جھوٹ کی تباہ کاریاں اور اس کے معاشرے پر اثرات

تحریر : مولانا قاری محمد سلمان عثمانی


’’بت پرستی کی گندگی اور جھوٹی بات کہنے سے بچتے رہو‘‘:(الحج :30) ’’بیشک خدا اس شخص کو جو جھوٹا ناشکرا ہے ہدایت نہیں دیتا‘‘ (الزمر:3) ’’جب آدمی جھوٹ بولتا ہے تو اس سے جو بدبو آتی ہے اس کی وجہ سے فرشتہ اس شخص سے ایک میل دور ہوجاتا ہے‘‘ (سنن ترمذی)

ہم جس معاشرہ میں رہ رہے ہیں، اس میں ہم سب جرم کرنے میں برابر کے شریک ہیں۔ نیکی کے کام میں اہلیت و طاقت رکھتے ہو ئے بھی ہم وہ کام نہیں کرتے بلکہ غلط کام کو ترویج دیتے ہیں، اسے بار بار کرتے ہیں اور رفتہ رفتہ یہ عادت بن جاتی ہے اور معاشرہ میں سرایت کرتے ہوئے وہ اس کا حصہ بن جاتی ہے۔ میری مراد یہاں پر جھوٹ بولنا ہے اور سچائی کو ترک کرنا ہے۔

 ہم ہر بات پر جھوٹ بولتے ہیں اور پھر اس پر ڈٹ جا تے ہیں اور سچائی کے ہم قریب ہی نہیں جا تے بلکہ بدزبانی و بد کلامی کو اپنا شعار بنالیتے ہیں۔ انتہائی دُکھ کے ساتھ ہم ایک مسلم معاشرہ میں رہتے ہوئے بحیثیت مسلمان ہم وہ کام کرتے ہیں جس سے ہمیں اسلام نے روکا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ بے بنیاد باتوں کو لوگوں میں پھیلانے، جھوٹ بولنے اور افواہ کا بازار گرم کرنے سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا، ہاں! اتنی بات تو ضرور ہے کہ یہی جھوٹ، چاہے جان کر ہو، یا اَنجانے میں ہو، کتنے لوگوں کو ایک آدمی سے بدظن کردیتا ہے۔ لڑائی، جھگڑا اور خون وخرابہ کا ذریعہ ہوتا ہے، کبھی تو بڑے بڑے فساد کا سبب بنتا ہے اور بسا اوقات پورے معاشرے کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیتا ہے۔ جب جھوٹ بولنے والے کی حقیقت لوگوں کے سامنے آتی ہے تو وہ بھی لوگوں کی نظر سے گرجاتا ہے، اپنا اعتماد کھو بیٹھتا ہے اور پھر لوگوں کے درمیان اس کی کسی بات کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔

جھوٹ بولنا گناہِ کبیرہ ہے اور یہ ایسا گناہِ کبیرہ ہے کہ قرآن کریم میں، جھوٹ بولنے والوں پر اللہ کی لعنت کی گئی ہے۔ ارشادِ ربانی ہے ’’لعنت کریں اللہ کی اُن پر جو کہ جھوٹے ہیں‘‘ (آلِ عمران: 61)۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ انسان کوئی بات بلا تحقیق کے اپنی زبان سے نہ نکالے۔ اگر وہ ایسا کرتا ہے، تو پھر اس کی جواب دہی کیلئے تیار رہے، ترجمہ ’’اور جس بات کی تحقیق نہ ہو اس پر عمل مت کیا کر، کان اور آنکھ اور دل ہر شخص سے اس سب کی پوچھ ہو گی‘‘ (الاسراء: 36)۔ آیت مذکورہ کی تفسیر میں علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں بے تحقیق بات زبان سے مت نکال، نہ اس کی اندھا دھند پیروی کر، آدمی کو چاہیے کہ کان، آنکھ اور دل و دماغ سے کام لے کر اور بقدرِ کفایت تحقیق کر کے کوئی بات منہ سے نکالے یا عمل میں لائے، سنی سنائی باتوں پر بے سوچے سمجھے یوں ہی کوئی حکم کسی پر لاگو نہ کرے، یا عمل درآمد شروع نہ کر دے۔ اس میں جھوٹی شہادت دینا، تہمتیں لگانا، بے تحقیق چیزیں سن کرکسی کے درپے آزار ہونا، یا بغض و عداوت قائم کر لینا، باپ دادا کی تقلید یا رسم و رواج کی پابندی میں خلافِ شرع اور ناحق باتوں کی حمایت کرنا، ان دیکھی یا ان سنی چیزوں کو دیکھی یا سنی ہوئی بتلانا، غیر معلوم اشیاء کی نسبت دعویٰ کرنا کہ میں جانتا ہوں، یہ سب صورتیں اس آیت کے تحت میں داخل ہیں۔ یاد رکھنا چاہیے کہ قیامت کے دن ہر چیزکا سوال ہو گا کہ ان کو کہاں کہاں استعمال کیا تھا؟ بے موقع تو خرچ نہیں کیا؟ (تفسیر عثمانی)

