شمس العلما مولانا محمد حسین آزاد!
تعارف:مولانامحمد حسین آزاد کی پیدایش 1830ء کو دہلی میں ہوئی۔ ان کے والد مولوی محمد باقر شمالی ہند کے پہلے اردو اخبار ’’دہلی اردو اخبار‘‘ کے مدیر تھے۔آپ کے آبا ؤ اجداد ایران سے ہجرت کر کے ہندوستان آئے تھے۔ محمد حسین آزاد نے اردو ادب کو بہت گران قدر تصنیفات دی ہیں۔
ان میں ’’ سخن داں فارسی، قصص ہند، دربار اکبری، نگارستان فارس، سیر ایران، دیوان ذوق اور نیرگ خیال‘‘ کافی اہم ہیں۔ ان کے علاوہ نصابی کتابوں میں ’’اردو کی پہلی کتاب، اردو کی دوسری کتاب، اردو کی تیسری کتاب، قواعد اردو‘‘ اہمیت کی حامل ہیں۔انہیں سب سے زیادہ شہرت ’’آب حیات‘‘ سے ملی کہ یہ واحد ایسی کتاب ہے جس میں اردو شاعری کی صرف تاریخ یا تذکرہ نہیں ہے بلکہ اہم لسانی مباحث بھی ہیں۔ اس میں اردو زبان کے آغاز و ارتقا پر بحث ہے۔ اس کتاب نے اردو تنقید کو نقش اوّل بھی عطا کیا۔ اس میں قدیم تذکروں کے مروجہ انداز سے انحراف کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ نثر کا اعلیٰ نمونہ بھی ہے۔
آزاد ایک اہم انشاپرداز، ناقد اور محقق بھی تھے۔ انہوں نے زبان اردو کی تاریخ اور نشو ونما، اصلیت زبان پر تحقیقی مضامین بھی لکھے۔آپ کا شمار آزاد نظم کے اوّلین شاعروں میں بھی ہوتا ہے۔ انہوں نے نظم نگاری کو ایک نئی جہت عطا کی۔ اردو نثر اور نظم کو نیا مزاج عطا کرنے والے محمد حسین آزاد پر آخری وقت میں جنون اور دیوانگی کی کیفیت طاری ہو گئی تھی۔ان کا 22جنوری 1910ء میں 96 برس کی عمر میں لاہور میں انتقال ہوا۔
مولانا محمد حسین آزاد کو جدید اردو نظم کابانی اور مجدّد کہا جاتا ہے۔شمس العلماء کہلانے والے آزاد ہمہ جہت صلاحیتوں کے مالک تھے۔ تحریر تقریر اور بطور خاص اسلوب میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ ان کی تحقیق، تنقید، تذکرہ نگاری، سوانح نگاری، خاکہ نگاری، انشا نگاری، مقالہ نگاری، صحافت ، مکتوب نگاری، تاریخ نگاری، نثر نگاری وغیرہ اردو میں نقش اوّل کی حیثیت رکھتی ہیں۔
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
مولانا آزاد حسین کے والد کا نام مولانا محمد باقر تھااوروہ ذوق کے دوست تھے۔ اسی وجہ سے آزاد کی ابتدائی تعلیم ذوق کے سایہ عاطفت میں ہوئی۔ان کی مولانا محمد حسین آزاد بابرکت صحبت سے موصوف نے شعر گوئی اور فن عروض سیکھا۔اس لیے آپ لفظ کی طاقت اور خوبصورتی سے مکمل طور پر واقف تھے جبکہ طبیعت میں نازک مزاجی اور حساس پن زیادہ تھا۔ ان خوبیوں کی بدولت آپ کا تخیلی دنیا آباد کر لینا فطری عمل تھا۔ اس تخیل کو نثر کی صورت عطا کرتے ہوئے پورے کا پورا منظر ہی کاغذ پر اتار لیتے تھے کہ آج بھی پڑھنے والے کو اپنے سامنے، وہ سب کچھ حقیقت نظر آتا ہے۔
ان کی نثر میں روانی سلاست اور فصاحت و بلاغت پائی جاتی ہے۔ مرقع نگاری کرتے ہوئے وہ تصوراتی تصویروں میں رنگ بھرنے کیلئے موقع محل کی مناسبت سے الفاظ و تراکیب کا خوبصورت استعمال کرتے ہیں۔ مولانا نے ایسا طرز ادا تخلیق کیا جس کی تقلید نہیں کی جا سکتی۔ آپ ’’جدید شاعرانہ نثر‘‘ کی پہلی اور اہم مثال ہیں۔ آپ الفاظ کے صوتی اثرات کو کام میں لاکر عبارت میں موسیقی اور ترنم پیدا کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا آزاد کی نیرنگ خیال ہو یا پھر آب حیات کسی کو بھی، کہیں سے بھی کھول کر پڑھنا شروع کردیں۔ آپ لفظوں کے حسن سے محظوظ ہوں گے۔ آپ کی نظریں لفظوں کو چومتی ہوئی آگے بڑھتی چلی جائیں گی۔ دل کی دھڑکنیں تک مولانا کے اسلوب میں ڈھل جائیں گی۔ لفظوں کا طلسم آپ پر ایسی کیفیت طاری کر دے گا کہ آپ کو ہر لفظ میں اس کا منظر نظر آئے گا۔ مولانا آزاد کی جملہ بندی، الفاظ کی نشست و برخاست قاری کو اپنے سحر میں قید کر لیتی ہے اور پھر آزاد کا قیدی کبھی آزاد نہیں ہوتا۔ بطورنمونہ ایک اقتباس ملاحظہ ہو۔
