مسلم حکمران کے اوصاف
حضرت علیؓ کاکیاخوبصورت قول ہے ملک نظام کفرکے ساتھ قائم رہ سکتے ہیں لیکن جس ملک میں عدل وانصاف نہ ہووہ قائم نہیں رہ سکتا۔نیک اورعادل حکمران اپنے ملک کوعدل اورانصاف سے بھردیتاہے۔ وہی حکمران عدل وانصاف قائم کر سکتا ہے جو خود عادل ہو، مسلمان ہو، نیک ہو، اس کے دل میں اللہ کاڈرہو۔عادل حکمران کی اللہ کے ہاں بہت قدرومنزلت ہے اس کیلئے بہت بڑا اجر ہے ۔عادل حکمران قیامت کے دن اللہ کے سائے میں ہوگا جس دن کسی کو سایہ نہیں ملے گا۔نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے سات قسم کے افراد قیامت کے دن اللہ کے عرش کے سائے میں ہوں گے۔ان میں سے ایک امام عادل ہے جو قیامت کے دن اللہ کے دائیں جانب نور کے منبر پر ہوں گے جو کہ اپنی حکومت اور گھر میں عدل و انصاف کرتے تھے (صحیح بخاری: 1423)۔
اگر حکمران نیکی اورتقویٰ کے مطابق حکومت کرتا اور عدل قائم رکھتاہے تو اس کیلئے بہت بڑا اجر ہے۔ رسول اکرم ﷺکا فرمان ہے ’’ امام ڈھال ہے جس کی آڑ میں قتال اور دفاع ہوتا ہے اگر وہ تقویٰ اور عدل سے حکومت کرتا ہے تواس کیلئے اجر ہے اور اگر اس کے مطابق حکومت نہیں کرتا تو اس کیلئے عذاب ہے‘‘(صحیح بخاری، صحیح مسلم)۔
نیک حکمران قوموں اور ملکوں کیلئے خیر اور برکت کاباعث ثابت ہوتے ہیں۔ان کی وجہ سے اللہ قوموں، ملکوں اورخطوں پراپنی رحمتیں اوربرکتیں نازل فرماتے ہیں۔جیساکہ نبی کریم ﷺ کافرمان ہے ’’امام عادل کی کوئی دعا ردّ نہیں ہوتی‘‘ اس لیے کہ اللہ کے ہاں اس کی قدومنزلت اور عزت ہوتی ہے۔ اسلام میں حکمرانی کامنصب جاہ وحشمت اورحصول منفعت کاباعث نہیں بلکہ کانٹوں کی سیج اوربھاری ذمہ داری ہے۔اسلام نے حکمران پرکچھ ذمہ داریاں عائدکی ہیں جنہیں پورا کرنا اس کیلئے لازم ہوتا ہے۔ اس کے ذمہ رعایاکے حقوق ہیں جو اس نے اداکرنے ہوتے ہیں۔ اسلام نے مسلمان حکمران پرجو ذمہ داریاں عائد کی ہیں ان میں سے چنددرج ذیل ہیں۔
مسلمان حکمران کی پہلی ذمہ داری ہے حق اور عدل کا قیام، لوگوں کے تنازعات معاملات انصاف کے ساتھ نمٹانا ،اللہ کی شریعت کو نافذ کرنا اور شرعی احکام کے مطابق حدود کا نفاذکرنا۔رسول ﷺ کافرمان ہے اللہ حاکم یا قاضی کے ساتھ ہوتا ہے جب تک وہ ظلم نہ کرے جب حکمران ظلم کرتاہے تو اللہ اس کو اس کے نفس کے حوالے کردیتا اورپھراللہ اس کے معاملات سے بری ہوجاتا ہے۔حضرت ابوذرؓکہتے ہیں میں نے ایک دن نبی کریم ﷺسے پوچھا آپ ﷺ مجھے کیوں کسی سرکاری کام پر نہیں لگاتے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :ابوذر ؓ تم ایک کمزور آدمی ہو اور یہ عہدے قیامت کے دن حسرت و ندامت کا سبب ہوں گے۔ سوائے اس کے جس نے اسے حق کے ساتھ لیا اور جوذمہ داریاں اس ڈالی گئی تھیں وہ اس نے ادا کر دیں۔ ہمارے اسلاف کایہی طریقہ تھاوہ سرکاری عہدوں سے بچاکرتے تھے۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے مامون کے کہنے کے باوجود قاضی کا عہدہ نہیں لیا۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے منصور کی حکومت میں قاضی القضاۃکا عہدہ قبول نہیں کیا ۔اس طرح کے اور بھی بہت سے اکابر ہیں۔
حضرت ابن عمر ؓسے روایت ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا اللہ جس شخص کو بندوں پر حکمران مقرر فرمادے، چاہے لوگ کم ہوں یا زیادہ قیامت کے دن اس سے پوچھاجاے گا کہ ان میں اللہ کے احکام نافذ کیے یانہیں ؟یہاں تک کہ گھر والوں کے بارے میں بھی (یہی)سوال کیا جائے گا۔
حضرت انس ؓ سے روایت ہے نبی ﷺ نے فرمایا اللہ ہر اس آدمی سے جسے کسی کا نگہبان و حکمران مقرر کیا گیا یہ سوال کرے گا کہ اپنے ماتحتوں کا تحفظ کیا یا نہیں ؟یہاں تک کہ آدمی سے اس کے گھر کے بارے میں بھی سوال ہوگا۔
