با با ناظر اور بونے
بابا ناظر ایک بوڑھا موچی تھا جو سارا دن سخت محنت کر کے جوتے بنایا کرتا تھا۔ایک بار سردیاں آئیں تو بابا ناظر ٹھنڈ لگ جانے کے باعث بیمار پڑ گیا۔اس کی بیماری اس قدر بڑھ گئی کہ وہ کوئی کام کرنے کے قابل نہیں رہا۔
جلد ہی گھر چلانے میں اس کی جمع پونجی بھی ختم ہو گئی۔ناظر اپنے کام پر ہر صورت واپس جانا چاہتا تھا،لیکن اس کی بیوی اپنے شوہر کی حالت سے بخوبی واقف تھی اوراسے کام پر بھیجنے کیلئے نہیں مان رہی تھی۔تب بوڑھا ناظر نرمی سے اپنی بیوی سے گویا ہوتے ہوئے بولا ’’میں جانتا ہوں تم میری بے حد ہمدرد اور زندگی کے دکھوں کی ساتھی ہو،مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ میری بیماری کے پیش نظر تم مجھے کام پر جانے نہیں دینا چاہتیں۔اس کیلئے پھر تمہیں چاہے فاقے ہی کیوں نہ کرنے پڑیں،لیکن اب میں مجبور ہوں اور مجھے تمہارے منع کرنے کے باوجود کام پر جانا ہو گااور نئے جوتے تیار کرنے ہو ں گے کیونکہ مجھ سے مزید اپنے گھر کے برے حالات دیکھے نہیں جاتے‘‘۔
دل پر پتھر رکھ کر موچی کی بیوی کو اپنے شوہر کی بات ماننا پڑی اور اس نے ناظر کو کام پر جانے کی اجازت دے دی۔بے چارہ بیماری کی حالت میں دن بھر کام کرتا رہا۔اس نے جوتے کے حساب سے چمڑا کاٹا اور جب جوتے بنانے لگا تب تک اس کی طبیعت اس قدر بگڑ گئی کہ بمشکل تمام دکان سے اُٹھ کرگھر کے اندرونی حصے میں پہنچا ۔
ناظر کی بیوی نے اسے دیکھتے ہی سہارا دے کر بستر پر بٹھایا۔اپنے شوہر کو نیم بے ہوشی کی حالت میں دیکھ کر اس کی بیوی آنکھوں میں آنسو بھرتے ہوئے بولی ’’اب چاہے کچھ بھی ہو جائے میں آپ کو کام پر نہ جانے دوں گی‘‘اور ناظر کے قریب ہی کُرسی پربیٹھ کر کل کیلئے فکر مند بھی ہونے لگی کہ وہ کس طرح کھانے پینے اور اپنے شوہر کیلئے دوا کا انتظام کریگی۔ انہی سوچوں میں جانے کب اس کی آنکھ لگ گئی۔
اگلے دن صبح بوڑھے موچی کی نیک بیوی اٹھی تو سیڑھیاں اترتے ہوئے کیا دیکھتی ہے کہ ناظر کے نا مکمل جوتے جو وہ اپنی دکان میں چھوڑ آیا تھا نہایت خوبصورتی سے نہ صرف مکمل تیار پڑے ہیں بلکہ ان کے گھر میں موجود ہیں۔
وہ دوڑتی ہوئی اپنے شوہر کے پاس گئی اور اسے بھی خوشی خوشی تمام ماجرا سنایا۔پہلے تو ناظر کو یقین ہی نہ آیا کہ بھلا ایسا کس طرح ممکن ہے،لیکن جب اس نے اپنی آنکھوں سے تیار جوتوں کا جوڑا دیکھا تو خوشی اور حیرت کے مارے اس کی آنکھیں بھی کھُلی کی کھُلی رہ گئیں۔
اپنے شوہر کے کہنے پر ناظر کی بیوی نے جوتوں کا جوڑ ا کھڑکی میں رکھ دیا ،جلد ہی ایک خریدار آیا جسے پہلی نظر میںہی نفاست سے تیار کیا گیا جوتا بھا گیا تھا ۔وہ جوتے کو انتہائی اچھے داموں خرید کر لے گیا۔پیسے ملتے ہی ناظر کی بیوی کھانا خرید کر لائی اور جوتوں کیلئے چمڑہ بھی۔
اگلی صبح وہ کیا دیکھتے ہیں کہ جتنے جوتوں کا چمڑا انہوں نے کاٹ کر رکھا تھا وہ سب تیار پڑے ہیں،اور پھر یہ سلسلہ یونہی چل نکلا ۔ناظر اور اس کی بیوی جتنے جوتوں کیلئے چمڑا کاٹتے اگلے دن وہ سب انہیں تیار ملتے۔جلد ہی ان کے حالات بہتر ہونے لگے تو انہوں نے ایک دن ارادہ کیا کہ انہیں ضرور پتہ لگانا چاہیے کہ آخر یہ کون خُدا ترس ہے جس نے اس مشکل وقت میں ان کی اتنی مدد کی ہے۔دن کو چمڑا کاٹ کر دونوں رات ہونے سے پہلے پردے کے پیچھے چھُپ کر بیٹھ گئے ۔
ابھی کچھ وقت ہی گزرا تھا کہ دونوں کیا دیکھتے ہیں،پانچ چھ چھوٹے چھوٹے بونے ہیں جو ہنستے گاتے کمرے میں داخل ہوئے اور یونہی موج مستی میں نہایت تیزی سے جوتوں کی سلائی شروع کر دی۔ دونوں میاں بیوی سمجھ گئے کہ ضرور خدا نے ان رحمدل بونوں کو ان کی مدد کیلئے وسیلہ بنا کر بھیجا ہے۔
دونوں نے مل کر ایک فیصلہ کیا اور بونوں سے بات کرنے کی ٹھان لی۔ناظر اور اس کی بیوی جو اب تک پردے کے پیچھے چھپے بیٹھے تھے جب بونوں کے سامنے آئے تو پہلے وہ انہیں دیکھ کر ڈر گئے،لیکن ناظر انہیں تسلی دیتے ہوئے بولا ’’ڈرنے کی ضرورت نہیں میرے بچوں ! ہم تو تمہارے احسان مند ہیں اور بس اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ اتنی مدد کرنے کے بدلے تھوڑا احسان اتارنے کا موقع ہمیں بھی دو۔ چونکہ ہم دونوں میاں بیوی بے اولاد ہیں، اس لیے ہماری گزارش ہے کہ آج سے تم ہمارے بچے بن کر ہمارے ساتھ ہی رہو۔ تمام بونے خوشی خوشی بابا ناظر کے ساتھ رہنے کیلئے راضی ہو گئے اور یوں یہ ہمیشہ کیلئے ایک خاندان بن کر زندگی گزارنے لگے۔