فکر اقبالؒ ۔۔۔۔دل بینا بھی کر خدا سے طلب
آج ہم فکرِ اقبال ؒ کو بھول گئے، فرمودات قائد کو پس پشت ڈال دیا، تصورِ ’’خودیـ‘‘ کو تصورِ کشکول اور تصورِ انا میں تبدیل کردیا
سیالکوٹ میں پیدا ہونے والے عالم اسلام کے عظیم سپوت حضرت علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ کایومِ پیدائش انتہائی عقیدت واحترام کیساتھ منایا جارہا ہے۔سیالکوٹ کی تاریخی اہمیت اس حوالے ہمیشہ کیلئے امر ہوگئی کہ اس میں مسلمانوں کو بیدار کرنے والاایک’’مردِ قلندر‘‘اقبالؒ پیدا ہوا۔مولانا ظفر علی خاںؒ کا ایک تاریخی شعر ہے کہ
اقبالؒ جس کا نام ہے وردِ زبانِ خلق
نازاں ہے اُسکی ذات پہ خاکِ سیالکوٹ
21اپریل ہو یا 9نومبراقبالؒ کی یاد ہمیں ستاتی ہے اور خوب ستاتی ہے۔دانائے راز اقبالؒ ہی تھے کہ جنہوں نے وطن عزیز پاکستان کا تصور پیش کیا ،اور اُن کی اس خواہش کہ پنجاب، سرحد، سندھ اور بلوچستان کو ملا کر ایک اسلامی ریاست بنا دی جائے،کو قائدا عظم محمدعلی جناحؒ کی ولولہ انگیز قیادت میں اُن کے دیگر ساتھیوں نے صرف سات سال کے مختصر عرصہ میں قیامِ پاکستان کی شکل میںعلامہ اقبالؒکے اس ’’سنہرے خواب‘‘ کو شرمندہ تعبیرکیااور اُن کی خواہش کو عملی جامہ پہنایا۔
اقبالؒ ایک تو یہ چاہتے تھے کہ اس ارضِ وطن میں بسنے مسلمانوں کے سر پر انگریز اور متعصب ہندو بنیے کی تھوپی گئی اقتصادی غلامی سے نجات دلائی جائے اور دوسرا کہ یہ وہ مسلم معاشرے کو صدیوں کے جمود کے نتیجہ میں حاوی ہونے والے ملوکیت کے اثرات سے باہر نکال کر اسلام کے روشن اصولوں کی روشنی میں عہد جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا چاہتے تھے اور برصغیر کے مسلمانوں کو یہ پیغام دیا تھاکہ
سلطانیٔ جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقشِ کہن تم کو نظر آئے مٹا دو
مگر افسوس کہ 76سال گزر جانے کے باوجود، جس طرح کا پاکستان اقبال ؒاورقائداعظمؒچاہتے تھے ہم ویسا بنانے میں تاحال ناکام ہیں، تب تک ناکام رہیں گے جب تک ہمارے ذمہ داران حکمران ، سیاستدان اور بیوروکریٹس ، ہوسِ اقتدار، ہوسِ زر اور اختیارات کے بے جا استعمال کے نشے سے چھٹکارا نہ حاصل کرلیں۔ پاکستان اور اس میں بسنے والے غریب عوام کے مفادات کو اپنے مفادات پر ترجیح نہ دینا شروع کردیں۔ ہم اور حکمران11ستمبر،25دسمبر،9نومبر اور 21 اپریل کو ملک بھر میں بڑی بڑی تقریبات کا اہتمام کر کے، بڑے بڑے کالجز ،سکول اور عمارات کو اِن قومی شخصیات کے نام کر کے یہ سمجھتے ہیں کہ شاید ہم نے اُن کی محنت اور خدمت کا کماحقہ حق ادا کر دیا ہے۔
آج ہم فکرِ اقبال ؒ کو بھول گئے، فرمودات قائد کو پسِ پشت ڈال دیا، تصورِ ’’خودیـ‘‘ کو تصورِ کشکول اور تصورِ انا و غرور میں تبدیل کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم طوالتِ اقتدار کی خاطر ’’خود‘‘ کو پاکستان کی بقا اور سلامتی کے لئے ’’ناگزیر‘‘ سمجھتے ہیں اور شوقِ اقتدار میں فردِ واحد ، فردِ واحد ہی کی خاطر آئین اور قانون میں تبدیلی کردیتا، قوم کی لوٹی ہوئی دولت کو معاف فرما دیتا ہے۔ آج ہم روشن خیالی کی ڈگر پر بڑے فخر سے چلتے ہیں اور اپنی منزل سے بے خبر ہیں اور اسی ’’روشن خیالی ‘‘ کے تحت ’’حقوقِ نسواں ‘‘بل پاس کرتے ہوئے عورتوں کے حقوق کی پاسداری کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ عورتوں کی آزادی اور عورتوں کی ذمہ داری کے حوالہ سے ایک جگہ علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ جس قوم نے عورتوں کوضرورت سے زیادہ آزادی دی ، وہ کبھی نہ کبھی ضرور اپنی غلطی پر پشیمان ہوئی ہے ۔ عورت پر قدرت نے اتنی اہم ذمہ داریا ں عائد کر رکھی ہیں کہ اگر وہ ان سے پوری طرح عہدہ برآ ہونے کی کوشش کرے تو اسے کسی دوسرے کام کی فرصت ہی نہیں مل سکتی، اگر اسے اس کے اصلی فرائض سے ہٹا کر ایسے کاموں پر لگایا جائے جو کہ مرد حضرات انجام دے سکتے ہیں تو یہ طریقہ کار یقینا غلط ہو گا۔مثلاََ عورت کو ، جس کا اصل کام آئندہ نسل کی تربیت ہے، ٹائپسٹ یا کلرک بنا دینا، نا صرف قانونِ فطرت کی خلاف ورزی ہے بلکہ انسانی معاشرہ کو درہم برہم کرنے کی افسوس ناک کوشش ہے‘‘۔
’’روشن خیالی ‘‘ کے اس دور میں ممکن ہی کیسے ہے کہ ہمارے معاشرے میں محمد بن قاسم ، طارق بن زیاد ، مولانا محمد علی جوہر ،مولانا ظفر علی خاں جیسے عظیم سپوت پیدا ہوں جبکہ ہم تو مغربی تہذیب و تمدن کو چھوڑنے کیلئے بالکل ہی تیار نہیں ہیں ۔ دشمنانِ اسلام ہمارے غیر اسلامی طرزِ عمل سے خوب خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ حضرت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال ؒ ’’اسرارِ رموز ‘‘ میں بڑے درد مندانہ لہجے میں فرماتے ہیں کہ ’’ جب سے ملتِ اسلامیہ نے دین اسلام اور شعارِ نبوی ﷺ کو چھوڑ دیا ہے زوال پذیر ہوگئی،وہ مسلمان جو شیر کو ایک معمولی بکری کی طرح شکار کر لیا کرتاتھا ۔ اب چیونٹی اُ س کے پائوں میں آ جائے تو چیخ اٹھتا ہے ، جس کی تکبیر سے پتھر پانی پانی ہو جاتے تھے اب وہ بلبل کے چہچہانے پرتڑپ اُٹھتا ہے ، جس کا عزم و حوصلہ پہاڑکو تنکا سمجھتا تھا،اس نے خودکو محض توکل کے سپرد کر کے اپنے آپ کو لاچار بنا رکھا ہے،جس کی ایک ضرب سے دشمنوں کی گردنیں کٹ جایا کرتی تھیں ،سینہ کوبی سے ا ب اس کااپنا دل خستہ و رنجور ہے،جس کے اقدامات سے نئے نئے ہنگامے جنم لیتے تھے وہ اب گوشہ عزلت میں پائوں توڑکر بیٹھ گیا ہے،جس کے حکم پر ساری دنیا چلتی تھی اورجس کے در پر سکندر و دارااپنی جبیں کو جھکاتے تھے اب سعی وجستجو ترک کرتے ہوئے قناعت کے نام پروہ خود فقرو افلاس کے باعث کشکولِ گدائی لیے بیٹھا ہے،یہ سب کچھ کیوں ہوا؟صرف اس لیے کہ مسلمان قوم نے رحمت عالمﷺسے اپنا تعلقِ عشقی قائم نہ رکھاجس کے نتیجے میں اسے در بدر کی ٹھوکریںکھانا پڑرہی ہیں‘‘۔
حضرت علامہ محمد اقبالؒکی نثر وشاعری کا محو رو مرکزیہی ہے کہ امتِ مسلمہ مغربی تہذیب و تمدن اور ان کی تعلیمات سے دور رہ کر اپنے دل میں عشقِ مصطفیٰﷺ کی شمع جلاتے ہوئے،اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ ،اتفاق واتحاداور محبت کا رشتہ باندھتے ہوئے دامن رسولِ ہاشمی ﷺتھام لے۔آپؒ فرماتے ہیں!
