پانچ غلط فہمیاں جو اکثر والدین کو ہوتی ہیں

تحریر : شازیہ کنول


بچے کس کو عزیز نہیں ہوتے؟ لیکن بچوں کو کسی بھی تکلیف اور مشکل سے بچانے کیلئے اُن کا غیرضروری خیال بھی آگے بڑھنے اور ترقی میں رکاؤٹ بن سکتا ہے۔ دنیا بہت تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے، اس لیے ہمارے لیے بھی اب ضروری بن چکا ہے کہ اپنی نئی نسل کی تربیت اُسی اعتبار سے کی جائے کہ وہ تیزی سے بڑھتی دنیا کے ساتھ قدم ملاکر چل سکیں۔اِس حوالے سے تعلیم کا کردار تو بہرحال سب سے کلیدی ہے، لیکن تعلیم کے حصول کے علاوہ بھی کچھ کام ہیں جو بچوں سے کروانے چاہئیں۔

پبلک بسوں میں سفر کروائیں

عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ بچوں کو زیادہ سے زیادہ سہولیات دی جائیں تاکہ انہیںکوئی پریشانی اور مشکل نہ ہو، لیکن یہ عمل ایک حدسے زیادہ ٹھیک نہیں۔ اِس طرح بچے آرام پسند ہو جاتے ہیں اور مشکل صورتحال کا مقابلہ کرنے سے کتراتے ہیں۔ اِس لیے ضروری ہے کہ بچوں کو بسوں میں سفر کروایا جائے تاکہ وہ مختلف لوگوں سے مل سکیں اور اگر کسی وجہ سے اعتماد میں کمی ہے تو وہ بھی بہت حد تک دور ہو جائے۔ 

’’نہیں‘‘ کہنا سکھائیں

کہنے میں یہ بہت آسان لگ رہا ہے کہ ’’نہیں‘‘ کہنے میں کیا پریشانی ہو سکتی ہے، مگر یقین کیجیے کہ شاید یہ دنیا کا مشکل ترین کام ہے کہ آپ کسی کو کسی کام کا انکار کردیں۔ ’’نہیں‘‘ کہنا اِس لیے بھی ضروری ہے کہ جب یہی بچے عملی زندگی میں جائیں گے تو اکثر اِن پر غلط کام کرنے کیلئے دبائو ڈالا جائے گا اور اگر ’’نہیں‘‘ کہنے کی عادت نہیں ہوگی تو یہ بھی غلط کام کرجائیں گے۔

گھر میں اکیلا چھوڑیں

یہ کام والدین کیلئے شاید سب سے مشکل ہو، کیونکہ وہ بچوں کی حفاظت کو سب سے اہم فریضہ سمجھتے ہیں اور یہ ہونا بھی چاہیے، لیکن بچوں کی بہتر تربیت کیلئے انہیں کچھ دیر کیلئے اکیلا چھوڑنا بھی ضروری ہے۔ انہیں بتادیں کہ اگر گھر میں کوئی آئے تو بغیر پوچھے یا گیٹ سے جھانکے بغیر دروازہ نہ کھولیں۔ اسی طرح اگر گھر میں کسی کا فون آئے تو بچے یہ نہ کہیں کہ گھر میں کوئی نہیں ہے، بلکہ یہ کہیں کہ امی یا ابو ابھی مصروف ہیں۔

مختلف تجربات کی اجازت

کوشش کریں کہ اُن کی عمر کے مطابق انہیں کچھ کام کرنے دیں۔ اگر وہ کتابیں پڑھ رہے ہیں، کارٹون یا فلمیں دیکھ رہے ہیں تو انہیں کرنے دیا جائے۔ اگر وہ کہیں باہر سیر و تفریح کی غرض سے دوستوں کے ساتھ جانا چاہتے ہیں تو انہیں نہ روکا جائے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ آپ ان پر نظر ضرور رکھیں اور جہاں بھی اُن سے غلطی ہورہی ہے اُس کی نشاندہی بھی کریں لیکن ابتدائی طور پر انہیں وہ سارے کام کرنے دیں جو وہ کرنا چاہتے ہیں۔اس کا فائدہ یہ ہے کہ وہ اپنی مرضی کا کام کرکے یہ محسوس کرسکتے ہیں کہ اُنہیں آزادی ہے۔ 

حالات کے مطابق کام کی تربیت

والدین کو یہ مشورہ ہے کہ مشکل حالات میں بچوں کا امتحان لیں کہ وہ ان حالات میں کیا کرنے کا سوچتے ہیں۔ اگر وہ ٹھیک ہوں تو اُن کی تعریف کریں اور اگر کہیں وہ غلطی کرگئے ہیں تو انہیں سمجھائیں اور بتائیں کہ کیا کرنے میں بہتری ہوسکتی ہے۔ 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

احسان اللہ کے قرب کا ذریعہ

’’احسان کرو، اللہ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے‘‘ (البقرہ)’’تم آپس میں ایک دوسرے کے احسان کو مت بھولو، بیشک اللہ تعالیٰ کو تمہارے اعمال کی خبر ہے‘‘ (سورۃ البقرہـ)

حُسنِ کلام : محبت اور اخوت کا ذریعہ

’’ اور میرے بندوں سے فرمائو وہ بات کہیں جو سب سے اچھی ہو‘‘(سورہ بنی اسرائیل )’’اچھی بات کہنا اور در گزر کرنا اس خیرات سے بہتر ہے جس کے بعد جتانا ہو‘‘(سورۃ البقرہ)

رجب المرجب :عظمت وحرمت کا بابرکت مہینہ

’’بیشک اللہ کے ہاں مہینوں کی گنتی 12ہے، جن میں سے 4 عزت والے ہیں‘‘:(التوبہ 36)جب رجب کا چاند نظر آتا تو نبی کریم ﷺ دعا مانگتے ’’اے اللہ!ہمارے لیے رجب اور شعبان کے مہینوں میں برکتیں عطا فرما‘‘ (طبرانی: 911)

مسائل اور اُن کا حل

(قرآن کریم کے بوسیدہ اوراق جلانا)سوال:قرآن کریم کے اوراق اگر بوسیدہ ہو جائیں تو انہیں بے حرمتی سے بچانے کیلئے شرعاً جلانے کا حکم ہے یا کوئی اور حکم ہے؟شریعت کی رو سے جو بھی حکم ہو، اسے بحوالہ تحریر فرمائیں۔ (اکرم اکبر، لاہور)

بانی پاکستان،عظیم رہنما،با اصول شخصیت قائد اعظم محمد علی جناحؒ

آپؒ گہرے ادراک اور قوت استدلال سے بڑے حریفوں کو آسانی سے شکست دینے کی صلاحیت رکھتے تھےقائد اعظمؒ کا سماجی فلسفہ اخوت ، مساوات، بھائی چارے اور عدلِ عمرانی کے انسان دوست اصولوں پر یقینِ محکم سے عبارت تھا‘ وہ اس بات کے قائل تھے کہ پاکستان کی تعمیر عدل عمرانی کی ٹھوس بنیادوں پر ہونی چاہیےعصرِ حاضر میں شاید ہی کسی اور رہنما کو اتنے شاندار الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کیا گیا ہو جن الفاظ میں قائد اعظم کو پیش کیا گیا ہے‘ مخالف نظریات کے حامل لوگوں نے بھی ان کی تعریف کی‘ آغا خان کا کہنا ہے کہ ’’ میں جتنے لوگوں سے ملا ہوں وہ ان سب سے عظیم تھے‘‘

قائداعظمؒ کے آخری 10برس:مجسم یقینِ محکم کی جدوجہد کا نقطہ عروج

1938 ء کا سال جہاں قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی سیاسی جدوجہد کے لحاظ سے اہمیت کا سال تھا، وہاں یہ سال اس لحاظ سے بھی منفرد حیثیت کا حامل تھا کہ اس سال انہیں قومی خدمات اور مسلمانوں کو پہچان کی نئی منزل سے روشناس کرانے کے صلے میں قائد اعظمؒ کا خطاب بھی دیا گیا۔