’’سودا کے منہ سے رنگ رنگ کے پھول جھڑتے تھے۔ میر بد دماغی اور بے پروائی سے آنکھ اٹھا کر نہ دیکھتے تھے، شعر پڑھتے اور منہ پھیر لیتے۔ درد کی آواز درد ناک دنیا کی بے بقائی سے جی بیزار کیے دیتی تھی۔ میر حسن سحر بیانی سے پرستان کی تصویر کھینچتے تھے۔ انشاء اللہ خان انشاء قدم قدم پر نیا بہروپ دکھاتے تھے۔ ناسخ کی گلکاری چشم آشنا معلوم ہوتی اور اکثر جگہ گلکاری اس کی عینک کی محتاج تھی۔ مگر آتش کی زبان اسے جلائے بغیر نہ چھوڑتی۔ مومن کم سخن تھے مگر جب کچھ کہتے تھے تو جرات کی طرف دیکھتے تھے‘‘۔
مولانا آزاد کی سب سے معرکتہ الآراء تصنیف ’’آب حیات‘‘ ہے۔ جس نے اردو تنقیدی شعور اور تحقیقی بصیرت سے روشناس کرایا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس نے باقاعدہ تحقیقی وتنقیدی اصول وضوابط متعین نہیں کئے۔تنقید وتحقیق کی کسوٹیاں اور معیار مقرر نہیں کئے۔لیکن عملی طور پر کاربند ہوکر غیر شعوری طور سے اس بات کا احساس دلایا کہ کسی شاعر کے کلام یاکسی ادیب کی تصنیف کو بنا چوں و چرا و بغیر نقدو تحقیق کئے تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔نہ ہی اس کی رائے کے سامنے سر تسلیم خم کیا جاسکتا ہے۔
جس طرح موبائل اور دیگر ڈیوائسز ہوا میں موجود سگنل اپنی طرف کھینچتی ہیں۔ بالکل اسی طرح مولانا آزاد کا قلم بھی جیسے ہی کاغذ کو چھوتا تو گویا سرکٹ مکمل ہوگیا ہے۔ اور آسمانِ تخیل میں معلق الفاظ کرنٹ فلو کی طرح کاغذ پر بہہ نکلتے۔ یہی وجہ تھی کہ آزاد کی آزادانہ طبیعت نے قلم کو پوری آزادی سے برتا۔ وہ صرف ایک صنف تک محدود نہیں رہے بلکہ انشائیہ، تاریخ، جدید نظم، شاعرانہ نثر ، تمثیل نگاری، مکالمہ نگاری اور تذکرہ نگاری بھی کرتے چلے گئے۔
آپ کا شمار اردو کے عناصرخمسہ میں ہوتا ہے۔ سرسید، نذیر احمد، شبلی اور حالی جیسے ہم عصر ہونے کے باوجود، اپنا الگ اور نمایاں مقام بنانا، ایک ایسی کرامت ہے جو مولانا آزاد کے علاوہ کسی دوسرے کے حصے میں نہیں آئی۔ ادب کی انہی خدمات کے عوض حکومت ہند نے 1887ء میں آپ کو ’’شمس العلماء‘‘کا خطاب دیا۔
مولانا آزاد شاعر، ادیب اورعظیم مفکر تھے۔ آپ نے اردو ادب کو تکلف، تصنع اور پرشکوہ الفاظ کی بھیڑ سے آزاد کرانے کیلئے بڑا کام کیا۔ آپ نے موضوع کی اہمیت اور متن کی سادگی و مانوسیت پر زور دیا۔ آپ ادب میں حقیقت نگاری، بے تکلفی اور سادگی کے قائل تھے۔
مولانا آزاد کا تخیل اس قدرحسین اور بلند تھا کہ الفاظ آپ کی طرف کھنچے چلے آتے تھے۔ حالت جنون میں بھی اگر آپ کا قلم کاغذ کو چھو جاتا تو مضمون ترتیب پانا شروع ہو جاتے۔ آزاد کی تصانیف کا مطالعہ کیا جائے تو طبیعت ہشاش بشاش ہوجاتی ہے۔ لیکن جب ان کی زندگی پر نگاہ ڈالی جائے تو احساس غم سے گزرنا پڑتا ہے۔ والد کو پھانسی دیے جانے کے صدمے کے علاوہ بھی آپ کو کئی دکھ جھیلنے پڑے۔ 14 بچوں میں سے 13 فوت ہوگئے۔ایران سے واپسی پر اونٹ سے گرنے کے باعث ذہنی عارضے کا شکار ہو گئے۔ 20 سال حالت جنون میں رہ کر 22 جنوری بمطابق 9 محرم الحرام کواس دنیا سے رخصت ہوئے ۔ آپ کی وفات پر حالی نے اپنے پرملال دل سے آپ کو یوں خراج پیش کیا:
آزاد وہ دریائے سخن کا دْر یکتا
جس کی سخن آرائی پر اجماع تھا سب کا
ہر لفظ کو مانیں گے فصاحت کا نمونہ
جو اس کے قلم سے دمِ تحریر ہے ٹپکا
دیکھا نہ سنا ایسا کہیں اہل قلم میں
تصنیف کا، تدوین کا، تحقیق کالپکا
صحت میں علالت میں اقامت میں سفر میں
ہمت تھی بلا کی تو ارادہ تھا غصب کا
قرض اپنا ادا کرکے کئی سال سے مشتاق
بیٹھا تھا کہ آئے کہیں پیغام طلب کا
آخر شب عاشورا کو تھی جس کی تمنا
آ پہنچا نصیبوں سے بلاوا اس رب کا
تاریخ وفات اس کی جو پوچھے کوئی حالی
کہہ دو کہ ’’ہوا خاتمہ اردو کے ادب کا‘‘