اپنی ملت کاقیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمیؐ
افرنگ سے بہت آگے ہے منزلِ مومن
قدم ٹھااے غافل یہ مقام انتہائے راہ نہیں
میں جانتا ہوں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن اندرون چنگیز سے تاریک تر
ملتِ اسلامیہ کو نفاق کی بجائے آپس میں اتفاق واتحاد کے ساتھ رابطہ رکھنے کا درس دیتے ہوئے فرماتے ہیںکہ
فرد قائم ربط ملت سے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں
ربِ قدوس کی نظر میںسب انسان بلا امتیاز برابر ہیں،مال ودولت اور حسب و نسب کے سبب ان کے مقام و مرتبے کم یا زیادہ نہیں ہے،اس کی بنیاد صرف اور صرف تقویٰ اور پرہیزگاری ہے۔
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود وایاز
نہ کو ئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز
علامہ اقبال ؒ ایک جگہ نصیحتاََ فرماتے ہیںکہ
دلِ مردہ دل نہیںاسے زندہ کر دوبارہ
یہی ہے امتوں کے مر ضِ کہن کا چارہ
اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کو قرآن پاک میں یوں آشکار کیا ہے’’اور تحقیق کثیر تعداد جنوں اور انسانوں کی ایسی ہے جن کاٹھکانہ جہنم ہو گا (کیونکہ) ہم نے انہیں دل عطا کیے وہ اپنے دلوں سے بے خبر ہیں،ان کو آنکھیں دیں وہ ان سے دیکھتے نہیں ،ان کو کان دیئے وہ ان سے سنتے نہیں ،ایسے لوگ چوپایوں کی مثل ہیںبلکہ ان سے بھی بد تر ہیں‘‘(پارہ9 ،رکوع11، سورۃالاعراف: آیت179)۔
ربِ قدوس ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ’’آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینے میں ہوتے ہیں‘‘(پارہ17، رکوع12، سورۃالحج، آیت46)۔اس بات کی علامہ اقبالؒ نے اپنے اندازمیںیوںوضاحت فرمائی،کہ
دلِ بینا بھی کر خدا سے طلب
آنکھ کا نور دل کا نور نہیں ہوتا
آج اگر ہم نے آنکھ کے نور کے ساتھ ساتھ ’’دل کانور‘‘بھی اپنے پروردگارِ عالم سے مانگنے کی جستجو کرتے تو ہمارا بھی تہی دامن بھر جاتاکیونکہ
حسن کا گنجِ گراں مایہ تجھے مل جاتا
تونے فرھاد !کھودا نہ کبھی ویرانہء دل
ہمیں اس بات کو اپنے قلب و اذہان میں اتارنا ہوگا کہ ربِ کائنات ہمیشہ اسے ہی ہدایت عطا فرماتے ہیںکہ جو ہدایت کا طلب گار بھی ہو،یہ بات طے ہے کہ ’’خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی ،نہ ہو خیال جس کو اپنی حالت کے بدلنے کا‘‘تاہم جہاں حکمرانوں کو اپنے مفادات کو پسِ پشت ڈال کر خلوصِ نیت کیساتھ ’’پاکستان‘‘اور اس میں بسنے والے شہریوں کی خدمت کرنا ہوگی وہاں پاکستان کے ہر فرد کو اپنا قیمتی وقت ضائع کیے بغیرفرداً فرداًاپنے شعبہ میں دلجمعی ،خلوصِ نیت ،محنت لگن سے پاکستان کی سلامتی اور بقا کی خاطر وطن عزیز پاکستان کو عظیم سے عظیم تر بنانے میں پوری ذمہ داری کیساتھ ’’اہم کردار‘‘ادا کرنا ہو گا، اتفاق واتحاد، مساوات، رواداری ،حسنِ سلوک، اَخلاق اور ایمانداری کا اپنے اپنے حصے کا ایک ایک پودا لگانا ہو گا۔ ’’اللہ‘‘ کے ہاں قوی امید ہے کہ ربِ رحیم کے خاص فضل و کرم اوررحمتِ عالم ﷺکی نگاہِ خاص سے یہی ’’پودا‘‘ دیکھتے ہی دیکھتے ایک تناور اور پھل دار درخت کی شکل اختیار کر جائے گا، اور جس کا پھل نسلیں قیامت تک کھاتی رہیں گی ۔