ابوامامہ ؓ روایت کرتے ہیں جوبھی آدمی دس یا ان سے زیادہ آدمیوں کاامیر بنتاہے قیامت کے دن اسے اس حال میں لایا جائے گا کہ اس کا ہاتھ اس کی گردن میں باندھا گیا ہوگایا اس کی نیکی اسے چھڑالے گی یا اس کا گناہ اس کو باندھ دے گا۔ ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے رسول اللہﷺ نے فرمایاقیامت کے دن سب سے سخت عذاب ظالم حکمران کا ہوگا۔
مسلمان حکمران کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس کے اورعوام کے درمیان رکاوٹیں اور پردے حائل نہ ہوں بلکہ حکمران کے دروازے ہر وقت عوام کیلئے کھلے رہیں۔عمرو بن مرہؓ نے معاویہؓسے کہا میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے جو بھی امام، حکمران ضرورت مندوں اور غریبوں کیلئے دروازے بند رکھتا ہے اللہ اس کیلئے آسمانوں کے دروازے بند کردیتا ہے۔
حضرت ابومریم ازدیؓ سے روایت ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایااللہ جس کو مسلمانوں کے امور کا نگہبان بنادے اور وہ ان کی ضروریات و شکایات سننے کے بجائے درمیان میں رکاوٹیں کھڑی کردے، اللہ اس کیلئے رکاوٹیں پیدا کردیتا ہے۔ایک روایت میں ہے اللہ جس کو مسلمانوں کا حاکم بنائے پھر وہ مظلوموں اورمساکین کیلئے دروازے بندکردے اللہ اس کیلئے اپنی رحمت کے دروازے بند کردیتا ہے ۔ہمارے لئے رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی اسوہ حسنہ ہے۔ آپ ﷺ اللہ کے نبی بھی تھے اورحکمران بھی تھے۔ آپ ﷺ خود عوام کے حالات کاجائزہ لیتے، مریضوں کی عیادت کرتے، جنازوں میں جاتے اور عام لوگوں کی دعوت قبول فرماتے تھے۔ ایک عورت نے نبی کریمﷺ سے کہامجھے آپ ﷺ سے کچھ کام ہے، آپ ﷺ نے فرمایا کسی بھی گلی کے ایک طرف بیٹھ جا میں بات کرلیتا ہوں۔اس نے ایسا ہی کیا آپﷺ نے اس کی بات سنی جو اس کی ضرورت تھی وہ پوری کی۔
مسلمان حکمران کی ایک ذمہ داری عوام کے فائدے کے امور سرانجام دینا ہے، ان سے نرمی و شفقت کرنا ،ان کی غلطیوں سے درگزرکرنا جوجس قسم کے فیصلے کا مستحق ہے عدل کے ساتھ وہ فیصلہ کرنا۔یہ بات اس حدیث سے بھی ثابت ہے جس میں رسول اکرمﷺ نے فرمایا ’’تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے اور اپنی ذمہ داری کیلئے جوابدہ ہے۔
مسلمان حکمران کی ایک ذمہ داری یہ ہے کہ مسلمانوں کے مال کا تحفظ اورعمالِ حکومت کا محاسبہ کرنا۔اس ذمہ داری کی تائیداس حدیث سے ہوتی ہے۔ جس میںعبداللہ بن عمر ؓکہتے ہیں میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا کہ تم میں سے ہرشخص ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں سوال ہوگا ۔امام ذمہ دار ہے اس سے عوام کے بارے میں پوچھا جائے گا، آدمی اپنے گھر میں ذمہ دار ہے اور اس کیلئے جواب دہ ہے۔ عورت اپنے گھر میںذمہ دار ہے اوراس کیلئے جواب دہ ہے۔
ملک کی حفاظت ،دیار اسلام کا دفاع، مال وجان کا تحفظ اور امت کو خطرات سے محفوظ رکھنے کی کوششیں کرنابھی مسلمان حکمران کی ہے ۔ حضرت انس ؓکہتے ہیں نبی کریم ﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر اور سب سے زیادہ سخی تھے۔ ایک مرتبہ مدینہ والے رات کے وقت کسی آواز کو سن کر گھبراگئے اور آواز کی سمت چل پڑے تو آگے سے نبی کریم ﷺ تشریف لارہے تھے۔ آپ ﷺ پہلے جاکرآوازکاسبب معلوم کرچکے تھے، آپﷺ گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر تھے اورگلے میں تلوارلٹک رہی تھی۔
دعاہے اللہ ہمارے حکمرانوں کوبھی ان اوصاف سے متصف فرمادے۔آمین ثم آمین