انتخابی سیاست،نئی صف بندیاں

تحریر : عابد حمید


خیبرپختو نخوا میں آئندہ عام انتخابات کیلئے سیاسی جماعتوں نے تیاریاں شروع کردی ہیں۔ اگرچہ اس حوالے سے گومگو کی کیفیت برقرار ہے لیکن بڑی سیاسی جماعتیں صف بندیوں میں مصروف ہیں۔

پاکستان پیپلزپارٹی نے خیبرپختونخوا میں امیدواروں کی نامزدگی کیلئے پارلیمانی بورڈ تشکیل دے دیا ہے جس میں پارٹی کے کئی نامور نام شامل کئے گئے ہیں، لیکن سوال  یہ ہے کہ یہ جماعت خیبرپختونخوامیں کیاکارکردگی دکھاپائے گی؟خیبرپختونخوا کی تاریخ میں پہلی بار پی ٹی آئی نے مسلسل دو بار حکومت بنائی۔اے این پی ، پیپلزپارٹی ،جمعیت علمائے اسلام ، جماعت اسلامی یا مسلم لیگ (ن)نے اپنا دور مکمل کیا یا نہیں لیکن ان جماعتوں کو دوبارہ اس صوبے میں حکمرانی کا موقع نہیں مل سکا، البتہ پی ٹی آئی نے یہ کارنامہ کر دکھا یا اور دوبارہ دوتہائی اکثریت سے خیبرپختونخوا میں حکومت بنالی، لیکن صرف ساڑھے تین سال بعد اپنی حکومت خود ہی ختم کردی ۔محمود  خان اگرپارٹی چیئرمین کو قائل کرلیتے اور اسمبلی تحلیل نہ کی جاتی تودوتہائی اکثریت سے بنی اس حکومت کو ختم کرنا انتہائی مشکل تھا ۔ اب صورتحال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے بیشتر لیڈر جو گزشتہ دو حکومتوں میں اس صوبے کے سیاہ وسفید کے مالک بنے ہوئے تھے وہ اس جماعت کو خیرباد کہہ چکے ہیں اور اسی کے بطن سے نئی جماعت تشکیل دی ہے جو آئندہ انتخابات میں اترنے کی تیاری کررہی ہے ۔پرویزخٹک کی اس نئی جماعت پی ٹی آئی پی کا اصل مقابلہ پاکستان تحریک انصاف سے ہوگا۔جمعیت علمائے اسلام (ف) دوسرے نمبر پر ہے جبکہ اے این پی کو تیسرے نمبر پر رکھاجاسکتا ہے ۔اصل مقابلہ ان چار جماعتوں میں ہو گا،مگر ان سیاسی جماعتوں کو سب سے بڑی مشکل امیدواروں کے چناؤ میںپیش آئے گی۔ ماضی قریب میں پی ٹی آئی اس حوالے سے خوش قسمت تھی کہ اس کا ٹکٹ ہر ایک لینا چاہتا تھا لیکن نومئی کے بعد صورتحال بدل گئی ہے۔ اگرچہ اب بھی پی ٹی آئی کے ٹکٹ کے حصول کی کوششیں کی جائیں گی لیکن یہ شاید وہ امیدوار نہ ہوں جو ماضی میں حکومت کا حصہ رہ چکے ہیں۔ خیبرپختونخوا کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہاں الیکٹ ایبلز کا تصور نہیں۔ پنجاب میں تگڑے امیدواروں کی ایک لمبی فہرست ہے لیکن خیبرپختونخوا میں جن رہنماؤں کو الیکٹ ایبل سمجھا گیا انہوں نے اکثر شکست کھائی اور وہ بھی کسی نوآموز سیاستدان یا امیدوار سے ۔اس کی دوبڑی مثالیں متحدہ مجلس عمل اور پی ٹی آئی ہیں ۔متحدہ مجلس عمل جب بنی تو اُس وقت امریکہ کے  خلاف رائے عامہ بنی ہوئی تھی جس کا مذہبی سیاسی جماعتیں خوب فائدہ اٹھاتی ہیں ؛چنانچہ ایم ایم اے کے گمنام امیدواروں نے بڑے بڑے برج گرادیئے ۔یہ اعزاز اس کے بعد پی ٹی آئی کو حاصل ہوا،2013ء کے انتخابات میں اگرچہ یہ جماعت بڑی اکثریت حاصل نہ کرسکی لیکن پھر بھی حکومت بنانے میں کامیاب رہی اور نئے امیدوار ایوان میں آئے، تاہم 2018ء کے انتخابات میں صورتحال یکسر بدل گئی اور اس جماعت نے دوتہائی اکثریت حاصل کر لی ۔خیبر پختونخوا سے ایوانِ بالا اور زیریں میں پہنچنے والے بھی اکثرایسے امیدوار تھے جن کا سیاسی بیک گراونڈ نہیں تھا۔پاکستان تحریک انصاف نے موروثیت سے پاک سیاست دینے کا اعلان کیا تھا لیکن بعدازاں وہ خود ہی اس اعلان پر قائم نہ رہ سکی ۔پرویزخٹک اور ترکئی خاندان کے کئی کئی افراد پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر ایوانوں میں پہنچے۔حکمران جماعت کے دیگروزرا نے بھی اس موقع سے خوب فائدہ اٹھایا۔ماضی میں پی ٹی آئی کو مقتدرہ کی بھرپور حمایت حاصل تھی لیکن 2024ء میں صورتحال یکسر مختلف ہونے کاامکان ہے ‘ البتہ پی ٹی آئی کو عوامی حمایت حاصل رہے گی ،جس کا بڑاسبب اس صوبے میں پی ٹی آئی کے دس سالہ دور کی یادیں ہیں۔ پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت اپنی بری کارکردگی کی وجہ سے ان یادوں کو محو کرنے میں ناکام رہی۔

