کالا ’’کنگ‘‘ ریچھ

تحریر : اختر سردار چودھری


دو دن سے جنگل میںشدید بارش ہو رہی تھی۔ سب جانور اپنے اپنے گھروں میں دبکے بیٹھے تھے۔ بارش کی وجہ سے سردی میں بھی اضافہ ہو چکا تھا۔ کالا ریچھ جس کا نام ’’کنگ ‘‘تھا بارش کی وجہ سے دو دن سے شکار پر نہ جا سکا تھا۔ اس کی بیوی ریچھنی پریشان بیٹھی تھی اور ان کے بچے بھی بھوک سے نڈھال ہو رہے تھے۔

آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے۔ لگ رہا تھا بارش کا یہ سلسلہ کئی دن جاری رہے گا۔ بھوک سے بچے بلک رہے تھے، چھوٹے بچے کو تو بخار ہو گیا تھا۔ ریچھنی سے یہ دیکھا نہیں جا رہا تھا۔ وہ کنگ کو تلاش کرتی ہوئی باہر آئی تو کنگ دروازے کی سیڑھیوں پر سر جھکائے پریشان بیٹھا تھا۔

’’تم شکار پر کیوں نہیں جاتے؟‘‘ ریچھنی نے کنگ سے کہا تو اس نے اسے غصے سے دیکھتے ہوئے کہا ’’اتنے زوروں کی بارش ہو رہی ہے،خوراک کا بندوبست کیسے کروں؟‘‘۔ یہ سن کر تھوڑی دیر وہ خاموش رہی ۔پھر کچھ سوچ کرنرمی سے کہنے لگی ’’گھر سے نکلو گے تو کوئی گلہری،کوئی پھل، کوئی مردار جانور، کوئی پرندہ کچھ نا کچھ تو خوراک کیلئے مل ہی جائے گا‘‘۔ ریچھنی تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد پھر بولی ’’باہر جائو، بچے بھوکے ہیں، کوئی زمین پر پڑے پھل مل جائیں تو لے آئو‘‘۔ کنگ ریچھ خاموش رہا۔ 

ننھا ریچھ یہ سب باتیں سن رہا تھا، وہ چپکے سے اُٹھا اور بارش میں ہی باہر نکل آیا۔ اس نے چند دن پہلے ایک بیری کے درخت پر شہد کا چھتا دیکھا تھا۔ وہ برستی بارش میں اس طرف چل پڑا۔ اُسے بھوک لگ رہی تھی۔ اچانک بارش تیز ہو گئی۔ اسے اپنی والدہ اور والد کی یاد ستانے لگی لیکن وہ گھر سے کافی دور آ چکا تھا اور اب خالی ہاتھ واپس جانا نہیں چاہتا تھا۔ 

بارش کی وجہ سے بادل چھائے ہوئے تھے۔ جب وہ بیری کے درختوں کے پاس پہنچا تو وہ سب کچھ بھول گیا، اچھا خاصا اندھیرا ہو گیا تھا۔ جب وہ بیری کے پاس پہنچا تو اس وقت اولے برس رہے تھے۔

اس نے شہد کی چاہت میں کسی قسم کی پروا نہیں کی اور بڑی مشکل کے ساتھ اس درخت کے پاس پہنچ گیا جس پر شہد کا چھتا تھا لیکن کیا دیکھتا ہے کہ وہاں شہد کا چھتا نہیں ہے۔ بارش اور اولے تیزی سے برس رہے تھے۔ وہ مکمل طور پر بھیگ چکا تھا۔ شہد نہ پا کر اس کی بھوک اور بڑھ گئی۔ وہ خود کو بہت کمزور محسوس کر رہا تھا۔ اولوں سے بچنے کیلئے وہ ایک درخت کے نیچے کھڑا ہو گیا۔ کافی دیر گزر گئی دوسری طرف اس کے والدین گھر سے غائب ہو جانے پر پریشان ہو گئے تھے۔