انسان جب بھی کچھ بولتا ہے تو اللہ کے فرشتے اسے نوٹ کرتے رہتے ہیں، پھر اسے اس ریکارڈ کے مطابق اللہ کے سامنے قیامت کے دن جزا و سزا دی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ’’وہ کوئی لفظ منہ سے نہیں نکالنے پاتا، مگر اس کے پاس ہی ایک تاک لگانے والا تیار ہے‘‘ (سورہ ق:18) یعنی انسان کوئی کلمہ جسے اپنی زبان سے نکالتا ہے، اُسے یہ نگراں فرشتے محفوظ کرلیتے ہیں۔ یہ فرشتے اس کا ایک ایک لفظ لکھتے ہیں، خواہ اس میں کوئی گناہ یا ثواب اور خیر یا شر ہو یا نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’پس جھوٹ افترا کرنے والے تو یہ ہی لوگ ہیں، جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے اور یہ لوگ ہیں پورے جھوٹے‘‘ (سورۃ النحل: 105)۔ 

دوسری جگہ ارشادِ خداوندی ہے ’’اور جن چیزوں کے بارے میں محض تمہارا جھوٹا زبانی دعویٰ ہے، ان کی نسبت یوں مت کہہ دیا کرو کہ فلانی چیز حلال ہے اور فلانی چیز حرام ہے، جس کا حاصل یہ ہوگا کہ اللہ پر جھوٹی تہمت لگا دو گے، بلا شبہ جو لوگ اللہ پر جھوٹ لگاتے ہیں، وہ فلاح نہ پاویں گے‘‘ (النحل:116)۔ امام احمدؒ نے بلال بن حارث مزنیؓ سے روایت کیا ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا ’’انسان بعض اوقات کوئی کلمہ خیر بولتا ہے، جس سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتا ہے، مگر یہ اس کو معمولی بات سمجھ کر بولتا ہے، اس کو پتہ بھی نہیں ہوتا کہ اس کا ثواب کہاں تک پہنچا کہ اللہ تعالیٰ اس کیلئے اپنی رضا دائمی قیامت تک کی لکھ دیتے ہیں۔ اسی طرح انسان کوئی کلمہ اللہ کی ناراضی کا (معمولی سمجھ کر) زبان سے نکال دیتا ہے، اس کو گمان نہیں ہوتا کہ اس کا گناہ وبال کہاں تک پہنچے گا؟ اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس شخص سے اپنی دائمی ناراضی قیامت تک کیلئے لکھ دیتے ہیں‘‘ (ابن کثیر، ج:8، ص: 143)

رسول اللہ ﷺ نے جھوٹ کو ایمان کا منافی عمل قرار دیا ہے، حضرت صفوان بن سلیمؓ بیان کرتے ہیں اللہ کے رسولﷺ سے پوچھا گیا کیا مومن بزدل ہوسکتا ہے؟ آپ ﷺ نے جواب دیا ’’ہاں‘‘، پھر سوال کیا گیا: کیا مسلمان بخیل ہوسکتا ہے؟ آپ ﷺ نے جواب دیا ’’ہاں‘‘، پھر عرض کیا گیا: کیا مسلمان جھوٹا ہوسکتا ہے؟ آپﷺ نے جواب دیا: ’’نہیں‘‘ (اہل ایمان جھوٹ نہیں بول سکتا) (مؤطا امام مالک، حدیث: 824/ 3230)۔ 

ایک حدیث شریف میں جن چار خصلتوں کو رسول اللہ ﷺ نے نفاق کی علامات قرار دیا ہے، ان میں ایک جھوٹ بولنا بھی ہے۔ ’’جس میں چار خصلتیں ہوں گی، وہ خالص منافق ہے اور جس شخص میں ان خصلتوں میں کوئی ایک خصلت پائی جائے، تو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے، تا آنکہ وہ اسے چھوڑدے: جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے، جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو دھوکہ دے اور جب لڑائی جھگڑا کرے تو گالم گلوچ کرے‘‘ (صحیح بخاری: 34)۔ ایک حدیث میں  ہے کہ جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو رحمت کے فرشتے اس سے ایک میل دور ہو جاتے ہیں، ترجمہ: ’’جب آدمی جھوٹ بولتا ہے تو اس سے جو بدبو آتی ہے اس کی وجہ سے فرشتہ اس سے ایک میل دور ہوجاتا ہے‘‘ (سنن ترمذی: 1972)۔ 

