بلوچستان میں بدلتا سیاسی موسم
بلوچستان میں پچھلے کچھ دنوں سے موسم سرد ہونا شروع ہوگیا ہے۔ سال کے اختتامی مہینوں میں اس طرح کا موسم یہاں نئی بات نہیں مگر جو نئی بات ہے وہ یہ کہ جیسے جیسے موسم سرد ہور ہا ہے سیاسی ماحول گرم ہوتا جارہا ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے عام انتخابات کیلئے جنوری کے آخری ہفتے کا وقت دینے پر صوبے کے سیاسی لیڈروں کا ملا جلا ردعمل سامنے آیا۔
بعض سیاسی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں عام انتخابات جنوری کے مہینے میں ہونا ناممکن ہے کیونکہ ان دنوں موسم شدید سرد ہو گا اور ایسے میں ووٹرز کا حقِ رائے دہی استعمال کرنے کیلئے نکلنا مشکل ہو گا ۔بعض سیاسی رہنماپرانی حلقہ بندیوں پر عام انتخابات کے فیصلے کو ماننے سے انکاری ہیں ،ان کے مطابق الیکشن کمیشن عام انتخابات کیلئے نئی حلقہ بندیاں کرواکر الیکشن کروائے، تاہم بیشتر سیاسی رہنماجنوری یا فروری میں عام انتخابات کیلئے تیاریاں شروع کر چکے ہیں۔ جہاں تک قومی سطح کی سیاسی جماعتوں کی بات ہے تو وہ پہلے سے ہی بلوچستان کے حوالے سے کافی سرگرم تھیں،جو کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے عام انتخابات کے اعلان کے بعد مزید متحرک ہو گئی ہیں۔ حال ہی میں پاکستان پیپلز پارٹی نے عام انتخابات کیلئے ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالے سے پارلیمانی کمیٹیاں تشکیل دیں۔ جہاں تک مسلم لیگ( ن) کی بات ہے تو صوبائی صدر شیخ جعفر مندوخیل بھی پچھلے کچھ دنوں سے خبروں کی سرخیوں کی زینت ہیں ۔ ان کے مطابق صوبے کے بڑے پائے کے سیاسی رہنما عنقریب مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کریں گے۔ بلوچستان کی قوم پرست سیاسی جماعتوں کی بات کی جائے تو بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل اور نیشنل پارٹی بھی صوبے میں انتخابی اتحاد کی جانب بڑھ رہی ہیں اور سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق مستقبل قریب میں دونوں قوم پرست جماعتوں کے درمیان انتخابی اتحاد ہوتا نظر آرہا ہے جو یقینی طورپر انتہائی اہمیت کا حامل ہو گا کیونکہ یہ دونوں جماعتیں بلوچستان کے بلوچ آباد علاقوں میں سیاسی اثر ورسوخ رکھتی ہیں ۔جہاں تک صوبے کے پشتون آباد علاقوں کی بات ہے تو وہاں جمعیت علمائے اسلام(ف) بہتر پوزیشن میں ہو گی کیونکہ پشتونخواملی عوامی پارٹی کو اندرونی اختلافات کا سامنا ہے اور یہ اختلافات پشتون آباد علاقوں میں پارٹی کے ووٹ کی تقسیم کا سبب بن سکتے ہیں جس کا فائدہ جمعیت علمائے اسلام کو ہو گا۔ عوامی نیشنل پارٹی بھی ہمیشہ کی طرح انتخابات میں پانچ سے چھ سیٹیں لینے کی کوشش کرے گی، تاہم تین سے چار صوبائی حلقوں میں عوامی نیشنل پارٹی کی پوزیشن بھی بہتر نظر آتی ہے جس میں انجینئر زمرک خان اچکزئی اور اصغر خان اچکزئی والی نشستیں شامل ہوں گی۔
