یادرفتگاں: ہم اسے یاد بہت آئیں گے۔۔۔۔ قتیل شفائی
ہم اسے یاد بہت آئیں گےجب اسے بھی کوئی ٹھکرائے گااس شعر کے خالق پاکستان کے نامور شاعر اور ممتاز و مقبول فلمی نغمہ نگار قتیل شفائی ہیں، جن کی آج برسی منائی جا رہی ہے۔ 24دسمبر 1919ء کو ہری پور ہزارہ میں پیدا ہونے والے قتیل شفائی 11 جولائی 2001ء کو طویل علالت کے بعداس دنیا سے رخصت ہوئے۔ برصغیر پاک و ہند میں بہت کم شعراء ایسے ہوں گے جنہوں نے نہ صرف ایک غزل گو کی حیثیت سے زبردست شہرت حاصل کی بلکہ فلمی گیت نگاری میں بھی نمایاں مقام حاصل کیا ۔ قتیل شفائی کا نام بھی ان معدود ے چند شعراء میں سے ایک ہے۔
اردو شاعری کو موسیقیت سے مالامال کرنے والے قتیل شفائی کا اصل نام اورنگزیب خان تھا، قتیل ان کا تخلص تھا جبکہ حکیم محمد شفائی ان کے استاد تھے ۔ اس حوالے سے وہ قتیل شفائی کے نام سے پہچانے جاتے تھے۔ وہ16برس کے تھے جب 1935ء میں والد کاسایہ سر سے اٹھ گیا۔ باپ کے ہوتے ہوئے جو آسانیاں تھیں وہ پل بھر میں غائب ہو گئیں اورتعلیم کا سلسلہ بھی منقطع ہو گیا۔ خاندان میں زیادہ تر تعداد ان پڑھوں کی تھی،کسی نے کاروبار کرنے کا مشورہ دیا۔ انہیں کھیلوں کے سامان کی ایک دکان بنا کر دے دی گئی۔ وہ لڑکا جس نے پیسے خرچ کرنا سیکھا تھا،کمانا نہیں، کاروبار کیسے کر پاتا؟نتیجہ وہی نکلا جو نکلنا تھا۔ پھر کسی سیانے کے مشورے پر سائیکلوں کی دکان بنا کر دے دی گئی جس کا انجام بھی کھیلوں کے سامان کی طرح ہوا۔ایبٹ آباد میں ایک اور دکان دی گئی جو صرف تیرہ دن چلی۔ کاروبارمیں ناکامی پر راولپنڈی آ گئے اور ایک ٹرانسپورٹ کمپنی میں کام شروع کر دیا ۔ بعد میں انہیں کچھ ادبی جرائد میں کام کرنے کا موقع ملا ۔ 1947ء میں پاکستان کی پہلی فلم ’’تیری یاد ‘‘ کے گیت قتیل شفائی نے تخلیق کئے ۔ بعد ازاں گیت نگاری کو انہوں نے پیشے کے طور پر اپنا لیا۔ انہوںنے بے شمار نغمات لکھے اور ہندکو زبان میں ایک فلم بھی بنائی ۔ ان کی شاعری کاکئی غیر ملکی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ۔ ان کے 20شعری مجموعوں میں ’’ہریالی، گجر،جلترنگ، جھومر، مطربہ، چھتنار، گفتگو، پیراہن اور آموختہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ شعری مجموعے ’’مطربہ ‘‘ پر انہیں آدم جی ایوراڈ دیا گیا جبکہ 1994ء میں انہیں تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا گیا ۔
قتیل شفائی بنیادی طور پر ایک رومانوی شاعر تھے ۔ ندرتِ خیال ، رچائو اور غنائیت ان کے وہ شعری اوصاف ہیں جن سے انکار ممکن نہیں ۔ ان کی شاعری میں جمالیاتی طرز احساس جس بھرپور توانائی اور تنوع کے ساتھ نظر آتا ہے اس کی مثال بہت کم ملتی ہے ۔ جمالیاتی طرز احساس کے ساتھ ساتھ انہوں نے شعری طرز احساس کو بھی نظر انداز نہیں کیا ۔ رومانیت کو اپنی شاعری میں انوکھے تخیل کی چادر میں لپیٹ کر انتہائی خوبصورت اور شستہ اسلوب میں بیان کر دینا قتیل شفائی کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ مندرجہ ذیل اشعار ملاحظہ فرمائیے !
