حفیظ تائب :نعت کی شیریں آواز

تحریر : ڈاکٹر سرور حسین نقشبندی


کہ آپ اپنا تعارف۔۔۔۔ اُردو کے جدید نعت گو شعرا میں حفیظ تائب کا نام بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔ان کا اصل نام عبدالحفیظ تھا ۔ وہ 14 فروری 1931ء کو پشاور میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے نعتیہ مجموعوں میں ’’صلو علیہ و آلہ‘‘، ’’سک متراں دی‘‘، ’’وسلمو تسلیما‘‘، ’’وہی یٰسیں وہی طہٰ‘‘، ’’لیکھ، تعبیر‘‘ اور ’’بہار نعت‘‘ وغیرہ شامل ہیں جبکہ ان کے علاوہ متعدد نثری کتب بھی شامل ہیں، جن میں تحقیق ان کا پسندیدہ موضوع ہے۔حکومت پاکستان نے ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر انہیں صدارتی ’’تمغہ برائے حسن کارکردگی ‘‘عطا کیا تھا۔وہ 12 اور13جون 2004 ء کی درمیانی شب لاہور میں وفات پاگئے اوراسی شہر میں مدفون ہیں۔

نعت کا فن ہمیشہ ہی سر سبز رہا، ثنا خوانان جمال و کمال نبی ﷺ سدا سدا شمعِ رُوئے جہاں تابِ رسولﷺ سے عقیدت کے دیئے جلاتے رہے۔ یہ مضمون سدا بہار ہے اس پر خزاں نہیں آنا ممکن ہی نہیں، اسے صرصر ایام افسردہ نہیں کر سکتی۔ یہ وہ گل ہے جو ہمیشہ کھلا رہتا ہے لیکن جس دورمیں دلوں کی کھیتیاں جلد جلد خشک اور ویران ہو جاتی ہیں اس دور میںسیرابی و شادابی کی ضرورت بھی بڑھتی جاتی ہے اور جتنی جتنی یہ ضرورت بڑھتی جاتی ہے اتنی اتنی نعت۔ یعنی مدح رسول ﷺ کا جذبہ بھی بڑھتا جاتا ہے۔ کہنا یہ ہے کہ نعت کا گلشن آج بھی خوب پھل پھول رہا ہے جس میں ہمارے بڑے بڑے شعراء کا کردار ناقابل فراموش ہے۔حفیظ تائب بھی ایک ایسے ہی شاعر ہیں۔

حفیظ تائب کی نعت دو لحاظ سے اہمیت رکھتی ہے، ایک تو اس اعتبار سے کہ اس میں اردو کی نعتیہ شاعری کی عام روایت سے ہٹ کر رسول مقبولﷺ سے عقیدت و محبت کا اظہار کیا گیا ہے۔ انہوں نے عام نعتوں کی پیروی میں رسول پاک کے سراپے کو موضوع نہیں بنایا۔ انہوں نے رسول اکرم ﷺ کی ذات کے احترام کو بھی برقرار رکھا ہے اور محبت کے ساتھ اسوہ حسنہ کی تفصیلات بھی بیان کی ہیں۔ دوسری اہم خوبی یہ ہے کہ تائب کے نزدیک نعت کہنا محض ثواب کمانے کا ذریعہ نہیں بلکہ انہوں نے جو کچھ کہا ہے اسے تخلیقی سطح پر محسوس بھی کیا ہے۔ یہ کلام ان اعلیٰ لمحات کی روداد ہے، جو کسی بھی بڑے شاعر کیلئے سرمایہ افتخار ہو سکتی ہے۔ مقصدی شاعری بالعموم پراپیگنڈہ اور صحافت سے ملوث ہو جایا کرتی ہے اور عام طور پر مقصدی شعراء مقصد کی عظمت کو فن پر قربان کردیتے ہیں۔اسی لئے وہ ہمارے دینی و ادبی سرمائے میں گراں قدر اضافہ کرنے کا باعث ہوئے ہیں۔

بقول احسان دانش ’’حفیظ تائب ایسے نعت گو ہیں جن کے کلام میں ان کا عشق و عقیدہ جھلکتا ہے وہ دل سے نعت کہتے ہیں اور زبان و  قلم سے ادا کرتے ہیں۔ لوگ ان پر رشک کرتے ہیں اور دعائیں دیتے ہیں‘‘۔ 

احمد ندیم قاسمی کا کہنا ہے کہ جدید اردو نعت گوئی میں حفیظ تائب کی آواز سب سے منفرد، نہایت بھرپور اور انتہائی شیریں آواز ہے، ان کی نعت میں عشق و عقیدت کی وارفتگی پر سلیقہ مندی کا پہرہ ہے۔ ساتھ ہی حفیظ تائب کی نعت تمام ممکنہ فنی محاسن سے آراستہ ہے اور ایک کڑی حد ادب قائم رکھ کر اس اعلیٰ معیار کی نعت کہنا، جو اس دور میں سند کا درجہ رکھتی ہے صرف حفیظ تائب کا اعزاز ہے۔

