خلافت عثمانی کی عظیم الشان فتوحات
عہد عثمانی میں ممالک محروسہ کا دائرہ بھی نہایت وسیع ہوا۔ افریقہ میں طرابلس، رقہ اور مراکش مفتوح ہوئے، ایران کی فتح تکمیل کو پہنچی۔ایران کے متصلہ ممالک میں افغانستان، خراسان اور ترکستان کا ایک حصہ زیر نگین ہوا۔ دوسری سمت آرمینیہ اور آذربائیجان مفتوح ہوکر اسلامی سرحد کوہ قاف تک پھیل گئی۔ اسی طرح ایشیائے کوچک کا ایک وسیع خطہ مفتوح ہوا۔
بحری فتوحات کا آغازبھی حضرت عثمانؓ کے عہد خلافت سے ہوا، حضرت عمرفاروقؓ کی احتیاط نے مسلمانوں کو سمندری خطرات میںڈالنا پسند نہ کیا۔ ذوالنورینؓکی اولوالعزمی نے خطرات سے بے پرواہ ہوکر ایک عظیم الشان بیڑا تیار کرکے جزیرہ قبرص (سائپرس) پر اسلامی عَلَم بلند کیا اور بحری جنگ میں قیصر روم کے بیڑے کو جس میں پانچ سو جنگی جہاز شامل تھے، ایسی شکست دی کہ پھر رومیوں کو کبھی بحری حملہ کی ہمت نہ ہوئی۔
حضرت عمر فاروقؓنے اپنے عہد میں شام، مصر اور ایران کو فتح کرکے ممالک محروسہ میں شامل کرلیا تھا، نیز ملکی نظم ونسق اور طریقہ حکمرانی کا ایک مستقل دستورالعمل بنادیا تھا، اس لئے حضرت عثمانؓ کیلئے میدان صاف تھا، انہوں نے صدیق اکبر ؓکی نرمی و ملاطفت اور فاروق اعظم ؓکی سیاست کو اپنا شعار بنایا اور ایک سال تک قدیم طریق نظم ونسق میں کسی قسم کا تغیر نہیں کیا، البتہ خلیفہ سابق کی وصیت کے مطابق حضرت سعد بن وقاصؓ کو مغیرہ بن شعبہ ؓکی جگہ کوفہ کا والی بناکر بھیجا۔ یہ پہلی تقرری تھی جو حضرت عثمانؓکے ہاتھ سے عمل میں آئی۔
فتح طرابلس:مہم طرابلس کا اہتمام تو 25ھ ہی میں ہوا تھا، لیکن باقاعدہ فوج کشی 27ھ میں ہوئی، عبداللہ بن ابی سرح ؓگورنر مصر افسر عام تھے، حضرت عثمانؓ نے دارالخلافت سے بھی ایک لشکر جرار کمک کیلئے روانہ کیا ،جن میں عبداللہ بن زبیر، عبداللہ بن عمرو بن العاص اور حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہم خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔اسلامی فوجیں مدت تک طرابلس کے میدان میں معرکہ آراء رہیں، یہاں تک کہ مسلمانوں کی شجاعت، جان بازی اور ثبات و استقلال کے آگے اہل طرابلس کے پائوں اکھڑ گئے۔ عبداللہ بن ابی سرحؓنے فوج کے چھوٹے چھوٹے دستے بناکر تمام ممالک میں پھیلا دئیے، طرابلس کے امراء نے جب دیکھا کہ مسلمانوں کا مقابلہ ممکن نہیں ہے تو عبداللہ بن ابی سرحؓ کے پاس آکر پچیس لاکھ دینار پر مصالحت کرلی۔
فتح افریقہ:افریقہ سے مراد وہ علاقے ہیں جن کو اب الجزائر اور مراکش کہا جاتا ہے ۔یہ ممالک 26ھ میں حضرت عبداللہ بن زبیر ؓکی ہمت و شجاعت اور حسن تدبیر سے فتح ہوئے۔ اس سلسلہ میں بڑے بڑے معرکے پیش آئے اور بالآخر کامیابی اسلامی فوج کو حاصل ہوئی اور یہ علاقے بھی ممالک محروسہ میں شامل ہوئے۔
اسپین پر حملہ:افریقہ کی فتح کے بعد27ھ میں حضرت عثمانؓنے اسلامی فوج کو آگے بڑھنے کا حکم دیا اور عبداللہ بن نافع بن عبدقیس ؓ اور عبداللہ بن نافع بن حصینؓ دو اصحابہ کو اس مہم کیلئے نامزد کیا، جنہوں نے کچھ فتوحات حاصل کیں، پھر مہم روک دی گئی اور عبداللہ بن ابی سرحؓ مصر واپس بھیجے گئے اور عبداللہ بن نافع بن عبدالقیس ؓافریقہ کے حاکم مقرر کئے گئے۔
