حسن سلوک کی فضیلت

اُم المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، رحمت عالم ﷺ کا ارشاد ہے : ’’تم میں بہترین آدمی وہ ہے جو اپنے اہل وعیال کے حق میں بہتر ہو اور میں اپنے اہل کیلئے تم میں سب سے زیادہ بہتر ہو‘‘(رواہ الترمذی، مشکوٰۃ المصابیح)۔ انسان کیلئے بہت بڑی مونس اس کی بیوی بھی ہے۔
انسان کا خمیر انس سے ہے اور انسیت اس کی فطرت میں شامل ہے ، اس لیے ہر انسان کو اپنی اجتماعی زندگی کے علاوہ نجی زندگی میں بھی ایک ایسے مونس کی تلاش ہوتی ہے، جس کے سامنے وہ اپنی داستانِ زندگی بیان کر سکے ۔ کرۂ ارض پر کسی بھی انسان کے لیے نیک بیوی سے بڑھ کر کوئی مونس نہیں۔ اﷲ رب العزت نے مرد کیلئے سب سے بڑا مونس اس کی بیوی کو بنایا،جیساکہ ارشادِ باری تعالیٰ سے واضح ہوتا ہے : ’’یعنی اس کی ایک نشانی یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تم ہی میں سے بیویاں پیدا کیں، تاکہ تم ان کے پاس جاکر سکون حاصل کرو‘‘ (الروم: 21) ۔
علاوہ ازیں ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق اور اس کے بعد جنت میں بی بی حوا علیہا السلام کا وجود، پھر ان کا آپس میں نکاح بھی اس بات کا ایک بڑا ثبوت ہے ۔غور کیجئے! جنت میں کس لطف و مسرت کی کمی تھی؟ہر سو نعمتوں کی بارش ، ہر طرف انوار کی تابش ، لیکن حضرت آدم علیہ السلام اس پر بھی اپنے دل کا ایک گوشہ خالی پاتے ہیں، محسوس ایساہوتاہے کہ اب بھی کوئی خلاہے ، پھر اتمامِ نعمت کے لیے اللہ تعالیٰ کی جانب سے یہ نہیں ہوتاکہ جنت کی لذتِ مادی اور سرورِ روحانی میں کچھ اضافہ کردیاجائے، بلکہ تخلیق ہوتی ہے آدم علیہ السلام ہی سے ایک اورمخلوق کی، اور اسی سے اس کی بیوی پیدا کی، سیدنا آدم علیہ السلام کا دل اب جاکر تسکین پاتا ہے ، نوازشوں اور بخششوں کی تکمیل گویااب جاکر ہوئی، سیدنا آدم علیہ السلام کے حق میں جنت حقیقی معنی میںجنت اب جاکر ثابت ہوئی جب مرد کے لیے عورت اور شوہر کے لیے بیوی وجود میں آئی۔
بہتر وہ ہے جو اپنے
اہل وعیال کیلئے بہتر ہو
جب یہ حقیقت ہے توایمان، اخلاق اور عقل کاتقاضہ ہے کہ اس کے ساتھ حسنِ سلوک کیا جائے ، اس کے بغیر انسان سکون و اطمینان حاصل کر بھی نہیں سکتا، کیونکہ اس سے انسان خود بھی سکون پائے گااو رگھر کا ماحول بھی پرسکون رہے گا، اورگھریلو زندگی اگر پر سکون ہے تو اس کا اثر بیرونی زندگی پر لازمی ہے ، اور گھریلو زندگی خوشگوار ہوگی بیوی کے ساتھ حسن سلوک، ادائے حقوق اور خوش اخلاقی کا معاملہ کرنے سے ، اس لیے قرآن نے حکم دیا: ’’اور ان کے ساتھ بھلے انداز میں زندگی بسر کرو‘‘ (النساء:19)۔