دوسری جانب سیاسی پنڈتوں کی نظریں کوئٹہ میں عنقریب ہونے والے بلدیاتی انتخابات پر بھی مرکوز ہیں کیونکہ کوئٹہ کے بلدیاتی انتخابات میں بننے والے سیاسی اتحاد اور نتائج آئندہ عام انتخابات پر بھی اثر انداز ہوں گے، جس کیلئے سیاسی جماعتیں لائحہ عمل تشکیل دینے کے مراحل میں ہیں۔ پیپلز پارٹی کا دعویٰ ہے کہ کوئٹہ کے بلدیاتی انتخابات میں اس کی پارٹی کی پوزیشن مزید مضبوط ہو گی جبکہ دیگر سیاسی جماعتیں بھی اس حوالے سے بھرپور طاقت کا مظاہرہ کرنے کے موڈ میں نظر آتی ہیں۔ صوبے میں نگران صوبائی حکومت بھی متحرک اور مصروف نظر آتی ہے۔ حال ہی میں نگران وزیراعلیٰ بلوچستان علی مردان ڈومکی کی جانب سے ناراض بلوچ رہنماؤں کو مذاکرات کی دعوت دینے کا بیان بھی سامنے آیا جسے سیاسی تجزیہ نگار انتہائی اہمیت کا حامل قرار دے رہے ہیں کیونکہ اس سے قبل بھی سابق وزرائے اعلیٰ کی جانب سے یہ کوششیں رہی ہیں کہ ناراض بلوچ رہنماؤں کو مذاکرات کی میز پر لایا جائے تاہم ان کوششوں پر کوئی اہم پیش رفت سامنے نہیں آسکی۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق اگر نگران وزیراعلیٰ بلوچستان اس حوالے سے کوشش کرنا چاہتے ہیں اور انہیں اس کوشش میں کامیابی ملتی ہے تو یقینی طورپر ان کے سیاسی قد میں اضافہ ہو گا۔ اس کے ساتھ ساتھ رواں ہفتے کے دوران نگران وزیراعلیٰ کی زیر صدارت نگران صوبائی کابینہ کا اجلاس بھی منعقد ہوا جس میں کابینہ نے بلوچستان ماحولیاتی تحفظ ایکٹ 2012 کے سیکشن 32کے ذیلی کے سیکشن ایک کے تحت متعلقہ محکمے کو مجسٹریٹ کے اختیارات تفویض کرنے کی منظوری دی ۔نگران کابینہ نے شیخ زید ہسپتال کوئٹہ میں انڈس ہسپتال کے تعاون سے قائم کئے گئے بچوں کے کینسر کے ہسپتال کیلئے فنڈز کے اجراکی منظوری بھی دی۔ کابینہ اجلاس میں اس امر پر اتفاق کیا گیا کہ تمام عوامی نوعیت کے منصوبوں کو سرکاری سطح پر معاونت فراہم کی جائے۔ کابینہ نے محکمہ سائنس اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی جانب سے بلوچستان کی پہلی کلاؤڈ پالیسی 2023سے متعلق کمیٹی کی تشکیل کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ کابینہ نے محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات کی جانب سے پراجیکٹ ڈائریکٹر، پراجیکٹ سٹاف اور پراجیکٹ مینجمنٹ یونٹ کے قیام کی ترمیم شدہ پالیسی کی منظوری بھی دی ہے۔ کابینہ نے اتفاق کیا کہ پراجیکٹ ڈائریکٹرز کی تعیناتی کیلئے نجی شعبہ سے میرٹ اور اہلیت کی بنیاد پر افرادی قوت کی بھرتی کو ترجیح دی جائے گی ۔کابینہ نے فیصلہ کیا کہ کوئٹہ شہر میں سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کے نظام کو بہتر بنایا جائے گااور تمام محکموں کے زیر التوارولز متعلقہ فورمز سے توثیق ہونے کے بعد کابینہ میں منظوری کیلئے پیش کئے جائیں گے۔ کابینہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے نگران وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ کابینہ میں زیر التوا محکمہ جاتی امور سمیت مفاد عامہ اور انتظامی معاملات سے متعلق فیصلے لئے گئے اور کوشش ہے کہ نگران حکومت کو جتنا بھی وقت ملے اس میں بلوچستان کے عوام کیلئے جس قدر ممکن ہو بہتری کیلئے عملی اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ ان سے براہ راست عام آدمی کو فائدہ مل سکے۔