حضرت عثمانؓ نے عبداللہ بن ابی سرحؓ سے وعدہ کیا تھاکہ افریقہ کی فتح کے صلہ میں مال غنیمت کا پانچواں حصہ ان کو انعام دیا جائے گا۔ اس لئے عبداللہ ؓنے اس وعدہ کے مطابق اپنا حصہ لے لیا لیکن عام مسلمانوں نے حضرت عثمان ؓکی اس فیاضی پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا، آپؓ کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے عبداللہ بن ابی سرح ؓسے اس رقم کو واپس کرادیا اور فرمایا کہ میں نے بے شک وعدہ کیا تھا لیکن مسلمان اس کو تسلیم نہیں کرتے اس لئے مجبوری ہے۔
فتح قبرص:قبرص جسے اب سائپرس کہتے ہیں بحرروم میں شام کے قریب ایک نہایت زرخیز جزیرہ ہے اور یورپ اور روم کی طرف سے مصر و شام کی فتح کا دروازہ ہے۔ مصر وشام کی حفاظت اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک بحری ناکہ بندی مسلمانوں کے قبضہ میں نہ ہو۔ امیر معاویہ ؓنے عہد فاروقی میں اس پر فوج کشی کی اجازت طلب کی تھی مگر حضرت عمر ؓبحری جنگ کے خلاف تھے اس لئے انکار کردیا۔28ھ میں امیر معاویہ ؓنے حضرت عثمان ؓسے اصرار کے ساتھ قبرص پر لشکر کشی کی اجازت طلب کی ۔ حضرت عثمان ؓنے لکھا کہ اگر حملہ میں مضائقہ نہیں لیکن اس مہم میں اسی کو شریک کیا جائے جو اپنی خوشی سے شرکت کرے۔ اس اجازت کے بعد عبداللہ بن قیسؓ حارثی کی زیر قیادت اسلامی بحری بیڑہ قبرص پر حملہ کیلئے روانہ ہوا اور صحیح وسلامت قبرص پہنچ کر لنگر انداز ہوا اور شرائط ذیل پر مصالحت ہوئی۔(1)اہل قبرص سات ہزار دینار سالانہ خراج ادا کریں گے۔ (2) مسلمان قبرص کی حفاظت کے ذمہ دار نہیں ہوں گے۔ (3)بحری جنگوں میں اہل قبرص مسلمانوں کے دشمنوں کی نقل وحرکت کی انہیں اطلاع دیا کریں گے۔
ایک عظیم الشان بحری جنگ:31ھ میں قیصر روم نے ایک عظیم الشان جنگی بیڑا ،جس میں تقریباً پانچ سو جہاز تھے ساحل شام پر حملہ کیلئے بھیجا۔ مؤرخین کا بیان ہے کہ رومیوں نے مسلمانوں کے مقابلہ میں ایسی عظیم الشان قوت کا مظاہرہ اس سے پہلے کبھی نہیں کیا تھا۔ امیر البحر عبداللہ بن ابی سرحؓ نے مدافعت کیلئے اسلامی بیڑے کو آگے بڑھایا اور سطح سمندر پر دونوں آمنے سامنے آگئے۔ دوسری صبح کو مسلمانوں نے اپنے تمام جہاز ایک دوسرے سے باندھ دئیے اور فریقین میں نہایت خونریز جنگ ہوئی۔ بے شمار رومی مارے گئے اور بہت سے مسلمان بھی شہید ہوئے لیکن ان کے استقلال و شجاعت سے رومیوں کے پاؤں اکھڑ گئے اور ان کی بہت تھوڑی تعداد زندہ بچی، خود قسطنطین اس معرکہ میں زخمی ہوا۔ اسلامی بیڑہ مظفر ومنصور اپنی بندرگاہ میں واپس آیا۔
متفرق فتوحات:قبرص، طرابلس اور طبرستان کے علاوہ حضرت عثمان ؓکے عہد میں اور بھی فتوحات ہوئیں۔31 ھ میں خبیب بن مسلمہ فہری نے آرمینیہ کو فتح کرکے اسلامی ممالک محروسہ میں شامل کرلیا۔