حجر اسود روئے زمین پر جنت کا پتھر
حجر اسود اس کائنات میں سب سے اعلیٰ اور افضل پتھر ہے۔ بیت اللہ شریف کا افضل ترین حصہ یہی افضل ترین مقام ہے۔ اسی لیے تو اسلام نے اسے چومنے یا اس کو چھونے کا حکم دیا ہے۔ یہ پتھر بیت اللہ شریف کے جنوب مشرقی حصے میں نصب ہے۔ بیت اللہ شریف کا دروازہ اس کے دائیں جانب واقع ہے۔ مطاف سے یہ ڈیڑھ میٹر اونچا بیت اللہ کی دیوار میں نصب ہے۔ ہم اس پتھر کی حقیقی تصویر تو بیان نہیں کر سکتے کیونکہ اس وقت یہ 8چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں پر مشتمل ہے۔ ان ٹکڑوں کو مسک، عنبر اور خصوصی مصالحے کے ساتھ چاندی کے ایک خول میں اکٹھا کیا گیا ہے۔ جس شخصیت نے سب پہلے حجر اسود کو چاندی کا حلقہ یا خول پہنایا وہ مشہور صحابی سیدنا عبداللہ بن زبیرؓ تھے۔
جب اللہ کے رسول ﷺ کی عمر مبارک 35سال تھی تو ایک مرتبہ اتفاقاََ بیت اللہ شریف کو آگ لگ گئی جس سے کعبہ شریف کے پتھر کمزور پڑ گئے۔ سیدنا ابراہیم علیہ اسلام کے زمانے ہی سے بیت اللہ شریف کی دیواروں کی بلندی 9ہاتھ یعنی قریباً پونے سات میٹر تھی۔ اس پر چھت بھی نہیں تھی۔ لوگ اس عظیم اور شرف والے گھر کی عظمت کا لحاظ رکھتے ہوئے اسے تحائف پیش کرتے رہتے تھے۔ بیت اللہ کے اندر کچھ خزانہ بھی رکھا ہوا تھا۔ بیت اللہ شریف کی حفاظت کا کوئی خاص اہتمام بھی نہ تھا۔ ایک روز چوروں نے بیت اللہ کے اندر رکھا ہوا خزانہ چوری کر لیا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ غلط کام مکہ کے ایک مشہور سردار نے کیا تھا۔ اس لیے قریش کعبہ پر چھت بھی ڈالنا چاہتے تھے۔ بیت اللہ شریف کی تعمیر کو ایک طویل عرصہ گزر چکا تھا۔ عمارت کسی بھی وقت بھی گر سکتی تھی۔ بیت اللہ شریف شہر مکہ کی سطح زمین سے خاصا نیچے ہے۔ بارش آتی تو پانی سیلابی شکل میں یہاں داخل ہو جاتاتھا۔ ایک سال زور دار سیلاب آیا۔ جس کے نتیجہ میں خانہ کعبہ کسی بھی لمحے ڈھے سکتا تھا۔ اب قریش کے پاس اسے از سر نو تعمیر کرنے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں تھا۔
جب عمارت حجر اسود کی بلندی پر پہنچی تو قریش میں جھگڑا شروع ہو گیا کہ حجر اسود کو اس کی جگہ پر کون نصب کرے گا۔ قریش کا ہر قبیلہ اور ہر سردار چاہتا تھا کہ وہی حجر اسود کو اس کی جگہ پر رکھنے کا شرف حاصل کرے۔ یہ جھگڑا پانچ دنوں تک چلتا رہا۔ ہر کوئی اس فضیلت کا حقدار ہونے کا دعویدار تھا۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جارہا تھا جھگڑے کی شدت میں اضافہ ہوتا چلا جارہا تھا۔ اس بات کا خدشہ پیدا ہو گیا کہ کہیں حرم کے اندر تلواریں نہ چل جائیں اور آپس میں قتل و غارت ہی شروع نہ ہو جائے۔ ابو امیہ مخزومی قریش کا ایک بوڑھا سردار تھا۔ اس نے لڑنے جھگڑنے والوں کو خاموش کرواتے ہوئے کہا: بھائیو! آپس میں جھگڑتے کیوں ہو! ایسا کرتے ہیں کہ ابھی حرم کے دروازے سے جو سب سے پہلا شخص اندر داخل ہو گا اسی کو ہم اپنا فیصل مان لیتے ہیں۔ جتنے لڑنے والے تھے سب کہنے لگے: ابو امیہ!ہمیں آپ کی تجویز سے اتفاق ہے۔قریش بیت اللہ کے دروازے کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ کون سب سے پہلے حرم میں داخل ہوتا ہے۔ اب دیکھیے! اللہ کی قدرت اور اس کی مرضی کہ سب سے پہلے صادق اور امین محمد (ﷺ ) حرم شریف میں داخل ہوتے ہیں۔جیسے ہی لوگوں کی نظر آپﷺ پر پڑی تو سب خوشی سے سرشار ہو گئے۔ کہنے لگے: ارے یہ تو امین آگئے ہیں، یہ تو محمدﷺ ہیں، ہم ان کے فیصلے پر دل و جان سے راضی ہیں۔ اللہ کے رسول ﷺ جب ان کے قریب پہنچے تو قریش نے آپﷺ سے درخواست کی کہ آپﷺ ان کے درمیان حجر اسود کے حوالے سے جھگڑے کا فیصلہ کر دیں۔آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ایک بڑی سی چادر لائی جائے۔ حکم کی فوراً تعمیل ہوتی ہے۔ آپ ﷺ نے چادر کو زمین پر بچھایا۔ اپنے مبارَک ہاتھوں سے حجر اسود کو چادر کے درمیان میں رکھا۔
