ کا ہے پر ہنسے، مجھے ان حماقت نگاروں پر اگر بھولے سے ہنسی آ جاتی ہے تو پھر اپنی ہنسی پر غصہ آتا ہے۔
ہنسانے والی باتیں بنا لینا، کچھ فقروں کا اُلٹ پلٹ کر دینا، کچھ فرضی احمقوں کا ذکر کرنا اور ایک ایسا تارباندھ دینا کہ ہنستے ہنستے پڑھنے والا رونے لگے، ہمارے یہاں بڑا عام ہے بلکہ نقاد تو لڑ جانے پر تیار ہیں کہ یہی ہمارا قومی مزاح ہے۔ ہم ان کی بات مان کر اردو مزاح نگاری کو سلام کر لیتے اگر یوسفی صاحب سامنے آکر رشید احمد صدیقی کی طرح یہ ثابت نہ کر دیتے کہ مزاح ہمارے یہاں بھی علمیت، سنجیدگی، ذہانت اور سچی ذکاوت سے تعلق رکھتا ہے۔ محض پھکڑ بازی نہیں ہے بلکہ ایسی ہنسی یا مسکراہٹ ہے جس کا اثر جس قدر سوچتے جائو اتنا ہی بڑھتا جاتا ہے۔
یوسفی صاحب ادب اور فلسفے اور دوسرے ضروری علوم سے صحیح طریقہ پر واقف ہیں اور اس علم نے ان کو ایک نظر دی ہے جس کی بنا پر وہ واقعیت کے صحیح نقاد ہیں یعنی Truthکو دیکھنے کا علم رکھتے ہیں۔ اس کے بعد ان کا طرۂ امتیاز یہ ہے کہ ان کی نظر اس ’’حق‘‘ کے Topsy- Turvyپہلو پر جاتی ہے۔ اس معاملے میں پیدائشی صلاحیت کے ساتھ ساتھ انہوں نے انگریزی مزاح نگاروں کا اثر بھی قبول کیا۔ بہرحال ان کے مضامین پڑھ کر مجھ پر وہ دورہ نہیں پڑا جو عظیم بیگ چغتائی، شوکت تھانوی اور شفیق الرحمان کو پڑھنے پر پڑا تھا اور جس کی صورت یہ ہوئی تھی کہ میں نے ان کے مضمون کو (وہ رسالے میں ہو یا کتاب میں) اٹھا کر پھینکا اور میرے سر پر غصہ سوار ہوا اور زبان سے لفظ Absurdنکلا۔
یوسفی صاحب کے مضامین میں ان کی روایت کا کچھ اثر ضرور ہے اور ان کے مضامین اکثر تھکا دینے کی حد تک لمبے ہیں مگر مزاح کی صحیح راہ سے وہ شاذو نادر ہی بھٹکتے ہیں اور اگر کسی کا اثر بھی قبول کرتے ہیں تو اس کو اس قدر اپنا بنا لیتے ہیں کہ وہ اثر معلوم ہی نہیں ہوتا۔ مثلاً جیسے پی جی وڈ ہائوس کے مضامین اور افسانوں میں جیولیس کا سا کردار ضرور آتا ہے۔ ویسے ان کے مضامین میں ایک مرزا عبدالودود بیگ بھی کسی مضمون میں جیسے ’’یادش بخیریا‘‘ یا ’’موذی‘‘ میں سارے کے سارے مضمون کی جان ہے یا کہیں کہیں آ ٹپکتا ہے مگر یہ کردار بالکل ہماری روایت اور یوسفی صاحب کے تجربے کی چیز ہے۔ وہ حماقتیں جو ہمارے معاشرے کی حقیقتیں ہیں اس کے اندر اسی زور اور استقلال سے موجود ہیں۔یوسفی صاحب ہر آدمی اور ہر جانور کا ایک موثر اور مضحک کردار بنا لیتے ہیں۔ ’’اور آنا مرغیوں کا‘‘ میں مرغے اور ’’سیرزماتا ہری اور مرزا‘‘ میں کتا زندہ ہو کر ہمارے سامنے آ جاتے ہیں۔’’جنون لطیفہ‘‘ میں مختلف باورچی پی بی وڈ ہائوس کے بٹلروں کی یاد تازہ کرتے ہیں مگر ان کی نقل نہیں ہیں بلکہ ان کی سی ہمارے معاشرے کی جیتی جاگتی مثالیں ہیں۔ ان سب مثالوں میں وہ تخلیقی قوت کا ثبوت دیتے ہیں اور مزاح کے اس درجے پر پہنچ جاتے ہیں جس کو سچا ہیومر کہا جاتا ہے۔
زیادہ تر مضامین میں یوسفی صاحب ہمارے معاشرے کی مضحکہ خیز غلطیوں کے پر مزاح نقاد ہیں۔’’پڑیئے گر بیمار‘‘ میں ہماری تیمارداری کے عام طریقے اور ’’کاغذی ہے پیرہن‘‘ میں ننگی مصوری کے ذوق کو انہوں نے بے نقاب کیا ہے۔ یہاں ہمیں انسان کی وہ حماقتیں دکھائی دیتی ہیں جن میں وہ نہایت خلوص اور سنجیدگی سے مصروف ہیں اس سلسلے میں ’’موسموں کا شہر‘‘ بہت ہی دلچسپ ہے۔ کراچی میں آ بسنے والے مہاجرین کی جو یہ عادت پڑ گئی ہے کہ ہر بات پر کراچی کے موسم کو برا کہتے ہیں۔ اس کا یوسفی صاحب نے بے لاگ جائزہ لیا ہے اور اس کو پڑھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ کراچی کی آب و ہوا کی شکایت کرنا کتنی بڑی حقیقت اور کس حد تک حماقت ہے۔ اس ضمن کے تمام مضامین میں ’’چار پائی اور کلچر‘‘ مجھے سب سے اچھا لگا۔ چار پائی کا ہماری کلچر میں سچ مچ وہ مقام ہے کہ ہم اسے اپنی کلچر کا اشارہ یہ کہہ سکتے ہیں اور اس کے اس مقام اور اس کے ہزاروں طریقوں پر مضحک استعمال کے جو تاثر وہ سامنے لاتے ہیں وہ دل پر بڑا لطیف اثر کرتے ہیں۔ یہاں ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ چار پائی کو حد سے زیادہ مضحک بنانے کیلئے وہ کیسے پر مزاح قصے تخلیق کر دیتے ہیں۔ان کے جتنے بھی مضامین ہیں ان میں ان کا رجحان بالکل قدرتی اور فطری ہے، جس میں بناوٹ کا شائبہ بھی نہیں آیا۔