سیاسی بلنڈرپی ٹی آئی کو میچ سے باہر کر دے گا ؟

تحریر : عدیل وڑائچ


تحریک انصاف نے اپنی قیادت کیلئے جس طریقے سے گوہرِ نایاب کا انتخاب کیا اسے اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑ سکتی ہے۔تحریک انصاف ایک ایسا بلنڈر کر چکی ہے جس کا خمیازہ اسے بڑے سیاسی نقصان کی صورت میں اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف اور اس کی قیادت کیخلاف مختلف ادوار میں جب پارٹی فنڈنگ اور توشہ خانہ کیس سامنے آئے توانہیں سنجیدہ نہیں لیا گیا اور ان دونوں کیسز کے فیصلے پی ٹی آئی کیخلاف آ ئے ۔

ان میں سے ایک کیس کے نتیجے میں تو کپتان کو اپنی ٹیم کی سربراہی سے ہاتھ دھونا پڑ گئے۔ انٹرا پارٹی انتخابات کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی دکھائی دیتا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان میں 176 سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ ہیں اور ان میں جماعت اسلامی سمیت صرف چند ایک جماعتیں ایسی ہیں جہاں انٹرا پارٹی انتخابات باقاعدہ جمہوری انداز میں ہوتے ہیں۔ باقی جماعتوں کے انٹرا پارٹی انتخابات الیکشن کمیشن کی ہدایات اور الیکشن ایکٹ کے تقاضے پورے کرنے کیلئے محض ایک دکھاوا ہوتے ہیں۔ عام طور پر سیاسی جماعتیں بلامقابلہ انتخابات کا نتیجہ اپنے پارٹی لیٹر ہیڈ پر چھاپ کر الیکشن کمیشن آف پاکستان میں جمع کروا دیتی ہیں اور الیکشن کمیشن انہیں تسلیم کرلیتا ہے۔ عام طور پر ان انتخابات کو پارٹی اراکین کی جانب سے چیلنج بھی نہیں کیا جاتا‘ مگر ان تمام سیاسی جماعتوں کو چھوڑ کر الیکشن کمیشن آخر  تحریک انصاف کے پیچھے ہی کیوں پڑ گیا؟ جون 2021ء یعنی پارٹی انتخابات کی ڈیڈ لائن سے لے کر اب تک کے واقعات کو دیکھیں تو اس کی ذمہ دار خود تحریک انصاف دکھائی دیتی ہے۔ 

الیکشن ایکٹ کا سیکشن 208 کہتا ہے کہ کسی بھی جماعت کے وفاقی، صوبائی اور مقامی سطح کے عہدیدار پارٹی آئین کے مطابق منتخب ہوں گے۔ سیکشن208 کی ذیلی شق دو انتہائی اہمیت کی حامل ہے اور پاکستان تحریک انصاف کیلئے مستقبل میں مشکلات کا پہاڑ ثابت ہوگی۔یہ شق کہتی ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کے ہر رکن کو پارٹی آئین کے مطابق کسی بھی پارٹی عہدے کیلئے الیکشن لڑنے کے یکساں مواقع فراہم کئے جائیں گے۔ اسی سیکشن میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی سیاسی جماعت مقررہ وقت میں انٹرا پارٹی انتخابات کرانے میں ناکام رہتی ہے تو الیکشن کمیشن اسے اظہارِ وجوہ کا نوٹس جاری کر ے گا۔ الیکشن ایکٹ کے  سیکشن 215 میں کہا گیا ہے کہ اگر سیاسی جماعت انٹرا پارٹی انتخابات کرانے میں ناکام رہتی ہے تو اسے اظہار ِوجوہ کا نوٹس جاری کرکے پوچھا جائے گا کہ انتخابی نشان حاصل کرنے کیلئے کیوں نہ اسے نا اہل قرار دیا جائے؟قانون کہتا ہے کہ اگر سیاسی جماعت پھر بھی ایسا کرنے میں ناکام رہتی ہے تو اسے سماعت کا موقع دیئے جانے کے بعد قومی ، صوبائی اور بلدیاتی انتخابات کیلئے انتخابی نشان کے حصول کیلئے نا اہل قرار دیا جائے گا۔ یہ نا اہلی آنے والے الیکشن تک ہو گی۔ 

تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات 2017ء میں ہوئے جن میں پارٹی آئین کے مطابق چار سال کیلئے عہدیداروں  کو چنا گیا، ان عہدیداروں کی مدت 13 جون 2021ء کو ختم ہو گئی ، تحریک انصاف نے مدت ختم ہونے کے ایک سال بعد  بھی انتخابات نہ کروائے مگر الیکشن کمیشن نے ایک سال کی توسیع کیساتھ جون 2022ء تک انتخابات کرانے کی حتمی ڈیڈ لائن دے دی۔ تحریک انصاف نے 8 جون 2022ء کو اپنے پارٹی آئین میں اچانک اور غیر ضروری ترمیم کرتے ہوئے انتخابی طریقہ کار بدلا اور 10 جون 2022ء کو انتخابات کروا کر الیکشن کمیشن میں رپورٹ جمع کروا دی۔ الیکشن کمیشن نے ان انتخابات پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ترمیم شدہ پارٹی آئین تو کمیشن میں پیش ہی نہیں کیا گیا اور انتخابات کروا دیئے گئے۔ اس کے بعد تحریک انصاف نے پارٹی آئین میں ترامیم واپس لیتے ہوئے ایک نیا سرٹیفکیٹ الیکشن کمیشن میں جمع کروا دیا جسے الیکشن کمیشن نے 23 نومبر 2023 ء کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف کے انٹرا پارتی انتخابات مشکوک اور غیر شفاف تھے۔ بیس روز کے اندر نئے انتخابات شفاف طریقے سے کرائے جائیں، اگر ایسا نہ کیا گیا تو جماعت بلے کے انتخابی نشان سے محروم ہو جائے گی۔ الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ انٹرا پارٹی انتخابات کے طریقہ کار نے ان کی شفافیت پر بہت سے شکوک و شبہات پیدا کر دیئے۔ یہ فیصلہ ایسے وقت میں آیا جب سابق وزیر اعظم توشہ خانہ کیس میں سزا یافتہ ہونے کے بعد پارلیمنٹ کی رکنیت اور پارٹی سربراہی کیلئے نا اہل ہو چکے تھے، جس کے باعث ان کا پارٹی چیئرمین شپ کیلئے حصہ لینا پارٹی کو آئندہ عام انتخابات سے باہر کر سکتا تھا۔ بیرسٹر گوہر خان کو تحریک انصاف کی سربراہی کیلئے نامزد کر دیاگیا۔ تحریک انصاف کیلئے بیرسٹر گوہر خان کو اپنا چیئرمین منتخب کروانا کوئی مشکل کام نہیں تھا مگر ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی غیر ضروری شکو ک و شبہات اور تنازعات پیدا کر دیئے گئے۔ ان انتخابات کیلئے نہ تو پارٹی اراکین کو انتخابات میں حصہ لینے کا موقع دیا گیا نہ ہی پولنگ کے مقام کا اعلان کیا گیا۔ دو دسمبر یعنی پولنگ ڈے پر صبح سویرے خبر آئی کہ بیرسٹر گوہر سمیت دیگر قیادت بلا مقابلہ منتخب ہو چکی ہے۔ تحریک انصاف کیلئے گزشتہ ایک دہائی سے درد سر بنے رہنے والے اکبر ایس بابر میدان میں آئے اور انٹرا پارٹی انتخابات کو الیکشن کمیشن میں چیلنج کر دیا۔ اکبر ایس بابر کے علاوہ دیگر ناراض پارٹی کارکن بھی ان انتخابات کو چیلنج کر چکے ہیں۔ الیکشن کمیشن میں دائر کی گئی درخواستوں میں کہا گیا کہ انتخابات کیلئے نہ تو قواعد کے مطابق شیڈول جاری ہوا نہ ہی کاغذات ِنامزدگی کا وقت اور طریقہ کار بتایا گیا تھا۔انٹرا پارٹی انتخابات کو دکھاوا قرار دیتے ہوئے انہوں نے بلے کے نشان کا استعمال روکنے کی استدعا کی ہے۔  تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات اوربلے کے نشان کا مستقبل کیا ہو گا ، اس کا اندازہ الیکشن ایکٹ کی مذکورہ بالا شقیں اور الیکشن کمیشن کا 23 نومبر کا فیصلہ پڑھنے کے بعد لگایاجاسکتا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کو ثابت کرنا ہو گا کہ اس نے پارٹی اراکین کو الیکشن لڑنے کے یکساں مواقع فراہم کئے اور اس کے انتخابات شفاف تھے، بصورت دیگر اسے آئندہ عام انتخابات میں بلے کے انتخابی نشان سے ہاتھ دھونے پڑ سکتے ہیں۔ تحریک انصاف جو پہلے ہی اپنی قیادت سے محروم ہو چکی ہے اور ملک بھر میں قانون دانوں کو بلے کے انتخابی نشان کے ساتھ سیاسی میدان میں اتارنے کیلئے پر تول رہی ہے ، بلے کا نشان کھونا اسے بڑے میچ سے باہر کر دے گا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

