شال۔۔۔۔۔خوبصورت روایت بھی،سردیوں کی ضرورت بھی
موسم سرما میں شال اوڑھنا خوبصورت روایت بھی ہے اور سردیوں کی ضرورت بھی۔ لباس کے لحاظ سے شال کا چناؤ آپ کی شخصیت کو چار چاند لگا دیتا ہے اور شال کے ذریعے اپنی روایات سے جڑے رہنے کا بھی احساس ہوتا ہے۔ سویٹر ،جرسیاں،جیکٹس یہ وہ لوازمات ہیں جو سردی سے بھی بچاتے ہیں اور پہننے کے بعد شخصیت کے رنگ بھی نکھارتے ہیں۔شال بھی ایک ایسا ہی پہناوا ہے۔
شادی کی تقریبات میں خواتین گرم شالیں ہی اوڑھنا پسند کرتی ہیں کیونکہ یہ آرام دہ،حرارت آمیز،دلنشین ڈیزائنوں اور پرکشش رنگوں میں بھی دستیاب ہیں اور ہر قسم کے پہناوے پر جچ جاتی ہیں۔ دن کے اوقات میں بھی بعض خواتین دوپٹے کی جگہ شال اوڑھتے دکھائی دیتی ہیں۔ سادہ اونی شالوں سے سردی سے بچاؤ بھی ہوتا ہے اور یہ شخصیت پر خوشگوار اثرات بھی مرتب کرتی ہیں۔ فینسی شالوں میں آج کل مخمل کے میٹریل سے کاڑھی ہوئی اور کامدار شالیں زیادہ پسند کی جا رہی ہیں۔ کشمیری شالیں یہ گزشتہ تین صدیوں سے مشہور اور قیمتی شالیں کشمیر کے ہنر مندوں کی تیار کردہ ہمارے یہاں مخصوص دکانوں پر دستیاب ہوتی ہے۔
شال کے رنگ اور اس کا فیبرک بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ مارکیٹ میں سستی سے سستی اور مہنگی سے مہنگی شالیں دستیاب ہوتی ہیں تاہم دیکھنے کی بات یہ کہ آ پ کو کیا چاہئے۔یقینی طور پرمہنگی شال خریدنا کسی کو بھی پسند نہیں اس لئے سبھی خواتین کی کوشش ہوتی ہے ’’کم خرچ بالا نشیں ‘‘ والا معاملہ ہو۔ اس کے ساتھ شال کا رنگ بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔زیادہ عمرکی خواتین پہ ہلکے رنگ جچتے ہیں جبکہ لڑکیاں اور کم عمر خواتین گہرے رنگوں کا انتخاب کرتی ہیں۔ اِس کے ساتھ جسامت کا بھی گہرا تعلق ہے۔ موٹی خواتین کا خیال ہوتا ہے کہ وہ شال پہن کر زیادہ فربہی دکھائی دیتی ہیں اس لئے کئی دفعہ وہ کوشش کرتی ہیں کہ شال نہ پہنی جائے۔
ویلوٹ فیبرک اپنی خوبصورتی اور شاہانہ انداز کے باعث خواتین میں بے حد پسند کیا جاتا ہے۔ ویلوٹ کے ملبوسات ہمیشہ ہی تقریبات کی جان رہے ہیں۔ وہ خواتین جو سمارٹ اور سلم دکھنے کی خاطر ویلوٹ کے ملبوسات نہیں پہنتیں وہ سلک اور شیفون کے ملبوسات کے ساتھ ویلوٹ کی شال کا انتخاب کر سکتی ہیں۔ شادی بیاہ کی تقریبات کی مناسبت سے ہلکے پھلکے کامدار ملبوسات کے ساتھ ویلوٹ شال خوبصورت تاثر پیدا کرتی ہے مگر خیال رکھیں کہ ویلوٹ فیبرک خود بھی بھاری ہوتا ہے لہٰذا اس پر بھاری کامدار مٹیریل استعمال نہ کریں تاکہ اسے کیری کرنا آسان ہو اور آپ کی شخصیت بھی بوجھل محسوس نہ ہو۔ موسم کی مناسبت سے شال کیلئے گہرے رنگوں کا انتخاب کریں۔
اصل پشمینہ شال خاصی مہنگی ہوتی ہے۔یہ شالیں ہاتھ کے علاوہ اب مشین سے بھی بنائی جانے لگی ہیں۔ وادی کشمیر کے اس فن پر کئی تہذیبوں کے اثرات محسوس کئے جا سکتے ہیں۔اس خوبصورت خطے پر مغلوں،افغانیوں،سکھوں اور ڈوگروں کی حکومت رہی ہے۔موجود شال پرانی تمام اقوام کے ہنر مندوں کے ہنر کا عکس دیکھا جا سکتا ہے۔ یعنی اس کی بنت، ٹانکوں اور نمونوں میں امتزاج پایا جاتا ہے۔ کشمیر میں 17 ویں صدی سے قبل بھی اس کا ذکر ملتا ہے۔ ایک سیاح بیرن خان بیوگل نے سلطان زین العابدین (-1470 1420ء )کے دور میں شال سازی کو صنعت کا درجہ دیا تھا۔اس صنعت نے کم و بیش پانچ لاکھ افراد کو روزگار مہیا کیا ہے۔پاکستان میں گلگت کے مقام پر مقامی دستکاروں کی تیار کردہ شالیں اپنی مارکیٹ بنا رہی ہیں۔ پشمینہ ہمارے یہاں بھی بنی جاتی ہے۔اس میں اونی، سوتی، ہمادار، تارکشی اور Emboss کے علاوہ کھاڈی اور چلاسی شال کی ورائٹی بھی ملتی ہے۔اب جیسا موقع ہو،جیسا موڈ اور تقریب کی نوعیت ہو ویسی شال اوڑھنے کا انتخاب ہمارے پاس ہوتا ہے۔