گویا حق تعالیٰ شوہروں سے بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کی سفارش فرماتے ہیں، لہٰذا اے نئے پرانے دولہو! حق تعالیٰ کی اس سفارش کو قبول فرماکر اپنی دلہنوں کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کرو، چاہے تمہاری بیویاں تم پر غالب آجائیں، یہی ایک کریم اور شریف شوہر کی پہچان ہے ۔ حدیث مذکور میں اس حقیقت کو حضورِاکرم ﷺنے بیان فرماکر اپنا عمل بھی اس سلسلہ میں امت کے سامنے پیش کیا، ارشاد فرمایا:خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِأَھْلِہ‘ ’’تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کیلئے بھی بہتر ہو‘‘۔ اہل خانہ سے آدمی کا جتنا واسطہ پڑتا ہے عموماً اتنا دوسروں سے نہیں پڑتا، پھر گھر والوں سے بسا اوقات خلافِ مزاج باتیں بھی پیش آتی ہیں، اب ایسے موقع پرچشم پوشی اور خوش اخلاقی سے کام لیا، تو یہ اس کے بہترین ہونے کی دلیل ہے ۔
باہر بڑائیاں، گھر میں
لڑائیاں،یہ بد اخلاقی ہے
جن کا سلوک باہر تو اچھا ہو مگر اہل خانہ کے ساتھ برا ہو، تو یہ ان کے بد اخلاق ہونے کی دلیل ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے بنیادی بات بیان فرمادی، ارشاد ہے: خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِأَہْلِہ ’’تم میںبہترین فرد وہ ہے جواپنے اہل خانہ کیلئے بہتر ہو‘‘۔یہ حدیث بھی بڑی جامع ہے ، اس کامطلب یہ ہے کہ اگر ہم مرد ہیں تو ہمیں چاہیے کہ ہم ماں باپ کیلئے اچھی اولاد، بہن کیلئے اچھے بھائی، بیوی کیلئے بہتر شوہر اور گھر والوں کیلئے اچھے فرد ثابت ہوں۔ یہی حال عورتوں کا بھی ہوکہ وہ اپنے ماں باپ کیلئے اچھی اولاد، بھائی کیلئے اچھی بہن، شوہر کیلئے اچھی بیوی اور گھروالوں کیلئے نیک عورت ثابت ہوں۔اگر واقعی معاملہ ایساہے تو یہ ان کے اچھے اور نیک ہونے کی علامت ہے ۔
امام ربانی، محبوبِ سبحانی، غوثِ صمدانی، شیخ یزدانی، پیر حقانی ، عامل قرآنی، ولایت کی نشانی، شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیںکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺکے نزدیک سب سے بہتر شوہر وہ ہے جو بیوی کی نظر میںبہترہو، اور سب سے بہتر بیوی وہ ہے جو شوہر کی نظر میں بہتر ہو۔لقمانِ حکیمؒ نے فرمایا : میں طویل تجربہ کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ سب سے بہتر دوا محبت و عزت ہے ، کسی نے کہا: اگر یہ بھی اثر نہ کرے تو؟فرمایا: دوا کی مقدار بڑھا دیں، اس کا فائدہ دونوں کو ہوگا۔
حضور ﷺ کااہلخانہ سے سلوک
آگے حضور ﷺ نے فرمایا: أَنَا خَیْرُ کُمْ لِأَھْلِیْ’’میں تم میں اپنے اہل کیلئے سب سے بہتر ہوں‘‘۔ آپ ﷺ اپنے اہل بیت اور اپنی تمام ازواجِ مطہراتؓ کے ساتھ حسن سلوک فرماتے ، کبھی کسی کو ناراضی یا شکایت کا موقع نہ دیتے، ہمیشہ ان کی دلجوئی کرتے تھے ، جس کا نتیجہ یہ تھا کہ ہر بیوی یہ سمجھتی کہ حضوراکرم ﷺ کو دیگر ازواجِ سے زیادہ مجھ سے محبت ہے۔
