اسلام میں خواتین کے حقوق
تاریخ انسانی میں محسن انسانیت حضرت محمد مصطفی ﷺ کی ذات اقدس ہی وہ واحد ذات ہے جس نے اپنی تعلیمات اور احکام کے ذریعے صنف نازک کو ذلت و نکبت کے عمیق غار سے نکال کر عزت و عظمت کے بلند مقام پر پہنچایا اور انسانی معاشرے میں عورت کو وقار و احترام کا وہ درجہ عطا کیا جو فطرت اور انسانیت کا متقاضی تھا۔
اسلا م سے پہلے عورت کی تاریخ مظلومیت و محکومیت پر مشتمل تھی۔ عورت کو ساری قوموں اور ملتوں میں کمترسمجھا جاتا تھا۔ اس کا نہ کوئی مستقل مقام تھا اور نہ اس کو کوئی زندہ رہنے کا حق دینے کو تیار تھا۔ دین اسلام ان کیلئے باران رحمت بن کر آیا اور اس نے عورت کی محکومیت و مظلومیت کیخلاف اس قدر زور سے صدائے احتجاج بلند کی کہ ساری دنیا لرز اُٹھی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلائیں‘‘ (النساء:1)۔ دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ان عورتوں کے ساتھ حسن و خوبی سے گزر بسر کرو، اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو ممکن ہے کہ ایک چیز تم کو ناپسند ہے اور اللہ تعالیٰ اس میں کوئی بڑی بھلائی رکھ دے‘‘ (النساء: 19)۔
اسلام نے اسے دامن عافیت کے سائے میں جگہ دی۔ ناموس نسواں کی قدر و قیمت کو اجاگر کیا۔ بدکاری و بے حیائی اور بے آبروئی کے جتنے سر چشمے تھے ایک ایک کر کے سب کو بند کیا اور اس طرح انسانی تہذیب و تمدن کی ترقی اور استحکام کیلئے ایک ایسی پائیدار، مضبوط اور ٹھوس بنیاد قائم کر دی جس کے بغیر ایک صالح معاشرے کا وجود نا ممکن ہے۔ اب اسے میراث و جائیداد میں شریک کیا جانے لگا۔ وہ معاشرے میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھی جانے لگی بلکہ اسے ایمان کی تکمیل قرار دیا جانے لگا۔
قرآن مجید نے عورتوں کو مردوں کا اور مردوں کو عورتوں کا لباس قرار دیا ’’وہ تمہارے لئے لباس ہیں اور تم ان کیلئے‘‘ (البقرہ: 187)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان جس طرح لباس پہن کر سردی گرمی کے مضر اثرات سے محفوظ رہتا ہے اور زیب و زینت اختیار کرتا ہے اسی طرح مرد ہر قسم کی برائیوں اور بے حیائیوں سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ عورت مرد کی رفیق حیات بھی ہے اور دل و دماغ کیلئے راحت و سکون کا ذریعہ بھی۔ اس کے وجود کے بغیر شوہر کی زندگی بے کار اور بے سرور ہے۔ وہی مرد کی ویران زندگی میں خوشیاں بکھیرتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اس کی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارے لئے تم میں سے جوڑے پیدا کئے تاکہ تم ان سے راحت و سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے درمیان محبت و رحمت پیدا کر دی، بلا شبہ اس میں غور و فکر کرنے والوں کیلئے نشانیاں موجود ہیں‘‘ (الروم: 21)۔
بہت سے معاشروں میں عورتوں کو خلع کا حق حاصل نہیں تھا۔ اسلام نے عورتوں کو خلع کا حق دیا۔ ان معاشروں میں شوہر کی وفات کے بعد بیوہ شادی نہیں کر سکتی تھی اور پوری زندگی سوگ اور رنج و ملال کی حالت میں گزار دیتی تھی۔ مطلقہ عورت کا دوسری مرتبہ عقد نکاح سے منسلک ہونا سخت عیب سمجھا جاتا تھا لیکن اسلام نے ان سب باطل افکار و خیالات پر کاری ضرب لگائی اور کہا کہ موت و حیات کی مالک اللہ کی ذات ہے۔ وہ جس کو چاہتا ہے مارتا ہے اور جس کو چاہتا ہے زندہ رکھتا ہے شوہر کی وفات سے عورت ہمیشہ کیلئے مسرت و شادمانی سے محروم نہیں ہو جاتی بلکہ وہ بھی مخصوص ایام عدت گزارنے کے بعد ازدواجی تعلقات قائم کر سکتی ہے اور کسی مرد کے گلشن حیات کی خوشبودار کلی بن سکتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اور اپنے میں سے بیوہ عورتوں کا نکاح کرو‘‘(النور:32)
اسلام نے عورتوں کو مساوی قرار دیا ہے اور بتایا کہ ایک عورت اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی اور تقرب کو انہی شرائط کی پابندی کر کے حاصل کر سکتی ہے جو مردوں کیلئے مقرر ہے۔ مرد کو اگر اچھے اعمال کی بدولت جنت ملے گی تو عورت بھی اپنی نیکیوں کے بدلے جنت کی مستحق ہو گی۔
اسلام نے زندگی کی تعمیر و ترقی کا جو تصور پیش کیا ہے اس کا تعلق اطاعت و عبادات سے ہو یا باہمی معاملات اور لین دین سے ہو۔ خاندانی انتظام و انصرام سے ہو یا معاشرتی آداب و اقدار سے ہو۔ اس نے ہر شعبہ زندگی میں عورت کا صحیح منصب و مقام متعین کیا اور اس کا ذکر خیر و مدح کے ساتھ کیا اور اسے معاشرے اور سوسائٹی کیلئے موجب ننگ و عار نہیں سمجھا بلکہ اس کیلئے لازمی جزو قرار دیا۔ اسلام نے عورت کو رحمت و سکینت کا مظہر ٹھہرایا۔ محسنِ انسانیتﷺ نے عورتوںکے متعلق مردوں کو دلوں میں نفرت و کدورت نہ رکھنے اور پیار و محبت اور شفقت و ہمدردی کا جذبہ پیدا کرنے کی متعدد حدیثوں میں نصیحت فرمائی ہے۔
درج ذیل چند حدیثوں میں اسی کا ذکر ہے۔ حضور رحمت عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’تم میں سب سے زیادہ کامل ایمان والا وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں اور اپنی بیوی کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش آتا ہو‘‘(جامع ترمذی)۔
’’تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنی بیوی کیلئے بہترین ثابت ہو اور خود میں اپنے اہل و عیال کیلئے تم میںسب سے بہتر ہوں‘‘ (مشکوٰۃ)۔
’’نیک اور دیندار بیوی دنیا میں سب سے بڑی نعمت ہے۔ دنیا کی نعمتوں میں کوئی چیز نیک بیوی سے بہترین نہیں‘‘ (ابن ماجہ)۔
’’دنیا کی نعمتوں میں بہترین نعمت نیک بیوی ہے‘‘ (نسائی)