وہ مصرعے جو مشہور ہو گئے!
اردو شعری سرمائے کے وہ مصرعے جو شاعروں کی زبان سے نکلتے ہی اتنے مشہور ہو گئے ہیں کہ آج تک زبان زد خاص و عام ہیں اور ان لوگوں کی روز مرہ گفتگو کا حصہ بن گئے ہیں کہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے شعری ذوق سے نوازا ہے بلکہ موقع محل کے مطابق عام لوگوں کی زبان پر بھی بے ساختہ آ جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی زبان پر بھی جنہیں شعر و شاعری سے کوئی خاص علاقہ نہیں ہوتا۔ ایسے خوش قسمت مصرعوں کے بارے میں آپ کیا کہیں گے۔
یہ مشہور و معروف مصرعے شہرت و مقبولیت میں اپنے آگے بڑھ گئے ہیں کہ ان شعراء کو کہیں دور پیچھے چھوڑ گئے ہیں، جنہوں نے یہ مصرعے کہے ہیں۔ بہت کم لوگ اب ان شاعروں کے نام سے واقف ہیں ۔وہ تو کہیں غبار راہ میں ہی گم ہو کر رہ گئے ہیں۔
اگرچہ تحقیق کرنے والوں نے اس موضوع پر کئی کتابیں بھی لکھ چھوڑی ہیں اور اپنی کتابوں میں ان شعراء کے نام ڈھونڈ ڈھونڈ کر درج کئے ہیں جو ان کے خالق ہیں مگر شعراء کے نام قارئین کے ذہن نشین ہونے والے نہیں اور عام طور پر کوئی نہیں جانتا کہ یہ مصرعے کس کے ہیں۔ نہ لوگ یہ معلوم کرنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں کہ یہ مصرعے کس کے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہ زبان زد خاص و عام مصرعے اکثر ایسے شعراء کے ہوتے ہیں، جنہیں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ وہ اپنے کہے ہوئے مشہور مصرعوں کے مقابلے میں بالکل گمنام ہیں۔ اگر کسی نے تحقیق و جستجو کرکے ایسے شعراء کا نام ریکارڈ کا حصہ بنا بھی دیا تو پھر بھی ان شعراء کی گمنامی میں کوئی فرق نہیں پڑا اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ مصرعے یا مقبول عام اشعار معاشرے کے اجتماعی شعور کا حصہ بن چکے ہیں اور معاشرے کے اجتماعی شعری شعور کا سرمایہ ہیں اور اجتماعی شعری شعور ہی کے نام اب ان کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ یہ مصرعے اب معاشرے کی روزمرہ گفتگو کا حصہ ہیں۔
میں نے اس مضمون میں اشعار کی بجائے مصرعوں کا ذکر کیا ہے۔ اس لئے کہ اس طرح زبان زد خاص و عام ہونے والے زیادہ تر مصرعے ہی ہیں۔ ان اکلوتے مصرعوں کا دوسرا مصرع شاذو نادر ہی کوئی جانتا ہے۔ اس کی اصل وجہ لوگوں کی بے خبری نہیں ہے بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ ان مشہور زبان زد خاص و عام مصرعوں کے دوسرے مصرعے فالتو ہیں۔ جو مصرع مشہور و معروف ہے وہ اپنے دوسرے مصرعے کے بغیر ہی مکمل ہے اور اپنا ماضی الضمیر پوری طرح ادا کر رہا ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر دوسرا مصرع ساتھ لگے تو زور بیان میں فرق آ جاتا ہے اور بسا اوقات مشہور مصرع اپنے تاثر اور اپنی کاٹ سے محروم ہو جاتا ہے اور ایسا تو اکثر ہوتا ہے کہ دوسرے مصرعے کا دم چھلا ساتھ لگنے سے مشہور مصرع اپنے معانی اور وسعت میں محدود ہو جاتا ہے۔ اسی لئے معاشرے کے اجتماعی شعری شعور نے دوسرے غیر ضروری مصرع کو طاق نسیاں پر رکھ دیا ہے۔ دوسرا مشہور مصرعے کو تاثر اور معانی کے لحاظ سے مجروح کرتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ مصرع غیر ضروری اور فالتو ہے اور مشہور مصرعے کی قدر و قیمت میں اضافہ کرنے کے بجائے الٹا اس کی قدر و قیمت گھٹا دیتا ہے۔ وہ جو کہا گیا ہے کہ دنیا بہترین کتاب ہے اور زمانہ بہترین استاد ہے۔ اسی بہترین استاد نے فالتو مصرعے کو ایک طرح سے قلمزد کر دیا ہے۔ اسی لئے بعض مشہور مصرعے کے دوسرے مصرعے محققین کو تلاش کے باوجود ملے ہی نہیں اور یہ ایک لحاظ سے بہتر ہوا ہے۔ خس کم، جہاں پاک۔
مندرجہ ذیل کچھ مصرعوں کے دوسرے مصرعے تلاش بسیار کے باوجود اس موضوع پر تحقیق کرنے والوں کو نہیں ملے۔
ع آثار کہہ رہے ہیں عمارت عظیم تھی۔
ع ہم تو ڈوبے ہیں صنم، تم کو بھی لے ڈوبیں گے۔
ع وہ شاخ ہی نہ ملی، جس پہ آشیانہ تھا۔
ع پھر نہ کہنا، ہمیں خبر نہ ہوئی
ع وہی رفتار ہے بے ڈھنگی جو پہلے تھی
ع باغباں بھی خوش رہے، راضی رہے صیاد بھی
ع ایک ڈھونڈ و ہزار ملتے ہیں۔