آپ ﷺ نے گیارہ شادیاں کیں، اور بیک وقت نو بیویاں آپ ﷺ کے ساتھ تھیں، (جو آپ ﷺ کی خصوصیات میں سے ہے) جب مدینہ طیبہ میں ہوتے تو روزانہ عصرکے بعد تمام ازواجِ مطہراتؓ کے پاس تشریف لے جاتے، اور ہر ایک کی ضرورت معلوم کر کے اس کی تکمیل فرماتے ، ازواج کے مابین شب باشی کی باری متعین فرماتے ، گو آپ ﷺ پر اس کی پابندی شرعاً لازم نہیں تھی لیکن آپ ﷺ اپنی جانب سے اس کا پورا اہتمام فرماتے، جب سفر پر روانہ ہوتے تو ازواج کے درمیان قرعہ اندازی فرماتے ، جس کا نام نکل آتا اسے ساتھ لے جاتے، یہ بھی ازواج کی تالیف قلب کیلئے تھا۔غرض سیرتِ رسول اللہ ﷺ میں ازواجِ مطہرات کی دلداری کے سلسلہ میں کئی واقعات ملتے ہیں ۔
حضور ﷺ کا اہلخانہ سے سلوک کا واقعہ
ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ رحمت دو عالم ﷺ باہرسے تشریف لا رہے تھے ، گھر کے صحن میں سیدہ عائشہ ؓ کو دیکھا کہ پیالہ سے پانی پی رہی ہیں، وہیں سے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے حمیرا!(اس پیارے جملے سے) اندازہ لگائو! حضورﷺ کا اپنی بیوی سے کتنا محبت بھرا معاملہ تھا!آپﷺ ان کو کبھی پیار سے ’’حُمَیْرَا‘‘ فرماتے ، یہ حضرت عائشہؓ کا لقب ہے ، جو’’حَمْرَائُ‘‘ کی تصغیر ہے ، جس کے معنی ہیںسرخ رنگ والی، یعنی گوری، مگر محققین محدثین کے نزدیک یہ سنداً ثابت نہیں کبھی یَا عَائِش! فرماتے ، یہ سب بیوی کو پکارنے کے پیارے انداز تھے ۔
اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ یہ بھی سنت ہے کہ بیوی کو پیار بھرے نام سے پکارا جائے۔ آج اس سنت کو گھروں میں زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس پر عمل کرنے سے آپس میں محبت پیدا ہو کر نفرت دور ہو گی۔ تو فرمایا: اے حمیرا ! تھوڑا پانی میرے لیے بھی بچانا۔غور فرمائیں !بیوی امتی ہے ، شوہر نبی ہے، برکتیں نبی کی ذات کے ساتھ وابستہ ہوتی ہیں، مگر سبحان اﷲ! آپ ﷺ اپنی رفیقۂ حیات کے بچے ہوئے پانی کو پینا چاہتے ہیں، آگے سنیے ! جب سیدہ عائشہ ؓ نے کچھ پانی بچا کر خدمت اقدس میں پیش کیا تو نوش فرمانے سے پہلے معلوم کہا: اے حمیرا ! تم نے اس پیالہ کے کس حصہ سے لب لگاکر پانی پیا؟ تاکہ میں بھی اس جگہ سے پانی پیو ں۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں پانی پیتی، یا ہڈی چوستی، پھر میں آپ ﷺ کو دیتی تو آپ ﷺ اسی مقام سے نوش فرماتے اور ہڈی سے گوشت نکال کر کھاتے جہاں سے میں پیتی یا کھاتی ۔ (مسلم/ شمائل کبری)
محبت کا جواب محبت سے ملتا ہے