ایک حدیث میں پیارے نبیﷺ نے جھوٹ کو فسق و فجور اور گناہ کی طرف لے جانے والی بات شمار کیا ہے، ترجمہ: ’’یقیناً جھوٹ برائی کی رہنمائی کرتا ہے اور برائی جہنم میں لے جاتی ہے اور آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے، تاآنکہ اللہ کے یہاں ’’کذاب‘‘ (بہت زیادہ جھوٹ بولنے والا) لکھا جاتا ہے(صحیح بخاری:  6094)  

رسول اللہﷺ نے ایک حدیث میں جھوٹ بولنے کو بڑی خیانت قرار دیا ہے۔ خیانت تو خود ہی ایک مبغوض عمل ہے، پھر اس کا بڑا ہونا یہ کتنی بڑی بات ہے، ترجمہ ’’یہ ایک بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے بھائی سے ایسی بات بیان کرو، جس حوالے سے وہ تجھے سچا سمجھتا ہے، حالانکہ تم اس سے جھوٹ بول رہے ہو‘‘ (سنن ابو داود: 4971)۔ نبی کریمﷺ نے جھوٹ کو کبیرہ گناہوں میں بھی بڑا گناہ شمار کیا ہے، نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا: مومن کی فطرت میں اور اْس کی طبیعت میں ہر خصلت کی گنجائش ہے، سوائے جھوٹ اور خیانت کے‘‘۔معلوم ہوا کہ جس طرح اس ماحول و معاشرہ میں چیزوں کی خوشبو اور بد بو ہوتی ہے، اسی طرح اچھے اور برے اعمال اور کلمات میں بھی خوشبو اور بدبو ہوتی ہے، جس کو اللہ کے فرشتے اسی طرح محسوس کرتے ہیں جس طرح ہم یہاں کی مادی خوشبو اور بد بومحسوس کرتے ہیں۔ ایسی مخصوص خوشبو او ربد بو کبھی کبھی اللہ کے وہ بندے بھی محسوس کر لیتے ہیں جن کی روحانیت ان کی مادیت پر غالب آ جاتی ہے۔

جھوٹ کی بعض اقسام تو انتہائی سخت گناہ لازم کر دیتی ہیں۔ کتب حدیث میں ہے کہ ایک دن نبی کریم ﷺ صبح کی نماز سے فارغ ہوئے تو ایک دم کھڑے ہو گئے اور فرمایا جھوٹی گواہی کا اتنا ہی گناہ ہے جتنا اللہ کے ساتھ شرک کرنے کا، پھر آپﷺنے سورہ حج کی آیت نمبر 30تین مرتبہ تلاوت فرمائی: ’’یعنی بت پرستی کی گندگی سے بچو اور جھوٹی بات کہنے سے بچتے رہو‘‘۔اس آیت میں اللہ رب العزت کے طرز کلام سے معلوم ہو رہا ہے کہ بت پرستی اور جھوٹ کہنا دونوں برابر ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دونوں کیلئے ’’اجتنبوا‘‘ لفظ استعمال فرمایا ہے۔یہ تو جھوٹ کی وہ شکلیں تھیں جنہیں ہمارے معاشرہ کے سمجھ دار افراد بھی بُرا سمجھتے ہیں۔ 

یہاں جھوٹ کی ایک ایسی شکل بھی ہے، جسے معاشرہ جھوٹ ہی نہیں سمجھتا، بلکہ اسے مختلف نام دے کر اچھا سمجھتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سے بھی بچنے کی تاکید فرمائی۔حضرت ابوہریرہؓ  کی روایت مسلم شریف میں ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ’’آدمی کیلئے یہی جھوٹ کافی ہے کہ وہ جو کچھ سنے اُسے بیان کرتا پھرے‘‘۔

