رضائے الٰہی کا حصول:اسلامی تعلیمات کی روشنی میں

اللہ تعالیٰ کی انسان پر بے شمار نعمتیں ہیں، جن کا انسان اگر شکر ادا کرنا چاہے تو نہیں کر سکتا۔ بہت سی ایسی ہیں جو بن مانگے اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہیں اور کچھ ایسی ہیں جو انسان کی محنت کے عوض اللہ تعالیٰ نے اسے عطا فرمائی ہیں۔ سب کچھ استعمال کرنے کے باوجود بھی بندہ اگر اللہ تعالیٰ سے راضی نہ ہو تو اس سے بڑی بدبختی کوئی نہیں ہو سکتی۔
رزق کی تقسیم کا اختیارخلاق عالم نے اپنے دست قدرت میں رکھا ہے۔ قرآن مجید میں واضح الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’زمین پربسنے والی کوئی ذی روح چیز ایسی نہیں ہے جس کا رزق اس کو باہم نہ پہنچ رہا ہو‘‘(ہود:6)۔ انسان کورزق بانٹنے میں تقسیم کا طریقہ کار یہ رکھا کہ کسی کو زیادہ دیا کسی کوکم دیا تاکہ ہر ایک اپنے خالق و رازق کا شکر ادا کرتا رہے۔ بعض دفعہ اللہ تعالیٰ کسی کو زیادہ دے کر آزماتا ہے کہ وہ اس سے خوش ہے یا نہیں، اور کسی کو تنگی دے کر آزماتا ہے کہ وہ کتنا راضی ہے۔ اگر انسان اللہ تعالیٰ جل جلالہ کے فیصلوں پر راضی ہو جائے تو ایسے انسان پر اللہ تعالیٰ بھی راضی ہو جاتاہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حوالے سے تعلیمات اسلام کا خلاصہ حسب ذیل ہے۔
آزمائش میں رضا الٰہی کاحصول
اللہ تعالیٰ کی برگزیدہ ہستیوں کی زندگیوں کا مطالعہ کریں تو واضح ہوتا ہے کہ ان کی زندگیاں بھرپور آزمائشوں میں گزریں۔ یہ آزمائشیں صبرواستقامت کی پیکر شخصیات کو نمایاں کرتی ہیں۔ مشکل حالات اور آلام و مصائب میں ان حضرات کی زبان پر شکوے شکایات کی بجائے حکمت پر مبنی کلمات ہوا کرتے ہیں۔ بندگان کے مصائب وآلام کوسہنا اور ان کی وجہ سے انعاماتِ خداوندی کے ملنے سے بندے پر واضح ہو جاتا ہے کہ مصیبتوں اورآزمائشوں پر صبر کرنا ہی انسان کیلئے بارگاہِ خداوندی سے خیر حاصل کرنے کابہترین ذریعہ ہے۔
حضرت انس بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ثواب اتنا ہی زیادہ ہو گا، جتنی آزمائش سخت ہوگی اور اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو پسند فرماتاہے تو اس کی آزمائش کرتاہے، جو(اس آزمائش پر) راضی ہوا، تواسی کیلئے(اللہ تعالیٰ کی)رضاہے اور جو(آزمائش پر) ناراض ہو تواس کیلئے ناراضی ہے‘‘(سنن ابن ماجہ:4031)۔حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ جس سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے مصیبت میں مبتلا فرمادیتا ہے‘‘(صحیح بخاری:5645)
ایمان کی مٹھاس
حضرت عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:جس شخص نے اللہ تعالیٰ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے اور محمد ﷺ کے رسول ہونے پر اپنی رضامندی کا دل سے اعلان کیا، اس نے ایمان کا مزہ چکھ لیا(صحیح مسلم:34)۔ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا :تین چیزیں جس شخص میں ہوں گی وہ ان کی وجہ سے ایمان کی حلاوت پا لے گا،(1)خدا اور اس کا رسولﷺ اسے ہر شے سے زیادہ محبوب ہوں، (2)کسی شخص سے محبت صرف خدا کیلئے کرے یعنی دنیا کی کوئی غرض اسے مطلوب نہ ہو، (3)جب خدا نے اسے کفر سے نجات دے دی تو پھر دوبارہ کفر کی طرف لوٹنے کو اس طرح ناپسند کرے، جس طرح اس چیز کو ناپسند کرتا ہے کہ اسے آگ میں پھینکا جائے(صحیح مسلم:49)۔
اللہ تعالیٰ کیلئے محبت کا مفہوم یہ ہے کہ دوست سے محبت کی بنیاد خاندان، قبیلہ، زبان، وطن یا دنیوی مفاد نہ ہو، بلکہ کسی سے اس لیے محبت ہوکہ وہ اللہ کے احکام کی تعمیل کرنے والا نیک آدمی ہے۔اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہﷺ سے محبت زیادہ ہونے کی علامت یہ ہے کہ جب بیوی بچوں، ماں باپ، دوست احباب یا دنیوی مفادات کا تقاضا کسی شرعی حکم کی خلاف ورزی کا ہو ،تو ان سب کو نظر انداز کرکے، ان کی ناراضی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کا حکم مان لیا جائے۔