رشتوں کا ادب واحترام،نبیﷺ کی سنت

’’ اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتہ داری کے تعلقات کو بگاڑنے سے بچو‘‘(سورۃ النساء) صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو بدلے کے طور پر کرے، صلہ رحمی تو یہ ہے کہ جب کوئی قطع رحمی کرے تو وہ اسے جوڑے‘‘ (صحیح بخاری)

برائی کا بدلہ اچھائی کے ساتھ

اگر کوئی آپ سے برائی کے ساتھ پیش آئے تو آپ اس کے ساتھ اچھائی کے ساتھ پیش آئیں، ان شاء اللہ اس کے مثبت نتائج دیکھ کر آپ کا کلیجہ ضرور ٹھنڈا ہو گا۔

منافقانہ عادات سے بچیں

حضرت عبداللہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ چار عادتیں ایسی ہیں کہ جس میں وہ چاروں جمع ہو جائیں تو وہ خالص منافق ہے۔ اور جس میں ان چاروں میں سے کوئی ایک خصلت ہو تو اس کا حال یہ ہے کہ اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے اور وہ اسی حال میں رہے گا، جب تک کہ اس عادت کو چھوڑ نہ دے۔

مسائل اور ان کا حل

بیماری کی صورت میں نمازیں چھوٹ جائیں تو کیا حکم ہے ؟ سوال : بیماری کی صورت میں نمازیں قضاء ہوجائیں تو کیا حکم ہے ؟(محمد مہتاب) جواب :ان کی قضاء شرعاً لازم ہے۔

9مئی سے متعلق اعتراف کتنا مہنگا پڑے گا؟

پاکستان تحریک انصاف کے گرد گھیرا تنگ ہونے لگا ہے۔ پی ٹی آئی بھی اپنی مشکلات میں خود اضافہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی ۔ حکومت کی جانب سے تحریک انصاف پر پابندی کے فیصلے اور پی ٹی آئی قیادت پر آرٹیکل 6 لگانے کا اعلان کیا گیا تو بانی پی ٹی آئی نے بیان داغ کر حکومتی پلان کیلئے سیاست کی حد تک آسانی پیدا کردی مگر سیاسی جماعت پر پابندی موجودہ صورتحال میں حکومت کیلئے آسان کام نہیں۔

پاکستان کا سیاسی بحران اور مفاہمت کی سیاست

پاکستان کا سیاسی بحران بڑھ رہا ہے ۔ حکومت، مقتدرہ اور تحریک انصاف کے درمیان ماحول میں کافی تلخی پائی جاتی ہے ۔ پی ٹی آئی پر بطور جماعت پابندی لگانے اور بانی پی ٹی آئی ‘ سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی اور سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری پر غداری کا مقدمہ چلانے کی باتیں کی جارہی ہیں ۔