اگر خاوند اپنی بیوی کو اس طرح پیار دے ، اس کے ساتھ اس قسم کا حسن سلوک اور دلجوئی کا معاملہ کرے ، تو کیا بیوی کا دماغ خراب ہو گیا ہے کہ وہ محبت کا جواب محبت سے نہ دے ؟ ضرور وہ بھی محبت کا جواب محبت ہی سے دے گی، پہلے کوئی ابتدا تو کرے ،ا س لیے کہ عورت کی فطرت میںیہ بات ہے کہ اس کے ساتھ محبت اور نرمی کامعاملہ کیاجائے تو وہ جان تک قربان کرسکتی ہے ، لیکن اگر حقارت اور سختی کامعاملہ کیاجائے تووہ اپنی جان تک گنوا دیتی ہے۔
جب حضوراکرم ﷺ اس قدر محبت کا معاملہ فرماتے تو جواباً سیدہ عائشہ ؓ بھی اسی قدر محبت کا معاملہ کرتیں، خود فرماتی ہیں کہ جب حضور اکرمﷺعشاء کے بعد میری باری میں گھر تشریف لاتے تو میں کبھی فرطِ محبت میں یہ اشعار پڑھتی:
لَنَا شَمْسٌ وَلِلاٰفَاقِ شَمْسٌ
وَشَمْسِیْ خَیْرٌ مِنْ شَمْسِ السَّمَآئِ
فَاِنَّ الشَّمْسَ تَطْلُعُ بَعْدَ فَجْرٍ
وَشَمْسِیْ طَالِعٌ بَعْدَ الْعِشَآئِ
’’ایک سورج تو ہماراہے ،اور ایک سورج آسمان کا ہے ، میرا سورج آسمان کے سورج سے بہتر ہے ، کیوںکہ آسمان کا سورج تو فجر کے بعد طلوع ہوتا ہے ، اور میرا سورج عشاء کے بعد طلوع ہوتا ہے ،اور اس کی روشنی عشاء کے بعد بھی باقی رہتی ہے ‘‘ (مثالی دلہن)۔
اہلخانہ سے حسن سلوک
پر مغفرت
بہر حال حضوراکرم ﷺ کی پوری زندگی ساری امت اور اس کے ہر فرد کیلئے نمونہ ہے ۔ آپ ﷺ امت کو بتلانا چاہتے تھے کہ اہل خانہ کے ساتھ اس طرح حسن سلوک کرنا چاہیے ، آپ ﷺنے خود بھی ایسا کیا او رامت کو بھی اس طرف متوجہ فرمایا: ’’ خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِأَھْلِہ، وَأَنَا خَیْرُکُمْ لِأَھْلِیْ‘‘ اہل خانہ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے والا حقیقت میں اچھا ہے ، ہماری کوئی تعریف کر دے ، اچھا کہہ دے ، خصوصاً کہنے والا کوئی بڑا ہو تو پھولے نہیں سماتے ،پھر کیا خیال ہے اس شخص کے بارے میں جسے حضورِ اکرم ﷺ بہتر قرار دیں، اس سے زیادہ اچھا کون ہو سکتا ہے ؟ یہی کیا کم فضیلت کی سند ہے ؟ اہلخانہ کے ساتھ حسن سلوک کے فضائل اس کے علاوہ اور بھی ہیں۔
ایک حدیث میں ہے ، حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ کی روایت ہے ، حضورِاکرم ﷺ فرماتے ہیں ’’ قیامت کے دن میری امت کے ایک شخص کو لایا جائے گا ،جس کے پاس بظاہر ایسی کوئی نیکی نہ ہوگی جس سے وہ جنت کی امید کر سکے ، مگر حق تعالیٰ فرمائیںگے کہ فرشتو! اس بندے کو جنت میں داخل کر دو، اس لیے کہ یہ اپنے اہل و عیال پر بڑا مہربان تھا ،ان کے ساتھ اس کا سلوک بڑا اچھا تھا‘‘(کتاب البر/ از: شمائل کبریٰ)۔ اس سے ثابت ہوا کہ جوشخص اہل خانہ کیلئے بہتر ہوگا وہ اوروں کیلئے بھی بہتر ہوگا اور اس کے نتیجہ میں اس کی دنیا وعقبیٰ دونوں بہتر ہوگی۔ انشاء اللہ ، اﷲ پاک ہمیں ان صفات سے آراستہ ہونے کے ساتھ معاشرہ اور گھر کا اچھا فرد بننے کی توفیق عطا فرمائے ، آمین۔