یہ معجزہ بھی محبت کبھی دکھائے مجھے
کہ سنگ تجھ پہ گرے اور زخم آئے مجھے
وہ میرا دوست ہے سارے جہاں کو ہے معلوم
دغا کرے وہ کسی سے تو شرم آئے مجھے
جذباتیت اور قوت متخیلہ سے مزین اپنی شاعری کو وہ غیر منطقی انداز میں بیان کرنا پسند نہیں کرتے تھے ۔ دلیل اور منطق بھی ان کی شاعری میں ہمیں جا بجا ملتی ہے ۔ذیل میں ان کے یہ اشعار دیکھئے۔
گرتے ہیں سمندر میں بڑے شوق سے دریا
لیکن کسی دریا میں سمندر نہیں گرتا
اس چیز کا کیا ذکر جو ممکن ہی نہیں ہے
صحرا میں کبھی سایہ دیوار نہ مانگو
دل سلگتا ہے تیرے سرد روئیے سے قتیل
دیکھ اس برف نے کیا آگ لگا رکھی ہے
کلاسیکی شاعری میں رقیب کا تصور ہمیں مختلف حوالوں سے ملتا ہے ۔شعراء قدم قدم پر اپنے رقیب کو بے نقط سناتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔ کئی ایک کا رویہ خاصا جارحانہ بھی ہو جاتا ہے ۔لیکن ملاحظہ کیجئے کہ کس لطیف انداز میں قتیل شفائی نے رقیب کی ’’مذمت ‘‘کی ہے ۔
جب بھی آتا ہے میرا نام تیرے نام کے ساتھ
جانے کیوں لوگ میرے نام سے جل جاتے ہیں
اور اگر ان کے اس شعر کو ان کی رومانوی شاعری کی معراج قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا ۔
رقص کرتی ہوئی آتی ہے فضا سے بوندیں
کوئی بدلی تیری پازیب سے ٹکرائی ہے
قتیل شفائی کی رومانوی شاعری جب سلاست اور شگفتگی کا روپ دھارتی ہے تو قاری کو مسرت و انسباط کی نئی وادیوں میں اتار دیتی ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ حیرت و استعجاب کے دروازے بھی کھول دیتی ہے ۔ مندرجہ ذیل اشعار قاری کو تاثریت کے مختلف زاویوں سے آشنا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔
مجھ سے تو پوچھنے آیا ہے وفا کے معنی
یہ تیری سادہ دلی مار نہ ڈالے مجھ کو
وہ شخص کہ میں جس سے محبت نہیں کرتا
ہنستا ہے مجھے دیکھ کے نفرت نہیں کرتا
اب ذرا قتیل شفائی کی شاعری کی دوسری جہتوں پر نظر ڈالتے ہیں ۔ ان کی شاعری کا کینوس محدود نہیں ۔غم جاناں کے علاوہ وہ غم دوراں کے تلخ تجربات کو بھی اپنے اشعار کا موضوع بنانے سے نہیں ہچکچاتے ۔علاوہ ازیں ان کی شاعری میں ہمیں معروضی صداقتوں اور عصری کرب بھی پوری آب و تاب کے ساتھ نظر آتا ہے ۔
سچ بات پہ ملتا ہے سدا زہر کا پیالہ
جینا ہے تو پھر جرات اظہار نہ مانگو
ہو نہ ہو یہ کوئی سچ بولنے والا ہے قتیل
جس کے ہاتھوں میں قلم ، پائوں میں زنجیریں ہیں
ان کے تخیل کی اڑان تمام عمر جاری رہی ۔ ان کی شعری لغت ان کے مزاج کی بڑی نفاست سے نشاندہی کرتی ہے ۔ قتیل صاحب کی غزلیات میں ہمیں ’’رقص، دریا، محبت، پیالہ ، پائل ‘‘ اور ’’ہوا ‘‘ کے الفاط بکثرت ملتے ہیں جو حتمی طور پر ان کے شعری رویے کا پیراہن بن جاتے ہیں۔ انہوں نے زندگی کے مختلف تجربات و حوادث کو اپنے اسلوب میں بڑی خوبصورتی اور مہارت سے بیان کیا ہے ۔
قتیل صاحب کی زندگی کے مختلف رنگ تھے اور انہوں نے ان سب رنگوں کی ایک دھنک بنائی جو ان کے اشعار میں ہمیں جگہ جگہ دکھائی دیتی ہے ۔ خیالات کی ندرت اور تنوع بھی ایک شاعر کا وہ اثاثہ ہیں جن کا تذکرہ کئے بغیر اس کا مکمل طور پر محاکمہ ہو ہی نہیں سکتا ۔ قتیل شفائی اس میدان کے بھی شہ سوار ہیں ۔ ذرا یہ اشعار دیکھئے