ڈاکٹر سید عبداللہ نے ان کے نعتیہ مجموعے ’’صلو علیہ‘‘ میں اپنے تفصیلی مضمون میں لکھا کہ حفیظ تائب گلشن کا ایک بلبل خوش نوا ہے، جس کی نعت، ایک زمانے پر اپنا نقش قائم کر چکی ہے۔ لہٰذا تعریف و تعارف کی کوئی سعی، ان کے کمال فن کی تنقیص کے برابر ہو گی۔یہ تو ظاہر ہے کہ ہر صنف کی طرح، نعت میں بھی ہر شاعر یا نعت گو کی ایک انفرادی آواز ہوتی ہے، جو اسے دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔ حفیظ تائب کی نعت کی بھی ایک انفرادی آواز ہے، جو عصر کے دوسرے نعت گوئوں سے انہیں ممتاز کرتی ہے۔

یہ آواز ہے، وفور شوق و عقیدت۔ وہ لہجہ جو ادب و لحاظ کا پاسدار ہے۔ حفیظ تائب کی نعت کو پڑھ کر کچھ یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسا وصاف ہے، جو حضور ﷺ کے رو برو کھڑا ہے، اس کی نگاہیں جھکی ہوئی ہیں اور اس کی آواز احترام کی وجہ سے دھیمی ہے، مگر نہ ایسی کہ سنائی ہی نہ دے اور نہ ایسی اونچی کہ سوئے ادب کا گمان گزرے۔ شوق ہے کہ اُمڈا آتا ہے اور ادب ہے کہ سمٹا جا رہا ہے۔

حفیظ کی ہر نعت میں یہ کیفیت موجود رہتی ہے، مگر ان کی نعت صرف آواز اور لہجہ ہی نہیں، اس میں حرف ِمطلب بھی ہے، یعنی وصف حسن بھی ہے، مگر غزل کا سا نہیں، اظہارِ شوق بھی ہے مگر گیت کا سا نہیں، توصیف بھی ہے، مگر قصیدے کے مانند نہیں، اس میں التجا و تمنا بھی ہے مگر گدایانہ نہیں۔ اس میں طلب و تقاضا بھی ہے مگر زر و مال اور متاع قلیل دنیا کا نہیں، انسانیت کیلئے چارہ جوئی کا حفیظ تائب اپنی نعت کا تجزیہ یوں کرتے ہیں۔

مدح نبیﷺ وہ چشمہ نور و حضور ہے

جس سے ہیں تابناک مرے خدو خالِ فن

شیرازہِ حیات ہے وابستہ حضورﷺ

پروردہ نگاہِ کرم اعتدالِ فن

حفیظ تائب نبی اکرم ﷺ کے حضور میں جب پیش ہوتے ہیں تو آج کے انسان اور آج کے مسلمان کی حاجتیں لے کر جاتے ہیں۔ وہ آج کے انسان اور آج کے مسلمان کی زبان میں آج کے تصورات کے حوالے سے بات کرتے ہیں۔ان سب باتوں کے ساتھ حفیظ تائب نے اپنی نعت کو مادی اغراض کے شوائب سے پاک رکھنے کی کوشش کی ہے اور اس روش سے بچے ہیں جو مادیت نواز شاعروں کے یہاںعام ہے کہ نعت جیسے پاک و صاف اور منزہ و مصفّا مضمون کو بھی مادی نظریات و تصورات کی تبلیغ کا ذریعہ بنا لیتے ہیں ۔

حفیظ تائب کی عقیدت، بے لوث، بے غرض ہر مادی مدعا سے پاک ایک سادہ انسان کے اس عشق سے مشابہت رکھتی ہے جو محبت برائے محبت کرتا ہو اور اسے یہ بھی معلوم نہ ہو کہ اسے کچھ مانگنا بھی ہے۔حفیظ تائب کی نعتیں، ہر دوسرے نعت گو سے الگ پہچانی جاتی ہیں۔ خلوص،ادب، دم بخود احترام، آنکھ میں نم، دل میں شوق اور شوق میں دبا ہوا غم۔

اسی لئے زبان و بیان میں کمال درجے کی شستگی اور شائستگی، سکون و سکوت اور برجستگی کے باوجود متانت جو لازمہ ادب ہے۔ آرائش کا یہ رنگ اور زیبائش کا یہ ڈھنگ ان کے کلام میں ہر جگہ جلوہ افزا ہے۔

ڈاکٹر غلام مصطفی خاں کا کہنا ہے کہ نعت بھی اظہار محبت و عقیدت کا ایک ذریعہ ہے جس کی ابتدا قرآن  مجیدسے ہوئی اور پھر صحابہ کرام ؓ میں حضرت کعب بن زبیر ؓ  اور حضرت حسان بن ثابت ؓ سے لے کر آج تک بے شمار مسلمانوں نے اسے اپنے لیے ذریعہ مغفرت سمجھا۔ حفیظ تائب بھی ان خوش نصیب نعت گو شعراء میں امتیازی شان رکھتے ہیں جنہوں نے شاعری ہی اس لئے کی کہ :