اب آیئے ان مشہور مصرعوں کی طرف، جن کے دوسرے مصرعے تحقیق کرنے والوں نے ڈھونڈ نکالے، مگر بے کار اور بے فائدہ۔ ان کو تلاش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ وہ جیسے پہلے گم تھے اب بھی کوئی نہیں جانتا۔ کسی کے ذہن نشین نہیں ہوئے۔ اس لئے میں نے ان مصرعوں کو یہاں نقل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ ذوق لطیف کو مجروح کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ ہم صرف ان مصرعوں کو دیکھتے ہیں جو زندہ ہیں۔ وقت ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکا۔
ع ایک دھوپ تھی کہ ساتھ گئی آفتاب کے۔
ع مجھ پہ احسان جو نہ کرتے تو یہ احساس ہوتا
ع روٹی تو کما کھائے کسی طرح مچھندر
ع آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا
ع اس گھر کو آگ لگ گئی، گھر کے چراغ سے
ع عاشق کا جنازہ ہے، ذرا دھوم سے نکلے
ع گیا ہے سانپ نکل، اب لکیر پیٹا کر
ع جن کا رتبہ ہے سِوا، ان کو سِوا مشکل ہے
ع زبان خلق کو نقارۂ خدا سمجھو
ع وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے
ع جدھر دیکھتا ہوں، اُدھر تو ہی تو ہے
ع کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے
ع زمین کھا گئی آسماں کیسے کیسے
ع اب جگر تھام کے بیٹھو، میری باری آئی
ع دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی
ع جو چپ رہے گی، زبان خنجر، لہو پکارے گا آستیں سے
ع زمین کھا گئی آسماں کیسے کیسے
ع مزا اس ملاپ میں ہے جو صلح ہو جائے جنگ ہو کر
ع ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا
ع کاغذ پہ رکھ دیا ہے کلیجہ نکال کے
ع میں ہوا کافر، تو وہ کافر مسلماں ہو گیا
ع یہ قصہ ہے جب کا کہ آتش جواں تھا
ع خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو سنا افسانہ تھا
ع گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں
ع مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
ع کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں
ع خوب طوطی بولتا ہے، ان دنوں صیاد کا
ع بد نام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا
ع وہ دن ہوا ہوئے کہ پسینہ گلاب تھا
ع دنیا یہی دنیا ہے تو کیا یاد روہے گی
ع دنیا جوان تھی مرے عہد شباب میں
ع چھوڑیئے رات گئے بات گئی۔
ع کچے دھاگے سے چلے آئیں گے سرکار بندھے
ع قدر کھو دیتا ہے ہر روز کا آنا جانا۔
ع جو بات کی، خدا کی قسم لاجواب کی
ع یہ ہوائی کسی دشمن نے اڑائی ہو گی
ع سب دوست ہیں اپنے مطلب کے، دنیا میں کسی کا کوئی نہیں
ع ہے دیکھنے کی چیز، اسے بار بار دیکھ
ع خاموش ہو گیا ہے چمن بولتا ہوا
ع خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو
ع جولوگ کچھ نہیں کرتے، کمال کرتے ہیں
ع کسی کی جان گئی، آپ کی ادا ٹھہری
ع ناخدا جن کا نہ ہو، ان کا خدا ہوتا ہے
ع اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
ع پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا
ع سکندر جب گیا دنیا سے دونوں ہاتھ خالی تھے
ع نہ ان کی دوستی اچھی، نہ ان کی دشمنی اچھی
ع خاموش ہو گیا ہے چمن بولتا ہوا
ع دنیا جوان تھی مرے عہد شباب میں
ع کس قیامت کے یہ نامے، کرے نام آتے ہیں
ع ایک دھوپ تھی کہ ساتھ گئی آفتاب کے۔
ع مجھ پہ احسان جو نہ کرتے تو یہ احساس ہوتا
ع آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا
ع اس گھر کو آگ لگ گئی، گھر کے چراغ سے
ع وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے
ع کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے
ع زمین کھا گئی آسماں کیسے کیسے
ع دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی
ع ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا
ع کاغذ پہ رکھ دیا ہے کلیجہ نکال کے
ع میں ہوا کافر، تو وہ کافر مسلماں ہو گیا
ع یہ قصہ ہے جب کا کہ آتش جواں تھا
ع گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں
ع مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
ع خوب طوطی بولتا ہے، ان دنوں صیاد کا
ع بد نام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا
جمیل یوسف شاعر اور بیوروکریٹ ہیں،
ان کی متعدد کتب بھی شائع ہو چکی ہیں