لیلتہ القدر اجر عظیم کی رات

تحریر : مفتی محمد وقاص رفیع


جو شخص شب قدر میں ایمان کی حالت میں ثواب کی نیت سے قیام کرے گا اس کے گناہ معاف ہو جائیں گے(صحیح بخاری:35)اس مبارک رات میں اتنے فرشتے دعا مانگنے والوں کے ساتھ آمین کہنے کیلئے اترتے ہیں کہ زمین تنگ پڑ جاتی ہے

قرآن مجید اللہ کی ایسی مقدس کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں،قرآن مجید دنیائے انسانیت کیلئے رشدو ہدایت کا وہ سر چشمہ ہے جس کو اللہ رب العزت نے 23 برس کے عرصہ میں نبی کریم ﷺ پر وحی کی صورت میں نازل کیا۔ ایک دن حضورﷺغارِ حرا میں اپنے رب کی عبادت میں مشغول تھے کہ اچانک آپ ﷺ پر وحی نازل ہوئی اور فرشتہ نے آ کر کہا ’’پڑھو(اے نبیﷺ)اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے  جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی، پڑھو اور تمہارا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا۔انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا (سورہ العلق، آیت نمبر 1 تا 5)اور وحی کا اختتام عہد رسالت کے آخر میں اس آیت کے ساتھ ہوا۔’’آج کے دن میں نے مکمل کردیا تمہارا دین تمہارے لئے اور میں نے پوری کردی تم پر اپنی نعمت اور پسند کیا میں نے تمہارے لئے اسلام کو دین کی حیثیت سے‘‘(سورۃ المائدہ:3)

قرآن مجید انسانوں کے نام اللہ تعالیٰ کا آخری پیغام ہے جو اُس نے اپنے آخری نبی ﷺ کے ذریعے نسل انسانی تک پہنچایااس کے بھیجنے والے کی کبریائی و بزرگی اور جن پر بھیجا گیا اُن کی عظمت و سر بلندی اور خود اپنے موضوع کی اہمیت و خوبی کے باعث اس کا نام لیتے وقت اس کو قرآن مجیدکہتے ہیں، چونکہ اللہ کی یہ آخری کتاب عزت بزرگی اور دانائی کی باتوں سے بھری پڑی ہے اس لئے اس کے ساتھ اس کی خوبیوں کو بھی ملا کر نام لیا جاتا ہے۔قرآن کریم اللہ کے احکام و ہدایات کولے کر نا زل ہوا اور اس کی حفاظت بھی اللہ نے خود اپنے ذمہ لے رکھی ہے۔

 قرآن مجید کی اوّلین آیات غار حرامیں حضرت جبرائیل ؑ لے کر رمضان المبارک میں لیلۃ القدر میں نبی کریمﷺپر نازل ہوئیں۔ جس رات میں اللہ کا آخری پیغامِ ہدایت نازل ہونا شروع ہوا اس سے بڑھ کر خیر و برکت والی رات دور فلک نے نہ دیکھی ہوگی اور نہ دیکھے گا۔ سورۃالبقرہ کی آیت نمبر 185 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا‘‘۔ شب قد ر کی فضیلت سورہ دخان کی آیت نمبر3 میں فرمائی گئی ہے ’’ہم نے اسے ایک برکت والی رات میں نازل کیا ہے‘‘۔ یعنی رمضان المبارک کی ایک رات جس میں قرآن نازل کیا گیا اْسے لیلۃ القدر یا شب قدر کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورہ مبارکہ میں لیلۃ القدر (شب قدر) کی عظمت کی چار بنیادی خصوصیات بیان کی ہیں۔(1)نزول قرآن، (2) نزول ملائکہ،(3) ہزار مہینوں سے افضل رات، (4) پوری شب سلامتی اور رحمت۔ واضح رہے کہ یہ شب مبارک اس قدر اہمیت وفضیلت والی ہے کہ اس کی ایک رات کی اخلاص کے ساتھ عبادت اہل ایمان کیلئے 83 برس چار ماہ کی عبادتوں سے بھی افضل ہے۔ یہ تو صرف کم از کم حد بیان ہوئی ہے۔ ہزاروں مہینوں سے کس قدر افضل ہے اس کی مقدار اللہ تبارک وتعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں۔

’’لیلۃ القدر‘‘ عربی زبان کے لفظ ہیں۔ لیل کے معنی ’’رات‘‘ اور قدر کے معنی ’’بزرگی اور بڑائی‘‘ کے ہیں۔ لیلۃ القدر (شب قدر) یعنی بڑائی اور بزرگی والی رات۔ امام زہریؒ فرماتے ہیں: ’’قدر کے معنی مرتبے کے ہیں، چوںکہ یہ رات باقی راتوں کے مقابلے میں شرف ومرتبے کے لحاظ سے بہت بلند ہے، اسی لیے اسے لیلۃ القدر کہتے ہیں۔

