تبصرہ وتذکرہ دوزردغزال دوپہر کے

’’دو زَردغزال دوپہر کے‘‘ صابر ظفر کا انچاسواں مجموعۂ کلام ہے جو ان کی 64 غزلوں پر مشتمل ہے۔اپنے کلام کی روانی اور استقلال کا اشارہ شاعر نے پہلی غزل کے مطلع میں ہی دے دیا ہے ۔کتاب کے حوالے سے سحر صدیقی لکھتے ہیں کہ معاصر اردو شاعری ، خاص طور پر اس کی صنف غزل کے حوالہ سے یہ بات نہایت حوصلہ افزاء محسوس ہوتی ہے کہ اس باب میں ممتاز ، منفرد اور کہنہ مشق شاعر صابر ظفر اپنا کردار نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ مسلسل ادا کر رہے ہیں۔ ان کی تخلیقی صلاحیتوں اور کامیابیوں سے ایک زمانہ واقف ہے۔
49ویں شعری مجموعہ ’’سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک نہایت مستقل مزاج اور پرعزم شاعر ہیں چنانچہ شعری مجموعہ جات کی تعداد کے اعتبار سے ان کا دور دور تک کوئی ثانی نظر نہیں آتا۔ ’’دو زرد غزال دوپہر کے ‘‘کا ایک قابل ذکر اور منفرد پہلو یہ ہے کہ اس میں شامل غزلیات اپنے اسلوب ، رنگ اور مزاج کے اعتبار سے تو یکساں ہیں لیکن ان میں مضامین ، موضوعات اور پیرائے کے تناظر میں ایسا امتیاز اجاگر ہوتا ہے جس کو شاعر کی ذہانت اور شعری مہارت کی گواہی بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس حوالہ سے یہ اشعار ملاحظہ فرمائیے۔
یہی کیا ہے منزل عاشقی ، دل مبتلا کو سزا ملی
کسی بے وفا کا مواخذہ ، جو نہیں ہوا سو نہیں ہوا
…٭…٭…
ازل سے ایسا غمِ ہجر کا تسلسل ہے
کبھی ہوا ہی نہیں دل ملال سے خالی
…٭…٭…
دل نے اسے کر دیا روانہ
کس در پہ گئی، دعا ہی جانے
…٭…٭…
حالیہ دنوں میں اجتماعی طرز فکر و عمل کے حوالہ سے جو حقائق اجاگر ہوئے ہیں ان کا احاطہ تو ممکن نہیں ہے لیکن اس ضمن میں جو ردعمل ، تاثرات اور تفکرات محسوس کیے جا رہے ہیں ان کی کوئی نہ کوئی شکل ، کسی نہ کسی طور ضرور مشاہدہ کی جا سکتی ہے۔ اس سلسلہ میں تجزیہ کاری اور تبصرہ آرائی کی اصناف کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی جاتی بلکہ باہمی احوال کا بیان ہی وہ کینوس ہے جس پر یہ نقش اجاگر کیے جاتے ہیں اور اس مقصد کے لیے اپنے اپنے خیالات کے رنگ اور انداز بھی اختیار کیے جا سکتے ہیں۔ محبت میں بلاشبہ بے شمار خوبیاں ہیں۔ فی الجملہ کہا جا سکتا ہے کہ عاشق اور محبوب ، اگرچہ دو مختلف شخصیات ہیں لیکن ان میں محبت ہی ایسی قدر مشترک ہے جو ان کو لازم و ملزوم کا درجہ اور حیثیت دیتی ہے۔ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اس حقیقت کی جہت اور وسعت سے شناسا ہو سکتے ہیںاور ان میں بلاشبہ صابر ظفر بھی شامل ہیں چنانچہ وہ اس تناظر میں یوں اظہار خیال کرتے ہیں۔
کوئی تصویر، پانی کی بنائیں
اسی تصویر میں پھر ڈوب جائیں
تعلق کیا رہے گا پھر ہمارا
اگر ہم بھی تیرا دھوکا نہ کھائیں
ایک آواز، دوسری آواز
پھر خموشی، پھر آخری آواز
چکرا کے گر نہ جائوں سر آب بے کنار
میں کر رہا ہوں ڈوبنے والوں کا انتظار
صابر ظفر کی شاعری کا تخلیقی سفر نہایت کامیابی کے ساتھ جاری ہے اور اس تناظر میں یہ بات بلاشبہ قابل اطمینان اور مسرت انگیز تصور کی جاتی ہے کہ انہوں نے اپنے اسلوب اور لہجے کے رنگ نہایت سلیقے اور قرینے کے ساتھ بکھیرے ہیں جس کے باعث ان کے ہر شعری مجموعہ پر مصوری کے کسی شاہکار (یعنی پینٹنگ) کا گمان گزرتا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ وہ لفظیات کے ضمن میں بھی محتاط انداز اختیار کرتے ہیں۔ گاہے یہ گمان گزرتا ہے کہ وہ اپنے جذبہ اور احساس کی شدت سے الفاظ کی اہمیت اور افادیت میں اضافہ کرتے ہیں۔ ان کے یہ اشعار، اس تاثر کی گواہی محسوس ہوتے ہیں۔
منزل کے قریب ہیں اگرچہ
یہ تو کسی اور کے قدم ہیں
…٭…٭…
ہم دشت سے آگے آگئے ہیں
اب گردِ ملال کا سفر ہے
…٭…٭…
صرف صابر ظفر کی شاعری کے مداح ہی نہیں بلکہ ثقہ ادبی ناقدین بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ صابر ظفر کو اپنے معاصرین میں ایک ایسا مقام حاصل ہے جس کو ہر کوئی رشک کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ صابر ظفر اپنی انکساری اور بردباری کی فطری اور خداداد عنایت کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