دوستی کا انداز

ہم سب دوستوں میں میشا سب سے اچھی اور نیک دل تھی۔ ہمیشہ سب کا خیال کرتی، ہر کسی سے محبت اور دوستی سے پیش آتی لیکن اس کے باوجود اکثر لڑکیاں اس کا مذاق اڑاتی تھیں۔ مذاق اڑانے کی وجہ اس کا وزن تھا۔
وہ صحت مند تھی اور اس بات پر دوسری لڑکیاں اسے تنگ کیا کرتی تھیں۔ وہ اس بات پر اکثر پریشان رہتی لیکن سکول کی ساتھی سہیلیاں اس کا مذاق اڑانے کا کوئی موقع نہیں چھوڑتی تھیں۔ مجھے یہ بات کبھی اچھی نہیں لگتی تھی۔ مجھے یوں بھی مذاق اڑانے کی عادت بری محسوس ہوتی تھی۔ ایسے میں یہ کیسے ممکن تھا کہ میں اپنی سہیلی کو سب کے مذاق کا نشانہ بنانے سے نہ روکتی؟ گرمیوں کی چھٹی کے بعد ہم سب جمع ہوئے تو میشا کچھ پریشان سی تھی، میں نے اس سے سوال کیا، میشا کیا کسی بات پر پریشان ہو؟ میشا جیسے اداس سی ہو گئی اور پھر بولی،’’ بیا! سب میرا مذاق اڑاتے ہیں کہ میں موٹی ہوں، میں کیا کروں، کیا کسی کا مذاق اڑانا اچھی بات ہے‘‘؟۔میں نے کہا ’’ میشا! تمہیں یہ بدتمیزی برداشت کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہم پرنسپل کے دفتر میں جائیں گے اور اس بات کی شکایت کریں گے‘‘۔یہ مشورہ میشا کو اچھا نہیں لگا کیونکہ وہ کسی کی شکایت نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن اب کوئی دوسرا راستہ مجھے نظر نہیں آ رہا تھا۔ تبھی میں نے ایک فیصلہ کیا۔ میں لنچ بریک میں اپنی اردو کی مس عارفہ کے پاس آ گئی۔ وہ اسٹاف روم میں بچوں کی کاپیاں چیک کر رہی تھیں۔ میں نے کہا ’’مس مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے‘‘۔ مس نے مسکرا کر مجھے خوش آمدید کہا اور ساری بات سننے کے بعد بولیں ’’ آپ اپنی کلاس میں جایئے، میں اس سلسلے میں کچھ بات کرتی ہوں‘‘۔ایک دن کلاس میں سب لڑکیاں موجود تھیں۔ مس نے سب کو مخاطب کرکے کہا ’’ بچیو! آپ سب ایک دوسرے کی دوست ہیں‘‘؟۔
بچیاں آج مس کے منفرد سوال پر حیران تھیں۔ انہوں نے ایک زبان ہو کر جواب دیا،’’جی مس‘‘! تو کیا آپ یہ جانتے ہیں دوستی کی حقیقت کیا ہے؟ ایک دوست کو دوسرے دوست کے ساتھ کیسا برتائو کرنا چاہئے؟اب کلاس میں آہستہ آہستہ گفتگو شروع ہو گئی، مس نے سب کو بحث میں مصروف دیکھا تو بولیں، ’’میرے سوال کاجواب میں آپ لوگوں سے سننا نہیں چاہتی بلکہ آپ لوگ مجھے اپنے اپنے جواب لکھ کر دیجئے‘‘۔ایک بچی نے سوال کیا ’’ مس کیا ہمیں’’ میری بہترین سہیلی‘‘پر مضمون لکھنا ہے؟‘‘ اب مس مسکرائیں اور بولیں ’’ نہیں! آپ سب کو مضمون لکھنا ہے، دوستی کے انداز پر۔ یہ بتایئے کہ دوستی کیا ہے، ایک دوست کو کیسا ہونا چاہئے، ایک دوست کی خوبی اور خرابی کیا ہے۔ اور کیا آپ ایک اچھی دوست کہلانے کے لائق ہیں‘‘۔مس نے جو کام ان کو دیا تھا، وہ اب تک دیئے گئے مضامین سے بالکل مختلف تھا۔ وہ سب بہت پرجوش ہو کر کام میں مگن ہو گئیں۔ پندرہ منٹ بعد سب لڑکیوں نے اپنے اپنے مضمون مس کے پاس جمع کروائے۔ پھر بقیہ سبق یاد کروایا گیا اور مس کا پیریڈ ختم ہو گیا۔ مس جماعت سے گئیں تو سب اگلے پیریڈ کی پڑھائی میں مگن ہو گئے۔