کنگ جو پہلے گھر سے نہیں نکل رہا تھا اب جنگل میں مارا مارا پھر رہا تھا۔ کافی دیر بعد بارش کا زور ٹوٹا تو ننھا ریچھ گھر کی طرف چل پڑا۔ سردی سے اس کا جسم کانپ رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد اسے احساس ہوا کہ وہ اپنے گھر کا راستہ بھول چکا ہے۔ ننھے ریچھ کو تھوڑ ا ڈر لگنے لگا۔ اچانک ایک طرف سے آواز آئی۔جیسے کوئی اس کا نام لے کر پکار رہا ہو۔

’’کون ہے! کون ہے وہاں‘‘ اس نے اُونچی آواز میں پوچھا۔ ’’تم کہاں ہو؟‘‘ اسے والد کنگ ریچھ کی آواز سنائی دی۔ تھوڑی دیر بعد اس کا والد اسے بازوئوں میں اُٹھا کر گھر لے آیا۔ بھوک اور سردی سے وہ کانپ رہا تھا۔ ’’اس کی دوا لانی پڑے گی ‘‘ریچھنی نے کہا تو کنگ نے سر کو ہلایا۔ بارش کافی حد تک کم ہو گئی تھی لیکن ابھی ہلکی پھلکی بارش ہو رہی تھی،’’بارش رکتی ہے تو جاتا ہوں‘‘ کنگ نے کہا۔

ڈاکٹر بنٹو بندر جو کہ ڈاکٹر لومڑ کا سب سے خاص شاگرد تھا، اس نے اپنا الگ کلینک بنا لیا تھا۔ ڈاکٹر لومڑ جنگل کا سب سے پرانا طبیب تھا لیکن اب وہ جنگل کے بادشاہ شیر کی طرح بوڑھا ہو چکا تھا۔ اتنی سردی میں کسی کے گھر بھی مریض دیکھنے جانا اس کی صحت کیلئے نقصاندہ تھا۔ اس کے باوجود جنگل کے جانور اپنے بچوں کی دوا لینے اس کے پاس پہنچ جاتے اور اسے مجبوراً جانا پڑتا۔ اب اتنی شدید بارش میں کوئی اس کا دروازہ کھٹکھٹا رہا تھا اور ڈاکٹر لومڑ میں ہمت نہیں تھی کہ وہ اُٹھ کر جائے۔

اس نے وہاں سے ہی پوچھا ’’کون ہے؟‘‘ اس کی آواز میں بے زاری تھی۔ ’’ڈاکٹر صاحب میں ہوں کنگ ریچھ ، میرے بچے کو سردی لگ گئی ہے، برائے مہربانی اس کیلئے کوئی دوا یا کوئی جڑی بوٹی دے دیں‘‘۔ 

کنگ ریچھ جنگل کا ایک شریف ریچھ تھا۔ ’’تم ڈاکٹر بنٹو کے پاس چلے جائو ،میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔‘‘ ڈاکٹر لومڑ نے جواب دیا ۔’’میں وہاں گیا تھا وہ موجود نہیں ہے ،اور وہ دوا کی قیمت میں خوراک مانگتا ہے، میں خود دو دن سے بھوکا بیٹھا ہوں اسے کہاں سے کھانے کو کچھ دوں‘‘۔

ڈاکٹر لومڑ کو اس پر رحم آیا، اس نے کچھ کھانے کا سامان باندھا اور اس کے ساتھ روانہ ہوگیا۔ جب وہ گھر پہنچے تو پہلے ڈاکٹر لومڑ نے ننھے ریچھ کو شہد چٹایا، شہد سردی میں بہت مفید ہوتا ہے۔ اس کے بعد اسے کھانے کو جنگلی پھل دیے۔ ڈاکٹرلومڑ کافی سارے پھل لایا تھا۔ سب نے تھوڑا تھوڑا کھایا۔ ننھے ریچھ پر ڈاکٹر کے کہنے پر جنگلی خشک گھاس ڈال دی گئی۔ جس سے تھوڑی دیر بعد اس کا جسم کافی گرم ہو گیا۔ اس کے بعد اسے جڑ ی بوٹیاں دی گئیں، جن کے اثر سے وہ سو گیا۔