مسلم لیگ (ن) ،پیپلزپارٹی، جے یو آئی اور اے این پی کے پاس عوام میں جانے کیلئے کوئی پروگرام فی الوقت نہیں ہے۔ اے این نے البتہ اربن پالیسی کا اعلان کیا ہے جس میں ایک خاکہ دیاگیا ہے کہ کیسے پشاور کے باسیوں کی محرومیاں دور کی جائیں گی اور نوجوانوں کو روزگار کے مواقع میسرکئے جائیں گے ،تاہم یہ ناکافی ہے ۔عوام بالخصوص نوجوانوں کو راغب کرنے کیلئے سیاسی جماعتوں کو مربوط پروگرام سامنے لانا ہوگا۔امیدوار بھی ایسے سامنے لانا ہوں گے جو آزمائے ہوئے نہ ہوں ۔  پی ٹی آئی کے دس سالہ دورِحکومت میںلاکھوں نہیں تو بلاشبہ ہزاروں ایسے نوجوان ہیں جو اس دور میں ووٹ کے استعمال کے اہل ہوئے ہیں۔ سوشل میڈیا کے صارفین ان نوجوانوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کیلئے سیاسی جماعتوں میں نوجوان قیادت اور مربوط پروگرام کی ضرورت ہو گی۔پی ٹی آئی پی کے رہنما پرویزخٹک اور محمود خان جو اپنے دورِحکومت میں شروع اور مکمل کئے گئے منصوبوں کے ساتھ عوام کے سامنے آنے کیلئے پرتول رہے ہیں ان کیلئے بھی ووٹروں کو متاثر کرنے کا لائحہ عمل شاید اتنا کارگر نہ ہو۔ موجودہ سیاسی منظرنامے پر نظر ڈالی جائے تو کوئی بھی جماعت 145کے ایوان میں اکثریت حاصل کرنے کی پوزیشن میں نظرنہیں آتی، البتہ خیبرپختونخوا میں سیاستدانوں کے ساتھ عوام کو بھی سرپرائزمل سکتا ہے ۔2018ء میں پاکستان تحریک انصاف کی پوزیشن اچھی تھی لیکن اتنی بھی اچھی نہیں تھی کہ دوتہائی اکثریت بنالیتی لیکن ایسا ہوا،شاید اس بار ایسا نہ ہو لیکن فی الوقت کسی بھی جماعت کیلئے اس صوبے میں تنہا حکومت قائم کرنا مشکل نظرآتا ہے۔ اس کا امکان زیادہ ہے کہ آئندہ عام انتخابات کے بعد بھی ایسی ہی مخلوط حکومت بنے جیسی پی ٹی آئی کے خاتمے کے بعد بنائی گئی ۔یعنی یہ جماعتیں حکومت میں بھی ہوں اور اپوزیشن میں بھی، لیکن اس کا نقصان یہاں کے عوام کو ہوگا۔پرویزخٹک یقینا اتنی نشستیں حاصل کرنا چاہیں گے کے وہ کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی کے ساتھ حکومت بناسکیں یا کم سے کم حکومت کا حصہ ہی بن سکیں ۔پرویزخٹک سے ملاقات کے بعد یہی تاثر ابھرا ہے کہ انہیں اندازہ ہے کہ کن اضلاع سے وہ کتنی نشستیں نکال سکتے ہیں اور اس پر وہ کام بھی کررہے ہیں، لیکن اس کیلئے انہیں ایک مضبوط ٹیم کی ضرورت ہے جو فی الوقت ان کے پاس نہیں،جس کا اندازہ ان کے ڈی آئی خان اور سوات کے دورے اور جلسے سے ہوجاتا ہے۔ انہیں کوئی خاطر خواہ پذیرائی نہیں ملی حالانکہ سوات سابق وزیراعلیٰ محمود خان کا ہوم گراؤنڈ ہے۔دعوے اپنی جگہ لیکن پرویزخٹک اور محمود خان کو سخت محنت کی ضرورت ہے اور آنے والے دن یقینا کسی بھی جماعت کیلئے آسان نہیں ہوں گے۔

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

خود اعتمادی، خواتین کی معاشرتی ضرورت

خود اعتمادی ہر شخص کی شخصیت، کامیابی اور ذہنی سکون کا بنیادی جزو ہے۔ یہ وہ صلاحیت ہے جو انسان کو اپنے فیصلوں، خیالات اور احساسات پر یقین کرنے کی ہمت دیتی ہے۔

شال، دوپٹہ اور کوٹ پہننے کے سٹائل

سردیوں کا موسم خواتین کے فیشن میں تنوع اور نفاست لے کر آتا ہے۔ اس موسم میں شال، دوپٹہ اور کوٹ نہ صرف جسم کو گرم رکھتے ہیں بلکہ شخصیت، وقار اور انداز کو بھی نمایاں کرتے ہیں۔ درست سٹائل کا انتخاب خواتین کے لباس کو عام سے خاص بنا سکتا ہے۔

آج کا پکوان:فِش کباب

اجزا : فش فِلے : 500 گرام،پیاز :1 درمیانہ (باریک کٹا ہوا)،ہری مرچ : 2 عدد (باریک کٹی)،ہرا دھنیا : 2 چمچ،ادرک لہسن پیسٹ :1 چمچ،نمک : 1 چمچ،لال مرچ پاؤڈر : 1چمچ،کالی مرچ : آدھا چائے کا چمچ،زیرہ پاؤڈر : 1 چائے کا چمچ،دھنیا

5ویں برسی:شمس ُ الرحمن فاروقی ، ایک عہد اور روایت کا نام

جدید میلانات کی ترویج و ترقی میں انہوں نے معرکتہ الآرا رول ادا کیا

مرزا ادیب ،عام آدمی کا ڈرامہ نگار

میرزا ادیب کی تخلیقی نثر میں ڈراما نگاری کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ انہوں نے بصری تمثیلوں کے ساتھ ریڈیائی ڈرامے بھی تحریر کیے۔ اردو ڈرامے کی روایت میں ان کے یک بابی ڈرامے اپنی منفرد پہچان رکھتے ہیں۔

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے