رسول اللہﷺ کی حسنین کریمینؓ سے محبت

تحریر : صاحبزادہ ذیشان کلیم معصومی


نبی کریمﷺ کو اپنے نواسوں سیدنا امام حسن ؓ اور سیدنا حضرت امام حسینؓ سے بہت محبت تھی۔ آپﷺ نے دونوں شہزادوں کی شان خود بیان فرمائی تاکہ امت کو اندازہ ہو سکے کہ یہ دونوں بھائی کس عظمت و شان، مقام و مرتبہ کے حامل ہیں۔کئی احادیث ان کی شان میں ہیں۔

حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ ’’جب سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں حضرت حسنؓ کی پیدائش ہوئی تو نبی کریمﷺ تشریف لائے اور فرمایا: میرا بیٹا مجھے دکھاؤ، تم نے اس کانام کیا رکھا ہے؟ آپؓ فرماتے ہیں میں نے عرض کی، میں نے اس کانام حرب رکھا ہے تو آپﷺ نے فرمایا: (نہیں) یہ تو حسنؓ ہے۔ جب حسینؓ کی ولادت ہوئی تو رسول اللہﷺ تشریف لائے اورفرمایا: مجھے میرا بیٹا دکھاؤ، تم نے اس کا نام کیا رکھا ہے؟ آپؓ نے کہا میں نے اس کا نام حرب رکھاہے تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: (نہیں)یہ حسینؓ ہیں۔ پھرجب تیسرے بچے کی ولادت ہوئی تو رسول اللہﷺ تشریف لائے اور فرمایا:مجھے میرا بیٹا دکھاؤ تم نے اس کانام کیا رکھا ہے؟ تو میں نے عرض کیا: میں نے اس کانام حرب رکھا ہے تو آپﷺ نے فرمایا: (نہیں)یہ محسنؓ ہیں۔ پھرفرمایا:میں نے ان کے نام حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد شبر، شبیر اور مشبر کے نام پہ رکھے ہیں(مستدرک حاکم : 4773)۔

حضرت عمران بن سلیمانؒ بیان کرتے ہیں کہ حسنؓ اور حسینؓ دونوں جنتی ناموں میں سے ہیں، دورجاہلیت میں یہ نام کسی کے بھی نہ تھے (اسد الغابہ، ج2، ص24)۔ امام احمد بن حنبلؒ روایت کرتے ہیں کہ سیدہ فاطمۃ الزہراؓکے ہاں جب امام حسین ؓ کی ولادت ہوئی تو انہوں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! کیا میں اپنے بیٹے کا عقیقہ کروں؟ ارشاد فرمایا: نہیں! پہلے ان کے بال اترواؤ اور بالوں کے وزن کے برابر چاندی صدقہ کرو (احمدبن حنبل :27253)۔ اُم المؤمنین سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت امام حَسن اور امام حُسین رضی اللہ عنہما کی پیدائش کے ساتویں دن بکریاں عَقیقہ میں ذَبح فرمائیں(مصنف عبد الرزاق: 7963)

نبی کریمﷺ نے حسنین کریمینؓ سے متعلق ارشادفرمایا ’’یہ دونوں میرے بیٹے ہیں ،میری بیٹی کے بیٹے ہیں، اے اللہ تو ان دونوں سے محبت فرما اور جو ان سے محبت رکھے اس کو اپنا محبوب بنا لے ‘‘(جامع ترمذی: 4138)۔ سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جس نے حسنؓ اور حسینؓ سے محبت کی، اس نے درحقیقت مجھ سے محبت کی اور جس نے حسنؓ اور حسینؓ سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا (ابن ماجہ: 148)۔

 حضرت عبد اللہ بن شدادؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے فرمایاکہ رسول اللہ ﷺ عشاء کی نمازکیلئے تشریف لائے، اس حال میں کہ آپﷺ حضرت حسنؓ یا حضرت حسینؓ کو اٹھائے ہوئے تھے، نبی کریمﷺ  انہیں بٹھا کر نماز ادا فرمانے لگے۔ آپ ﷺ نے طویل سجدہ فرمایا، میں نے سر اٹھاکر دیکھا کہ نبی کریمﷺ سجدہ میں ہیں اور شہزادے آپ ﷺ کی پشت انور پر ہیں۔ میں پھر سجدہ میں چلا گیا، جب رسول اللہﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو صحابہ کرامؓ نے عرض کیا:  آپﷺ نے نمازمیں سجدہ اتنا دراز فرمایا کہ ہمیں اندیشہ ہوا کہ کہیں کوئی واقعہ پیش تو نہیں آیا یا آپﷺ پروحی کا نزول ہورہا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اس طرح کی کوئی بات نہیں ہوئی سوائے یہ کہ میرا بیٹا مجھ پرسوار ہو گیا تھا، جب تک وہ اپنی خواہش سے نہ اترتے مجھے عجلت کرنا ناپسند ہوا(سنن نسائی: 1129)۔

 حضرت عبداللہ بن بریدہؓ  فرماتے ہیں کہ انہوں نے حضرت ابوبریدہ ؓکو فرماتے ہوئے سُنا نبی اکرم ﷺ ہمیں خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ حسنین کریمینؓ سرخ دھاری دار قمیص مبارک زیب تن کئے لڑکھڑاتے ہوئے آرہے تھے تو رسول اللہ ﷺ منبر سے نیچے تشریف لائے، امام حسنؓ و امام حسینؓ کوگود میں اٹھایا، پھر (منبر مقدس پر رونق افروز ہو کر) ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا، تمہارے مال اورتمہاری اولاد ایک امتحان ہے میں نے ان دونوں بچوں کو دیکھا لڑکھڑاتے ہوئے آ رہے تھے،مجھ سے صبر نہ ہو سکا، میں نے اپنے خطبہ کو موقوف کر کے انہیں اٹھا لیا (جامع ترمذی: 3707)۔حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسولِ خداﷺ سے پوچھا گیا کہ آپﷺ کو اہلِ بیت میں سے کس سے زیادہ محبت ہے؟ تو آپﷺ نے فرمایا: حسنؓ و حسینؓ سے، چنانچہ رسول اللہﷺ حضرت فاطمہؓ کو فرماتے کہ میرے بچوں کو میرے پاس بلائو، پھر آپﷺ انہیں چومتے اور سینے سے لگاتے (ترمذی: 3772)۔

حضرت حسینؓ اپنے نانا کی محبتوں، شفقتوں اور توجہات کے محور و مرکز رہے۔ رسولِ خداﷺ کی اپنے ان لاڈلوں سے اْلفت و موانست اور لاڈ بے مثال ہے۔ اللہ ہمیں اہل بیت کی سچی محبت نصیب فرمائے اور دشمنان اہل بیت کو نیست و نابود فرمائے۔ نواسہ رسول کی عظمت و شان کے صدقے پوری امت مسلمہ میں اتفاق و اتحاد قائم فرمائے، آمین۔

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