اب آپ ﷺ نے آپس میں لڑنے جھگڑنے والے تمام قبائل کے سرداروں کو بلایا اور ان سے فرمایا:آپ سب لوگ اس چادر کو کناروں سے پکڑ کر اوپر اٹھائیں۔ تمام سرداروں نے چادر کو اٹھایا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اب اسے اسی طرح بیت اللہ کے دروازے کے پاس لے چلو۔ تمام سردار حجر اسود کو اٹھائے ہوئے اس کے مخصوص مقام پر لے جاتے ہیں۔ اللہ کے رسولﷺ آگے بڑھتے ہیں اور اپنے مبارَک ہاتھوں سے حجراسود کو اٹھا کر اس کی مقررہ جگہ پر رکھ دیتے ہیں۔ (مسند أحمد: 425/3)
اللہ کے رسول ﷺکا یہ فیصلہ بڑا ہی عمدہ تھا۔ بڑے بڑے سردار‘ عقلمند اور زیرک لوگ اس فیصلہ پر عش عش کر اٹھے۔اللہ کے رسولﷺ کے جدامجد قصی سے لے کر سیدنا عبد اللہ بن زبیر کے دور خلافت تک حجر اسود کو نہ تو کوئی نقصان پہنچانہ ہی اسے چوری کرنے کی کوشش کی گئی۔ تاہم 64ہجر ی میں سیدنا عبد اللہ بن زبیرؓ کے دور خلافت میں یزیدی فوج کے کمانڈر حصین بن نمیر کی قیادت میں عبد اللہ بن زبیرؓ کو خلافت سے ہٹانے کیلئے بیت اللہ شریف کا گھیراؤ کیا گیا۔ چونکہ سیدناعبد اللہ بن زبیر بیت اللہ ہی میں پناہ لیے ہوئے تھے، اس لیے کعبۃ اللہ پر منجنیق سے پتھر برسائے گئے۔ ا س کے نتیجے میں کعبہ شریف کے غلاف کو آگ لگ گئی جس سے حجر اسود کو بھی نقصان پہنچا۔73ہجری میں ایک بار پھر غلاف کعبہ کو ایک حاجی کی غلطی کے باعث آگ لگ گئی‘ غالباً وہ غلاف کعبہ کو خوشبو دار دھونی دے رہا تھا۔ اس سے بھی حجر اسود کو جزوی طور پر نقصان پہنچا۔اس نقصان کے ازالہ کے لیے مشہور عباسی خلیفہ ہارون رشید نے حجر اسود پر چاندی کا خول چڑھا دیا اور حجر اسود کے ٹکڑوں کے درمیانی خلا کو الماس سے بھر دیا۔
رسول ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: حجر اسودجنت سے آیا تو اس کا رنگ ابتداء میں سفید تھا۔ لیکن ابن آدم کی خطاؤں کی وجہ سے اس کا رنگ تبدیل ہوتا گیا حتیٰ کہ یہ بالکل سیاہی مائل ہوگیا۔ یہ اللہ کی قدرت ہے کہ ابن آدم کے گناہوں کی سیاہی ہر شخص کو نظر آرہی ہے۔
یہاں یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ حجر اسود کا بڑا مقام ہے، بڑی فضیلت ہے لیکن مسلمان کسی بھی حال میں اس کی عبادت نہیں کرتے بلکہ اس پتھر کی تعظیم اللہ کے حکم کی بنا پر اور محمد رسول اللہﷺ کی سنت پر عمل کیلئے کرتے ہیں۔ حدیث پاک میں آتا ہے کہ یہ مسئلہ لوگوں کو سمجھانے کیلئے سیدنا عمر فاروقؓ نے ایک مرتبہ حجر اسود کا بوسہ لیا اور پھر اسے مخاطب کرکے فرمایا: ’’ یقینا میں یہ بات اچھی طرح جانتا ہوں کہ تو محض ایک پتھر ہے جو کسی کو نقصان یا فائدہ پہنچانے کی سکت نہیں رکھتا۔ اگر میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو تجھے میں کبھی بوسہ نہ دیتا‘‘
طواف کے دوران حجر اسود کو بوسہ دیناسنت ہے۔ تاہم اگر رش زیادہ ہو تواسے ہاتھ لگاکر ہاتھ کو چوما جا سکتا ہے۔ اگر اس کی بھی گنجائش نہ ہو تو بسم اللہ واللہ أکبر کہتے ہوئے دور سے ہاتھ کا اشارہ کر دینا کافی ہے، مگر اس صورت میں ہاتھ کا بوسہ نہیں لیاجائے گا۔ اللہ کے رسولﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر بیت اللہ شریف کا طواف کیا۔ آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی، اس لیے آپ نے اونٹنی پرسوار ہو کر طواف کیا۔ ہر چکر میں جب حجر اسود کے مقام پر تشریف لاتے تو ہاتھ کی چھڑی کے ساتھ اشارہ کر دیتے۔ سو بیمار شخص وہیل چیر پر طواف کر سکتا ہے اور اگر چھڑی سے یاہاتھ سے چھونا ممکن نہ ہو تو دور سے حجر اسود کی طرف اشارہ کردینا ہی کافی ہے۔