شام میں سب نے زینت کے گھر جمع ہونے کا منصوبہ بنایا۔ میں ابھی تیاری کر رہی تھی کہ میشا آن پہنچی۔ وہ بالکل صحیح وقت پر آئی تھی، وہ تو مجھے تیار ہونے میں دیر ہو گئی تھی۔’’ چلو گی بھی یا آئینے کے سامنے کھڑی رہو گی؟ میشا نے ہنس کر کہا ۔’’ بس ایک منٹ، پھر چلتے ہیں‘‘ میں نے ہیئر برش بالوں میں پھیرتے ہوئے کہا۔ اتنے میں امی چائے اور دوسرے لوازمات وغیرہ کی ٹرے لئے اندر داخل ہوئیں۔ میشا نے امی کے اصرار پر ایک بسکٹ اٹھایا اور چائے پیئے بنا ہی ہم زینت کے گھر کی طرف چل پڑے۔ زینت ہماری منتظر تھی۔ اس نے ہمیں اپنے کمرے میں بٹھایا اور خود گھر کے اندر چلی گئی۔ ڈرائنگ روم میں صوفی پہلے سے بیٹھی تھی۔ میں صوفی کے سامنے والے صوفے پر بیٹھ گئی جبکہ میشا زینت کی مدد کرنے کیلئے باورچی خانے میں چلی گئی مگر وہ اور آنٹی پہلے ہی چائے کی ٹرے کو سجا کے کچن کے بکھرے ہوئے سامان سمیٹ چکے تھے۔ میشا، زینت کے ساتھ چائے کی ٹرے لئے کمرے میں داخل ہوئی تب صوفی بولی، ’’ میشا تمہیں کھانے کی اتنی جلدی تھی کہ خود ہی اندر چلی گئیں‘‘۔ یہ کہہ کر وہ ہنسنے لگی لیکن مجھے صوفی کی یہ حرکت اچھی نہیں لگی۔ میں نے کہا ’’صوفی! آج مس نے کلاس میں دوستی پر مضمون لکھوایا تھا، وہ مضمون لکھتے ہوئے تمہیں اس بات کا اظہار آیا کہ دل دکھانے والے بدترین انسان ہیں اور دوستی کے قابل نہیں ہوتے‘‘۔
یہ بات سن کر صوفی کا چہرہ سرخ ہو گیا اور وہ غصے میں بولی، ’’ میں نے ایسا کیا کہا ہے، وہ اتنی موٹی ہے تو اسے موٹا ہی کہا جائے گا نا‘‘؟ زینت کو اندازہ ہوا کہ یہ ملاقات لڑائی میں بدل رہی ہے تو وہ نرمی سے بولی، صوفی، کسی کو موٹا پتلا کہنا اچھی بات تو نہیں اور یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ مذاق اڑانا برا ہے۔ ہم سب دوست ہیں، اور دوستی کا پہلا اصول یہ ہے کہ ایک دوسرے کا خیال کیا جائے، ایک دوسرے کو تکلیف نہ دی جائے اور ایک دوسرے کی خوشی اور غمی میں شریک ہوا جائے‘‘۔اب صوفی زیادہ ناراض ہوئی۔ اس نے کہا، بھئی تم سب مل کر میرے پیچھے پڑ گئی ہو، میں نے بس مذاق کیا تھا۔ کیا دوست مذاق نہیں کر سکتے؟‘‘ صوفی تم میری ہم جماعت ہو، اگر میں کہوں کہ تمہاری بات سے مجھے تکلیف ہوئی ہے تو کیا تم آئندہ ایسی باتیں کرو گی؟ مجھے اندازہ ہے کہ میں موٹی ہوں، لیکن یہ مذاق اڑانے والی بات تو نہیں۔ ہم سب مختلف ہیں کوئی لمبا ہے، کوئی چھوٹا ہے، کوئی دبلا ہے اور کوئی موٹا ہے، یہ خوبی تو ہم سب کی منفرد پہچان ہے، ہمیں اس کا مذاق نہیں اڑانا چاہئے‘‘۔
میشا کی بات سن کر صوفی شرمندہ سی ہو گئی اور اس نے میشا سے معافی مانگی۔ میشا نے فوراً ہی اسے معاف کر دیا اور سب زینت کی دعوت سے لطف اندوز ہونے لگے۔ اگلے دن سکول میں اردو کا پیریڈ شروع ہوا تو مس عارفہ نے سب کے ٹیسٹ پیپرز واپس کئے اور پھر بولیں، مجھے دوستی کے بارے میں آپ سب کے خیالات جان کو اچھا لگا، مجھے امید ہے کہ دوستی کے بارے میں آپ اپنے خیالات پر عمل بھی کریں گے اور ایک دوسرے کا ساتھ دے کر دوستی کی حقیقت پہچان لیں گے‘‘ ۔بچو! ہمیشہ یاد رکھئے گا، دوستی کا انداز یہ ہے کہ ایک دوسرے کا خیال رکھا جائے،ایک دوسرے کا ساتھ دیا جائے۔ دوستی بھروسہ اور اعتماد کا نام ہے، یہ دکھ نہیں دیتی بلکہ ایک دوسرے کا دکھ بانٹنا سکھاتی ہے۔ آیئے دوستی کے اصولوں پر عمل کریں اور پکے دوست بن جائیں۔