اب کافی حد تک بارش کم ہو چکی تھی۔ ڈاکٹر لومڑ دل ہی دل میں بہت خوش تھا کہ مشکل وقت میں آج وہ کسی کے کام آیا۔ اس خوشی میں کیچڑ میں واپس جانا بھی اسے برا نہیں لگ رہا تھا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

احسان اللہ کے قرب کا ذریعہ

’’احسان کرو، اللہ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے‘‘ (البقرہ)’’تم آپس میں ایک دوسرے کے احسان کو مت بھولو، بیشک اللہ تعالیٰ کو تمہارے اعمال کی خبر ہے‘‘ (سورۃ البقرہـ)

حُسنِ کلام : محبت اور اخوت کا ذریعہ

’’ اور میرے بندوں سے فرمائو وہ بات کہیں جو سب سے اچھی ہو‘‘(سورہ بنی اسرائیل )’’اچھی بات کہنا اور در گزر کرنا اس خیرات سے بہتر ہے جس کے بعد جتانا ہو‘‘(سورۃ البقرہ)

رجب المرجب :عظمت وحرمت کا بابرکت مہینہ

’’بیشک اللہ کے ہاں مہینوں کی گنتی 12ہے، جن میں سے 4 عزت والے ہیں‘‘:(التوبہ 36)جب رجب کا چاند نظر آتا تو نبی کریم ﷺ دعا مانگتے ’’اے اللہ!ہمارے لیے رجب اور شعبان کے مہینوں میں برکتیں عطا فرما‘‘ (طبرانی: 911)

مسائل اور اُن کا حل

(قرآن کریم کے بوسیدہ اوراق جلانا)سوال:قرآن کریم کے اوراق اگر بوسیدہ ہو جائیں تو انہیں بے حرمتی سے بچانے کیلئے شرعاً جلانے کا حکم ہے یا کوئی اور حکم ہے؟شریعت کی رو سے جو بھی حکم ہو، اسے بحوالہ تحریر فرمائیں۔ (اکرم اکبر، لاہور)

بانی پاکستان،عظیم رہنما،با اصول شخصیت قائد اعظم محمد علی جناحؒ

آپؒ گہرے ادراک اور قوت استدلال سے بڑے حریفوں کو آسانی سے شکست دینے کی صلاحیت رکھتے تھےقائد اعظمؒ کا سماجی فلسفہ اخوت ، مساوات، بھائی چارے اور عدلِ عمرانی کے انسان دوست اصولوں پر یقینِ محکم سے عبارت تھا‘ وہ اس بات کے قائل تھے کہ پاکستان کی تعمیر عدل عمرانی کی ٹھوس بنیادوں پر ہونی چاہیےعصرِ حاضر میں شاید ہی کسی اور رہنما کو اتنے شاندار الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کیا گیا ہو جن الفاظ میں قائد اعظم کو پیش کیا گیا ہے‘ مخالف نظریات کے حامل لوگوں نے بھی ان کی تعریف کی‘ آغا خان کا کہنا ہے کہ ’’ میں جتنے لوگوں سے ملا ہوں وہ ان سب سے عظیم تھے‘‘

قائداعظمؒ کے آخری 10برس:مجسم یقینِ محکم کی جدوجہد کا نقطہ عروج

1938 ء کا سال جہاں قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی سیاسی جدوجہد کے لحاظ سے اہمیت کا سال تھا، وہاں یہ سال اس لحاظ سے بھی منفرد حیثیت کا حامل تھا کہ اس سال انہیں قومی خدمات اور مسلمانوں کو پہچان کی نئی منزل سے روشناس کرانے کے صلے میں قائد اعظمؒ کا خطاب بھی دیا گیا۔