گناہوں کی معافی
حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: مؤذن کی اذان سن کر جس نے یہ کہا:میں گواہی دیتاہوں کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی معبودحقیقی ہے وہ اکیلاہے اس کاکوئی شریک نہیں اوریقیناًحضرت محمدﷺاس(اللہ تعالیٰ) کے بندے اوررسول ہیں،میں اللہ تعالیٰ کورب مان کر،محمدﷺکورسول مان کراوراسلام کودین مان کرراضی ہوا،تواس کے گناہوں کی بخشش کردی جاتی ہے(صحیح مسلم:386)۔
جنت کاحصول
حضرت ابو سعید خدری ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اے ابوسعیدؓ! جو اللہ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر اور محمد ﷺ کے نبی ہونے پر راضی ہوا، اس کیلئے جنت واجب ہو گئی‘‘ (صحیح مسلم:1884)۔
ظلم سے نجات
حضرت ابو مجلز لاحق بن حمید ؓ بیان کرتے ہیں : جس شخص کو کسی حکمران ، امیر یا بڑے آدمی سے ظلم کا خدشہ ہو اور اس نے یہ کلمات پڑھے : میں اللہ تعالیٰ کے رب ہونے ، اسلام کے دین ہونے اور محمدﷺکے نبی ہونے ، قرآن کو حاکم اور امام ماننے پر راضی ہوں، تو اللہ تعالیٰ اس کو اس کے ظلم سے نجات عطا فرمائے گا(الترغیب والترہیب:2239)۔
جنت میں نبی کریم ﷺ کی رفاقت
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے صبح کے وقت کہا، میں اللہ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر اور محمدﷺ کے نبی ہونے پر خوش ہوں۔ میں (اس کیلئے جنت کا ) ضامن ہوں، اس کا ہاتھ پکڑ کر میں اسے ضرور جنت میں ساتھ لے جاؤں گا‘‘(المعجم الطبرانی فی الکبیر:838)۔
روز قیامت بندے کو اللہ خوش کر دے گا
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جو مسلمان صبح و شام تین مرتبہ یہ کلمات کہتا ہے: ’’میں اللہ کے رب ہونے پر ، اسلام کے دین ہونے پر اورمحمد ﷺ کے نبی ہونے پر راضی ہوں ،تو اللہ تعالیٰ اسے روز قیامت خوش کر دے گا‘‘ (مسنداحمد: 23112)۔
اللہ تعالیٰ کی رضاکاسبب
بننے والے اعمال
اللہ تعالیٰ کی رضاکے حصول کے اسباب بہت زیادہ ہیں مثلاًاللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول عظیم ترین مقصد ، پاکیزہ ترین ہدف اور کامل ترین کامیابی ہے۔ جو مسلمان بھی اللہ کو اپنا رب دل وجان سے قبول کر چکا ہو، اسے اللہ تعالیٰ سے قربت کے طریقے جاننے ، سمجھنے ، اپنانے اور انہیں زندگی کی پہچان بنا لینے کا اہتمام اور فکر کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ اللہ تعالیٰ کی توحید ، قرآن پاک سے گہرالگاؤ اور سنت مبارکہ سے وفاداری ہے۔ نبی کریمﷺ نے ہمیں یہ رہنمائی فرمائی کہ جو شخص دنیا سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ اخلاص پر رخصت ہوا ، نماز قائم کرتا رہا ، زکوٰۃدیتا رہا تو اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہو گا۔ نمازوں کی پابندی سے اللہ کی رضا نصیب ہوتی ہے۔ نماز کی پابندی کی نہ صرف خودبلکہ اہل و عیال کو بھی کرانی چاہیے۔ والدین کی خوشنودی اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا بہترین ترین راستہ ہے۔ ذیل میں ان چنداعمال کا ذکر کیا جاتاہے جواللہ تعالیٰ کی رضاکاسبب بنتے ہیں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ کا شکر ادا کرنا
حضرت عبداللہ بن عباس ؓسے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ’’دو نعمتیں ایسی ہیں جن میں اکثر لوگ اپنا نقصان کرتے ہیں،صحت اور فراغت‘‘(جامع ترمذی: 2304)۔صحت انسان کیلئے ایک بہت بڑی نعمت ہے ،اپنی صحت مندزندگی میں اپنی تمام تر طاقت وتوانائی کو اللہ کی اطاعت، اس کے دین کی سربلندی اور اپنے رب کی عبادت وبندگی میں صرف کرنا چاہیے۔ اسی طرح فراغت بھی ایک بڑی نعمت ہے، اس کوبھی عبادت، مخلوق خداکی خدمت اور اشاعت دین میں صرف کرکے ان نعمتوں کاحق ادا کرنا چاہئے ۔ اسی طرح اولاد ،مال ودولت ،علم وہنر،قوت واقتداربھی اللہ کی طرف سے عظیم نعمتیں ہیں ان نعمتوں کواللہ تعالیٰ کی اطاعت مخلوق خداکی بھلائی اورفلاح کے کاموں میں صرف کرنا اوراللہ تعالیٰ کاہرحال میں شکراداکرناچاہیے تاکہ اللہ تعالیٰ راضی ہوجائے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اگر تم کفر کرو تو بے شک اللہ تم سے بے نیاز ہے اور وہ اپنے بندوں کیلئے کفر (و ناشکری) پسند نہیں کرتا، اور اگر تم شکرگزاری کرو (تو) اسے تمہارے لئے پسند فرماتا ہے‘‘(الزمر:7)
نبی کریمﷺ نے نا شکری اورکفران نعمت کوجہنم میں جانے کے اسباب میں سے شمار کیاہے۔حضرت عبداللہ بن عمرؓبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اے عورتوں کی جماعت! تم صدقہ دو اور استغفار کرو کیونکہ میں نے دیکھا جہنم میں اکثر عورتیں ہیں۔ ایک عقلمند عورت بولی: یا رسول اللہﷺ! کیا سبب ہے، عورتیں کیوں زیادہ ہیں جہنم میں؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’وہ لعنت بہت کرتی ہیں اور خاوند کی ناشکری کرتی ہیں‘‘(صحیح مسلم:241)،جب ایک انسان کی ناشکری کے سبب سے انسان جہنم میں داخل ہوسکتاہے تو اللہ تعالیٰ کی ناشکری کاکیاوبال ہوگا۔
کھاناکھاکراللہ تعالیٰ کاشکراداکرنا
کھانا کھانے کے بعد اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتاہے ۔ حضرت انس بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ اس بندے سے راضی ہوتا ہے جوکھانے کا ایک لقمہ کھا کر اس پر اللہ کا شکر ادا کرے یا جو بھی چیز پئے اس پر اللہ کا شکر ادا کرے‘‘(صحیح مسلم:273)۔ حضرت انس ؓ سے مروی ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ جس شخص نے کھانا کھا یا پھر یہ دعا پڑھی:’’تمام تعریفیں اس اللہ کیلئے ہیں، جس نے مجھے یہ کھانا کھلایا اور جس نے مجھے بغیر میری طاقت اور قوت کے یہ رزق دیاتو اس کے اگلے اور پچھلے سارے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں‘‘ (سنن ابی داؤد:4023)۔
باپ کی رضارب کی رضا
حضرت عبد اللہ بن عمر وؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کی رضا والد کی خوشی میں اور اللہ تعالیٰ کی ناراضی باپ کی ناراضی میں ہے‘‘ (جامع ترمذی: 1899)۔ مذکورہ حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ والدین کو راضی کرنا فرض ہے اور انہیں ناراض کرنا حرام ہے۔ ان کی رضا میں اللہ کی رضا اور ان کی ناراضی میں اللہ تعالیٰ کی ناراضی ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے حق کے ساتھ والدین کا حق ذکر فرمایا: ’’میرا اور اپنے والدین کا شکرادا کرو‘‘ (لقمان: 14)۔حضرت ابو درداءؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’باپ جنت کا درمیانہ دروازہ ہے، لہٰذا اب تیری مرضی ہے، اسے ضائع کریا محفوظ رکھ‘‘(جامع ترمذی: 1900)۔
جن لوگوں پر اللہ تعالیٰ راضی ہوتا ہے
اے اطمینان پا جانے والے نفس!تو اپنے رب کی طرف اس حال میں لوٹ آ،کہ تو اس کی رضا کا طالب بھی ہو اور اس کی رضا کا مطلوب بھی (گویا اس کی رضا تیری مطلوب ہو اور تیری رضا اس کی مطلوب)۔ پس تو میرے (کامل) بندوں میں شامل ہو جا اور میری جنتِ (قربت و دیدار) میں داخل ہو جا‘‘(الفجر:27-30)۔مذکورہ بالاقرآنی آیات ،احادیث طیبات اورتصریحات ائمہ سلف وخلف سے واضح ہواکہ آزمائش میں صبرکرنا،اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہنا، گناہوں پرمعافی مانگنا،ظالم کے ظلم کے وقت ذکرالٰہی کرنا، اللہ تعالیٰ، ماں باپ اورانسانوں کاشکریہ ادا کرنا، کھانے کے بعددعامانگنا،ماں باپ کی خدمت کرنا جواللہ تعالیٰ کی رضاکے حصول کے اسباب ہیں،ہرمسلمان کوچاہیے کہ وہ ان امور کو بجا لائے تاکہ اسے دنیامیں برکت اورآخرت میں کامیابی حاصل ہو۔