اس رات کو شب قدر کے نام سے تعبیر کرنے کی وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ اس رات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی نہایت قابل قدر کتاب (قرآن مجید)، قابل قدر امت کیلئے حضورﷺ کی معرفت نازل فرمائی۔ یہی وجہ ہے کہ سورۃ القدر میں لفظ ’’قدر‘‘ تین مرتبہ آیا ہے۔(تفسیر کبیر)۔

شب قدر کے حصول کا سب سے اہم سبب رحمۃ اللعالمین،حضور ﷺ نے اپنی امت کو سابقہ امتوں کے لوگوں کی عمروں سے آگاہ فرمایا جو کہ بہت طویل تھیں، آپﷺ نے سوچا کہ پہلی امتوں کی عمریں بہت لمبی ہیں، جبکہ میری امت کے لوگوں کی عمریں بہت تھوڑی،اگر وہ نیک اعمال میں ان (پہلی امتوں) کی برابری بھی کرنا چاہیں تو ناممکن ہے،تو اسی کی تلافی میں یہ رات عطا کی گئی۔

 حضرت ابن عباسؓ  فرماتے ہیں قرآن نازل کرنے کے دو مطلب لئے ہیں ایک تویہ کہ پورا قرآن پاک حامل وحی فرشتوں کے حوالہ کر دیا گیا او ر حالات و واقعات کے مطابق حضرت جبرائیل ؑ اللہ کے حکم سے وقتاً فوقتاً اس کی آیات اور سورتیں حضور نبی کریمﷺ پر نازل فرماتے رہے۔ جبکہ امام شعبی ؒکے قول کے مطابق قرآن کے نزول کی ابتدا لیلۃ المبارکہ سے ہوئی۔سورۃ القدر آیت 1تا 5 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’ہم نے اس (قرآن)کو شب قدر میں نازل کیا ہے اور تم کیا جانوکہ شب قدر کیا ہے۔شب قدر ہزار مہینو ں سے زیادہ بہتر ہے۔فرشتے اورروح اس میں اپنے رب کا ہر حکم لے کر اُترتے ہیں۔وہ رات سراسر سلامتی ہے طلوع فجر تک‘‘۔

لیل کے معنی عربی میں رات کے ہیں اور قدر کے معنی بعض مفسرین نے تقدیر کے لیئے ہیں۔لیلۃ القدر کے معنی یہ ہوئے وہ رات جس میں رب العزت تقدیر کے فیصلے نافذ کرنے کیلئے اپنے فرشتوں کے سپر د کرتے ہیں۔اس مطلب کی تاکید سورۃ دخان کی آیت5سے بھی ہوجاتی ہے’’اس رات میں ہر معاملہ کا حکیمانہ فیصلہ صادر کر دیا جاتا ہے‘‘جبکہ امام زہری ؒقدر کے معنی تقدیر کے بجائے عظمت و شرف بتاتے ہیں۔وہ اس لئے کہ وہ رات ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے۔ یعنی اس رات کا عمل ہزار مہینوں کے عمل سے افضل ہے۔ ملائکہ سے مراد فرشتے اور روح سے مراد حضرت جبرائیل ؑ ہیں۔ جن کے فضل و شرف کے باعث ان کا ذکر فرشتوں سے علیحدٰہ کیا گیا ہے۔ البتہ فرشتے اور جبرائیل امین ؑ خود نہیں آتے بلکہ وہ اپنے رب کے بھیجے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ خیر و برکت کا سلسلہ شام سے لے کر صبح تک پوری رات جاری رہتا ہے۔

شب قدر کی سب سے بڑی فضیلت تو وہی ہے جو قرآن پاک نے بیان کی ہے اس ایک رات کی عبادت تراسی سال اور چار ماہ کے عبادت سے بھی بہتر ہے۔ لیکن اس کی بھی کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓسے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ لیلۃ القدر میں وہ تمام فرشتے جن کا مقام سدرۃ المنتہٰی ہے جبرائیل ؑ کے ساتھ دنیا میں اُترتے ہیں اور کوئی مومن مرد یا عورت ایسی نہیں جس کو وہ سلام نہ کرتے ہوں۔ سوائے اس شخص کے جو شرابی ہو، شرک کرتا ہو۔ 

ایک دن صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ !پہلی امتوں کی عمریں زیادہ ہوتی تھیں اس لئے ان کو عبادت کا وقت زیا دہ مل جاتا تھا جبکہ ہماری عمریں نسبتاً کم ہیں اس لئے عبادت کیلئے وقت کم ملتا ہے آپ ﷺ نے فرمایا ’’آپ لوگوں پر رب العزت نے بے حد فضل وکرم فرمایا ہے کہ رمضان المبارک کی شب قدر کی عبادت کا درجہ ایک ہزارمہینوں کی عبادت کے برابر رکھا ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں رمضان المبارک میں شب قدر کی تلاش اور اس میں دلجمعی کے ساتھ عبادات کر نے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین

 

 

 

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