رقص کرنے کا ملا حکم جو دریائوں میں
ہم نے خوش ہو کہ بھنور باندھ لئے پائوں میں
جو بھی آتا ہے بتاتا ہے نیا کوئی علاج
بٹ نہ جائے تیرا بیمار مسیحائوںمیں
میں اپنی ذات میں نیلام ہو رہا ہوں قتیل
غم حیات سے کہہ دو خرید لائے مجھے
قتیل شفائی کی شاعرانہ عظمت اور ان کے تخلیقی جوہر اور انفرادیت کا اعتراف اپنے وقت کے عظیم اور نام ور شعرا نے کیا ہے۔ ان میں فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، فراق گورکھ پوری اور دیگر شامل ہیں۔
قتیل شفائی کی شاعری کی دوسری اہم جہت ان کی فلمی نغمہ نگاری ہے جس نے انہیں بے پناہ شہرت عطا کی۔ قتیل صاحب نے ان گنت فلمی گیت لکھے۔ کچھ نقادوں کے نزدیک ان کی شہرت فلمی گیت نگاری کی وجہ سے زیادہ تھی۔ قتیل شفائی کے فلمی نغمات میں بھی رچائو، رومانویت اور غنائیت کا عنصر غالب تھا۔ان کی بڑی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے فلمی گیتوں میں معیار پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا ۔ عظیم سنگیت کار خواجہ خورشید انور نے ان کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ اپنی دھنوں کیلئے قتیل شفائی کے نغمات کو اس لئے پسند کرتے تھے کہ انہوں نے معیار کا دامن نہیں چھوڑا ۔ قتیل شفائی نے صرف پاکستانی فلموں کیلئے ہی نہیں بلکہ بھارتی فلموں کیلئے بھی گیت تخلیق کئے ۔ وہ بھارتی فلمی صنعت میں بھی بہت مقبول تھے ۔ بھارت کے مشہور و معروف گیت نگار جن میں مجروح سلطان پوری ، آنند بخشی ، ساحر لدھیانوی ، قمر جلال آبادی اور حسرت جے پوری شامل ہیں قتیل شفائی کے بڑے مداح تھے۔ اسے قتیل شفائی کی خوش بختی سے تعبیر کیا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ انہیں اعلیٰ درجے کے سنگیت کار مل گئے جنہوں نے ان نغمات کو لازوال شہرت سے ہمکنار کیا ۔ علاوہ ازیں جن گلوکاروں نے ان کے گیتوں کو اپنی آواز دی وہ بھی با کمال تھے ۔ ان کے زیادہ تر گیت میڈم نورجہاں ، مالا ، نسیم بیگم ، مہدی حسن اور سلیم رضا نے گائے ۔خواجہ خورشید انور ، ماسٹر عنایت حسین ، اے حمید اور نوشاد جیسے موسیقاروں نے ان کے نغمات کی دھنیں بنائیں۔ ہم ذیل میں اپنے قارئین کو قتیل شفائی کے چند لازوال گیتوں کے بارے میں بتاتے ہیں جو ان کی فنی عظمت کی گواہی دیتے ہیں ۔
1:زندگی میں تو سبھی پیار کیا کرتے ہیں
2: یہ محفل جو آج سجی ہے
3: ہر آدمی الگ سہی مگر امنگ ایک ہے
4: کیوں ہم سے خفا ہو گئے اے جان تمنا
5: یہ وادیاں یہ پربتوں کی شہزادیاں
6:ہم سے بدل گیا وہ نگاہیں تو کیا ہوا
7: پریشاں رات ساری ہے ستارو تم تو سو جائو
8: جھوم اے دل وہ میرا جان بہار آئیگا
9: کہاں ہو تم سہیلیوں ، آواز دو
10: حسن کو چاند جوانی کو کنول کہتے ہیں
11جولائی 2001ء کو طویل علالت کے بعد ہمارا یہ لاجواب شاعر اور گیت نگار موت کی وادی میں اتر گیا ۔ قتیل شفائی کی غزلیات اور فلمی نغمات کی چاشنی ہمیشہ قائم رہے گی ۔ بلا شبہ وہ ایک زندہ رہنے والے شاعر ہیں ۔