 بیہقی میں عبدالرحمن بن ابی قرادؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ ایک دن وضو فرمارہے تھے، صحابہ کرامؓ آپﷺ کے وضو کا پانی لے لے کر اپنے چہروں او رجسم پر مل لیتے تھے۔ آپﷺ نے پوچھا اس بات پر تمہیں کیا چیز آمادہ کرتی ہے او رتمہارے اندر کونسا ایسا جذبہ ہے جس کی وجہ سے یہ کر رہے ہو؟ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت۔ آپﷺ نے یہ جواب سن کر فرمایا: ’’جس شخص کی یہ خوشی ہو اور وہ یہ چاہے کہ اُسے اللہ اور اس کے رسولﷺ سے حقیقی محبت ہو اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ بھی اْس سے محبت کریں تو اسے چاہیے کہ وہ بات کرے تو ہمیشہ سچ بولے، اورجب کوئی امانت اْس کے سپرد کی جائے تو اسے ادا کر دے، اور جس شخص کے ہمسائے میں رہے اس کے ساتھ بہتر سلوک کرے‘‘۔ 

سچ بولنے کی عادت انسان اپنے اندر پیدا کرلے تو یہ خوبی آدمی کو زندگی کے دوسرے پہلوؤں میں بھی نیک کردار اور صالح بنا کر دنیا کی زندگی کو پاکیزہ بنانے کے ساتھ ساتھ جنت کا مستحق بنا دیتی ہے۔ سب سے بڑا انعام تو وہ ہے جسے عبداللہ بن مسعود ؓ  روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو آدمی ہمیشہ سچ بولتا رہے اور صرف سچائی ہی کو اختیار کرے تو اللہ کے نزدیک وہ سچا لکھا جاتا ہے اور اسے صدیق کا مرتبہ عطا کر دیا جاتا ہے‘‘۔

جھوٹ ایک ایسی بیماری ہے جو معاشرہ میں بگاڑ پیدا کرتی ہے۔ لوگوں کے درمیان لڑائی، جھگڑے کا سبب بنتی ہے۔ دو آدمیوں کے درمیان عداوت و دشمنی کو پروان چڑھاتی ہے۔ اس سے آپس میں ناچاقی بڑھتی ہے۔ اگر ہم ایک صالح معاشرہ کا فرد بننا چاہتے ہیں، تو یہ ہماری ذمے داری ہے کہ ہم لوگوں کو جھوٹ کے مفاسد سے آگاہ اور باخبر کریں، جھوٹے لوگوں کی خبر پر اعتماد نہ کریں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ’’نبی اکرم ﷺ کو جھوٹ سے زیادہ کوئی عادت ناپسند نہیں تھی‘‘(مسند احمد، بحوالہ احیاء العلوم، ج: 3، ص: 209) اللہ رب العزت ہمیں جھوٹ بولنے سے بچائے اور پوری زندگی سچ بولنے کی توفیق عطا فرمائے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

خود اعتمادی، خواتین کی معاشرتی ضرورت

خود اعتمادی ہر شخص کی شخصیت، کامیابی اور ذہنی سکون کا بنیادی جزو ہے۔ یہ وہ صلاحیت ہے جو انسان کو اپنے فیصلوں، خیالات اور احساسات پر یقین کرنے کی ہمت دیتی ہے۔

شال، دوپٹہ اور کوٹ پہننے کے سٹائل

سردیوں کا موسم خواتین کے فیشن میں تنوع اور نفاست لے کر آتا ہے۔ اس موسم میں شال، دوپٹہ اور کوٹ نہ صرف جسم کو گرم رکھتے ہیں بلکہ شخصیت، وقار اور انداز کو بھی نمایاں کرتے ہیں۔ درست سٹائل کا انتخاب خواتین کے لباس کو عام سے خاص بنا سکتا ہے۔

آج کا پکوان:فِش کباب

اجزا : فش فِلے : 500 گرام،پیاز :1 درمیانہ (باریک کٹا ہوا)،ہری مرچ : 2 عدد (باریک کٹی)،ہرا دھنیا : 2 چمچ،ادرک لہسن پیسٹ :1 چمچ،نمک : 1 چمچ،لال مرچ پاؤڈر : 1چمچ،کالی مرچ : آدھا چائے کا چمچ،زیرہ پاؤڈر : 1 چائے کا چمچ،دھنیا

5ویں برسی:شمس ُ الرحمن فاروقی ، ایک عہد اور روایت کا نام

جدید میلانات کی ترویج و ترقی میں انہوں نے معرکتہ الآرا رول ادا کیا

مرزا ادیب ،عام آدمی کا ڈرامہ نگار

میرزا ادیب کی تخلیقی نثر میں ڈراما نگاری کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ انہوں نے بصری تمثیلوں کے ساتھ ریڈیائی ڈرامے بھی تحریر کیے۔ اردو ڈرامے کی روایت میں ان کے یک بابی ڈرامے اپنی منفرد پہچان رکھتے ہیں۔

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے