نوازشریف،سولوپرواز،کیلئے کیونکر تیار نہیں؟
عام انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے بعد اس حوالے سے کنفیوژن کا خاتمہ تو ہو گیا مگر انتخابات کی تاریخ کو ایشو بنانے والی جماعتوں نے لیول پلینگ فیلڈ کو ایشو بنانا شروع کردیا ہے اور اس کیلئے مخالفین خصوصاً مسلم لیگ( ن) کو ٹارگٹ کرتی نظر آ رہی ہیں ،جبکہ( ن) لیگ دفاعی انداز اختیار کرنے کے بجائے اپنی انتخابی حکمت عملی پر گامزن ہے اور نئی صف بندی میں مصروف ہے۔
ایم کیو ایم سے انتخابی محاذ پر مفاہمت اور انتخابی سیٹوں پر ایڈجسٹمنٹ کے اعلان کے بعد اب جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ساتھ بھی مسلم لیگ (ن) نے انتخابی مفاہمت کا اعلان کر دیا ہے ۔ اس ضمن میں مسلم لیگ (ن) کی لیڈر شپ کی جمعیت علمائے اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمن اور ان کی جماعت کے دیگر قائدین سے ملاقات میں باقاعدہ اعلان کیا گیا۔ ملاقات میں کہا گیا کہ موجودہ حالات میں بے یقینی کا خاتمہ اسی صورت ممکن ہے کہ انتخابات کے نتیجہ میں ملک میں مضبوط حکومت وجود میں آئے ۔
مولانا فضل الرحمن اور ان کی جماعت کا زیادہ اثر و رسوخ خیبر پختونخوا، بلوچستان اور اندرون سندھ میں ہے اور یہاں سے مسلم لیگ (ن) جے یو آئی سے ممکنہ طور پر اتحاد بھی کر سکتی ہے اور دونوں جماعتوں کے اتحاد اور مفاہمت کا عمل پنجاب کی سطح پر بھی مسلم لیگ (ن)کیلئے تقویت کا باعث ہو سکتا ہے۔ (ن) لیگ کے قائد نوازشریف نے اتحادی حکومت کے دوران بھی اپنی جماعت کے وزیراعظم شہبازشریف کو اہم فیصلوں میں مولانا فضل الرحمن کو اعتماد میں لینے اور ان سے مل کر اہم معاملات پر حکمت عملی بنانے کی ہدایات کی تھی،یہی وجہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن کی شہبازشریف سے ورکنگ ریلیشن شپ قائم رہی اور نوازشریف بھی ہمیشہ ان کے سیاسی فہم کی تعریف کرتے نظر آئے، لہٰذا ایک بات تو اب تک کھل کر سامنے آ چکی ہے کہ نواز شریف آنے والے حالات اور انتخابات میں سولو پرواز کے خواہاں نہیں ۔ ملکی حالات خصوصاً معاشی چیلنجز کو دیکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ ملک کو معاشی بحران سے نجات کیلئے اجتماعی سوچ اور اجتماعی جدوجہد کی ضرورت ہے ، مگر پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے مسلم لیگ (ن ) کی قیادت کو ٹارگٹ کرنے کا عمل سیاسی محاذ پر تنائو کا سبب بن رہا ہے۔جہاں تک لیول پلینگ کا سوال ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جن سیاسی جماعتوں کے پاس عوام کے ایشوز کے حوالے سے انہیں کچھ بتانے کو نہیں وہ لیول پلینگ فیلڈ کو ایشو بنا کر عوامی پذیرائی چاہتی ہیں۔آج کی بڑی ضرورت تو یہ ہے کہ قومی جماعتیں عوام کو یہ باور کرائیں کہ ان کے پاس ملک و قوم کو درپیش مسائل کے حل کیلئے تجربہ کار ٹیم موجود ہے جو ملک کو بحرانی کیفیت سے نکال سکے اور عوام کی زندگیوں میں اطمینان آئے، مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے پاس گزشتہ پانچ سالہ دور میں حکومتوں کا حصہ ہونے کے باوجود عوام کو بتانے کیلئے کچھ نہیں، اس لئے کہ ان پانچ سالوں میں جتنی مہنگائی، بے روزگاری اور غربت میں اضافہ ہوا ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ یہی وجہ ہے کہ انتخابات کے اعلان کے باوجود عوامی سطح پر انتخابی ماحول نہیں بن پا رہا ،اسی بنا پر لیول پلینگ فیلڈ کو بڑے ایشو کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے اگر کسی جماعت کو شکایت ہو سکتی ہے تو وہ تحریک انصاف ہے۔ نو مئی کے واقعات کے نتیجہ میں قائم ہونے والے مقدمات نے اس جماعت کے لوگوں کو خوف وہراس میں مبتلا کر رکھا ہے اور پی ٹی آئی کے ترجمان کی جانب سے بار بار انتخابی عمل میں حصہ لینے کے واضح بیانات کے باوجود ان کے امیدوار میدان میں نظر نہیں آ رہے اور ماہرین یہ کہہ رہے ہیں کہ جب تک انہیں انتخابی سرگرمیوں کی اجازت نہیں ملتی ملک میں آزادانہ اور شفاف انتخابات کے دعوے کو تقویت نہیں ملے گی۔ اگر عام جماعتوں کو اس حوالے سے ساز گار ماحول نہیں ملے گا تو انتخابی شفافیت پر بھی سوالات اٹھیں گے۔
ویسے تو ملک بھر میں اہم سیاسی قیادت سے امریکی سفیر اور برطانوی ہائی کمشنر کی ملاقاتوں کو بھی اہمیت دی جارہی ہے، اس تناظر میں لیا جا رہا ہے کہ پاکستان کی علاقائی اور عالمی حیثیت کے پیش نظر پاکستان میں سیاسی حالات عوامی سطح پر پیدا شدہ رجحانات اور آنے والے انتخابات سے کوئی بھی اہم ملک ان سے الگ تھلگ نہیں رہ سکتا اور اہم ممالک کے سفارتکاروں کی سیاستدانوں سے ملاقاتوں کے بعد عمومی رائے یہ ہے کہ بڑے ممالک نہیں چاہیں گے کہ پاکستان میں انتخابی عمل بارے شکایات ہوں اور پاکستان میں ایسی حکومت وجود میں آنی چاہئے جس میں ان کے دو طرفہ تعلقات اور مفادات بھی یقینی بنیں۔ اطلاعات ہیں کہ بڑے پیمانے پر مبصرین بھی انتخابات کے موقع پر پاکستان آ رہے ہیں ۔ اس بنا پر بھی انتخابات کی آزادانہ اور شفاف حیثیت کو ناگزیر قرار دیا جا رہا ہے۔ پاکستان میں ویسے تو ہر بار انتخابات کے نتائج تسلیم نہ کرنے کی روایت رہی ہے ،اس بار بھی اگر انہی حالات میں انتخابات ہوئے، جن سے تنازعات پیدا ہوتے ہیں تو یہ جمہوریت اور سیاسی استحکام کا ذریعہ نہیں بن پائیں گے۔ اس صورتحال میں بڑی ذمہ داری الیکشن کمیشن پر عائد ہوتی ہے۔ اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ سیاسی قوتوں کو انتخابی مہم کا آزادانہ موقع ملے۔ آج کی بڑی ضرورت اگر انتخابات ہیں تو انتخابات کی آزادانہ اور شفاف حیثیت بھی ضروری ہے، تبھی ایک نمائندہ حکومت بن سکے گی اور وہ بڑے فیصلوں کی پوزیشن میں ہوگی۔
رواں ہفتہ صوبائی دارالحکومت لاہور میں جماعت اسلامی کے زیر اہتمام فلسطینی عوام سے یکجہتی کے اظہار کیلئے منعقدہ غزہ مارچ اپنے مقاصد اور نتائج کے حوالے سے زبردست رہا۔ بڑے پیمانے پر خواتین وحضرات اور بچوں کی اس مارچ میں شرکت سے ظاہر ہو رہا تھا کہ ان کے دل فلسطینی بھائیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور وہ اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کے سفاکانہ قتل عام سے شدید غم و غصہ میں ہیں اور چاہتے ہیں۔ مذکورہ غزہ مارچ کے حوالے سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ پاکستانی عالم اسلام کے بڑے ایشوز خصوصاً کشمیر، فلسطین سے صرفِ نظر نہیں برت سکتے۔ جماعت اسلامی اور بعض دیگر جماعتوں نے فلسطین کے ایشوز پر عوام کی آواز بننے کی یہ کوشش تو کی لیکن پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں کی جانب سے کوئی کردار سامنے نہیں آیا۔ ایسا کیوں ہے، عوام یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری حکومتیں اور جماعتیں اس حوالے سے انجانے خوف کا شکار ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی جانب سے فلسطین کے سلگتے ایشو کے حوالے سے جو بڑا کردار سامنے آنا چاہئے تھا، نہیں آسکا ۔