وقفِ ذکرِ شہِ ﷺ حجاز رہوں

نعت

پائی نہ تیرے لطف کی حد سید الوریٰﷺ

تجھ پر فدا مرے اب وجد سید الوریٰﷺ

تیری ثنا ورائے نگاہ و خیال ہے

فخرِ رُسل، حبیب صمد، سید الوریٰﷺ

تو مہرِ لازوال سرِ مطلعِ ازل

تو طاقِ جاں میں شمعِ ابد سید الوریٰﷺ

عرفان و علم، فہم و زکا تیرے خانہ زاد

اے جانِ عشق، روحِ خرد، سید الوریٰ ﷺ

تو اک اٹل ثبوت خدا کے وجود کا

تو ہر دلیلِ کفر کا رد، سید الوریٰ ﷺ

اہلِ جہاں کو ایسی نظر ہی نہیں ملی

دیکھے جو تیرا سایۂ قد سید الوریٰﷺ

گزرے جو اس طرف سے وہ گرویدہ ہو ترا

یوں عنبریں ہو میری لحد سید الوریٰﷺ

تائب کی یہ دُعا ہے کہ اس کی بیاضِ نعت

بن جائے مغفرت کی سند سید الوریٰﷺ

نعت

اے روحِ تخلیق! اے شاہ ﷺ لولاک!

ہو جائے پُر نُور کشکول ادراک

انوار تیرے، آثار تیرے

از دامنِ خاک تا اوجِ افلاک

تیرے سوالی، تیرے طلبگار

کیا قلب محزوں، کیا چشمِ نمناک

عالم ہے تجھ سے گلشن بداماں

عالم میں تھا کیا جُز خار و خاشاک

تیری نظر سے ہر دم رہے شاد

آباد، آزاد، یہ خطۂ پاک

شاہا! بہا کر مجھ کو نہ لے جائے

یہ سیلِ لحاد، یہ موجِ بے باک

تو جس کو چاہے جیسے نوازے

دنیا و دیں ہیں سب تیری املاک

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

دھوکے کی سزا

کسی گائوں میں ایک دھوبی رہتا تھا،جو شہر سے لوگوں کے کپڑے گدھے پر لاد کے گائوں لاتا اور دھونے کے بعد اسی پر لاد کے واپس شہر پہنچاتا تھا۔دھوبی کی کمائی کا یہی ذریعہ تھا اور وہ اس قدر کما لیتا کہ با آسانی گزر بسر کر سکے۔

زمین کی گردش رُک جائے تو کیا ہو؟

پیارے بچو!زمین اپنے محور کے گرد ایک ہزار میل فی گھنٹہ سے زائد کی رفتار سے گھو م رہی ہے،تاہم اس وقت کیا ہو گااگر اس کی گرد ش اچانک رُک جائے؟اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا ہوا تو اس کے اثرات انتہائی تباہ کُن ہوں گے۔ماہرین کے مطابق اگر زمین کا گھومنا اچانک تھم جائے تو ہر وہ چیز جو کسی دوسری چیز سے بندھی ہوئی نہیں ہے ۔اچانک مشرق کی جانب ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اُ ڑنے لگے گی۔اس کے اثرات فضا پر بھی مرتب ہوں گے اور ہوائیں اتنی طاقتور ہو جائیں گی جیسے کسی ایٹم بم کے دھماکے کے بعد ہو سکتی ہیں۔

جانوروں کی دنیا

بٹیر دیہی علاقوں میں پایا جانے والا ایک خوبصورت پرندہ ہے۔اس کا تعلق پرندوں کے گالی فورمز خاندان سے ہے۔پرندوں کے اس بڑے خاندان میں مرغی،مور اور تیتر بھی شمال ہیں۔

پہیلیاں

ایک کھیتی کا دیکھا یہ حال نہ کوئی پتا نہ کوئی ڈال نہ ہی ڈالا بیج نہ جوتا ہل

اقوال زریں

٭… جوش کی بجائے ہوش سے کام لو۔ ٭… نادان کی صحبت میں مت بیٹھو کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کی باتیں تمہیں اچھی لگنے لگیں۔ ٭…خوش رہنا چاہتے ہو تو کسی کا دل نہ دکھائو۔

ذرامسکرایئے

باپ بیٹے سے: یہ تم کیسی ماچس لائے ہو ایک تیلی بھی نہیں جل رہی؟ بیٹا: ایسا کیسے ہو سکتا ہے ابو ، میں تو ایک ایک تیلی چیک کر کے لایا ہوں سب جل رہی تھیں۔٭٭٭