خالی سڑک

خواجہ آفتاب حسن کا افسانوی مجموعہ’’خالی سڑک‘‘ اس زمانے میں کسی نعمت سے کم نہیں جب لوگ کہانی سے اپنا رشتہ توڑ چکے ہیں۔ آفتاب حسن صاحب کے افسانوں کی پہلی خصوصیت تو یہی ہے کہ ان میں کشش مطالعہ ہے۔ ان کے افسانے اپنے زمانے میں پیوست ہیں، چنانچہ کتاب کا آغاز ہی موجودہ صورت حالات سے ہوتا ہے۔
ادب میں سب سے مشکل کام اپنے عہد کے کسی واقعے یا صورت حالات کو اپنے تخلیقی تجربے میں ڈھالنا ہے کیونکہ کوئی واقعہ شخصیت یا صورت حالات تخلیق کار کی تخلیقی شخصیت کا حصہ بننے میں کچھ وقت ضرور لیتی ہے۔ عموماً یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی واقعے یا واقعات کے طویل سلسلے کے ردعمل میں جو ادب پارے پڑھنے کو ملتے ہیں، ان میں رچائو اور تخلیقی عناصر بہت کم یا نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔ مثلاً 1947ء کے بعد کے فساداتی ادب،911 میں اعلیٰ درجے کے ادبی فن پارے بہت کم ہیں۔ خواجہ آفتاب حسن کے اس مجموعے میں کرونائی دنیا کو پیش کرنے والے افسانے بھی شامل ہیں۔ مجھے بہت حیرانی ہوئی ہے کہ ایسے افسانوں میں بھی انہوں نے سادہ کہانیاں تحریر نہیں کیں بلکہ کہانیوں کے اندر سے افسانہ تلاش کرلائے ہیں۔ اس مجموعے کا پہلا افسانہ ’’ موت کا فرشتہ‘‘ ہے جسے انہوں نے حقیقت، خواب اور تمثیل کو باہم آمیخت کرکے کرونا کے حوالے سے ایک مختلف تخلیقی تجربے کے طور پر پیش کیا ہے۔ افسانے کے بیش تر حصے خواب ناک فضا کے حامل ہیں۔ بیان کنندہ کے علاوہ دیگر دونوں کردار تمثیلی ہیں۔ افسانہ خوف اور موت کی فضا میں ظاہر ہوا ہے۔ افسانے کا ابتدائی حصہ اس تخلیقی ابہام سے مزین ہے جو مبہم ہونے کے باوصف اپنے پورے معنی کا ابلاغ کرتا ہے لیکن قاری کو بالکل بھی اندازہ نہیں ہو پاتا کہ جو بیان کیا جا رہا ہے وہ مشاہدہ ہے یا خواب ہے۔ پہلا حصہ ایسے ہی ایک منظر پر مشتمل ہے۔ خواجہ صاحب کے زبان و بیان کی وضاحت کے لئے درج ذیل پیرا گراف دیکھئے:
’’خیالوں کے اسی ادھیڑ بن میں دروازے کا ایک پاٹ کھولا تو جیسے میرے پائوں تلے سے زمین کھسک گئی ہو۔ دل کی دھڑکن یک دم کئی ہزار گنا بڑھ گئی، یوں محسوس ہونے لگا کہ ابھی اچھل کر حلق میں آ جائے گا، سانس بند ہوتی محسوس ہونے لگی، ہاتھ برف کی طرح ٹھنڈے، جیسے صدیوں، کسی گلیشیئر تلے دبے رہے ہوں اور پیر لڑکھڑانے کے بعد یوں ساکت ہو گئے جیسے منوں وزنی ہوں۔ جسم پیسنے سے شرابور، آنکھوں کے آگے سورج جیسی چکا چوند روشنی کے باوجود گھپ اندھیرا، جیسے کسی غار میں کھڑا ہوں۔ حلق کسی لق ودق صحرا کی طرح ایسے خشک جیسے صدیوں پانی کی بوند کو ترسا ہو۔ ہمت تو یوں جواب دے گئی تھی کہ جیسے کوئی وجود اپنی روح کو کھو بیٹھا ہو۔ وہ چند لمحے کسی قیامت سے کم نہ تھے۔ قیامت بھی ایسی کہ نہ زمین پھٹی اور نہ آسمان، نہ سورج سوا نیزے پر آیا اور نہ ہی کوئی ایسی خبر سنی کہ یاجوج ماجوج ہزاروں سال کی قید سے آزاد ہو گئے ہیں۔‘‘
جو افسانہ نگار ایک منظر کو دیکھ کر پیدا ہونے والی ایک فوری کیفیت کو اتنی تفصیل اور وضاحت سے، ایسی مرصع اور تخلیقی زبان میں پیش کرنے کی قدرت رکھتا ہو، اس کی ہنر مندی کے لئے کسی مزید ثبوت کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ مجھے یقین ہے کہ میری طرح آپ بھی اس اقتباس کی مدد سے محسوس کر لیں گے کہ اردو کی افسانوی دنیا کے لئے نیا ہونے کے باوجود آفتاب حسن کا نام مستقل ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے اور ان کے باطن میں ایک مکمل افسانہ نگار پوشیدہ ہے جو مشکل سے مشکل صورت حالات کو گرفت میں لینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ کرونا کی صورتحال کو پیش کرنے والے ان کے دیگر افسانے بھی اسی فن کارانہ ابہام اور علامتی حقیقت نگاری کے حامل ہیں۔
ان کے اس مجموعے کا عنوان جس افسانے پر رکھتاگیا ہے وہ افسانہ اپنی جگہ ایک اعلیٰ درجے کے تخلیقی تجربے کا امین ہے جو موجودہ عہد کی پیچیدگی میں تشکیل پانے والے پیچیدہ انسانی وجود کی عکاسی بخوبی کرتا ہے جو اپنے گردو پیش سے کٹا ہوا ہے، جس کا مشاہدہ ناقص ہے اور جو اپنے ہی شہر میں اجنبی ہو چکا ہے۔ یہ اجنبیت ساٹھ کی دہائی والی اجنبیت سے مختلف ہے کیوں کہ اب ہمارے وجود کا تجربہ ہے اور محض جدیدیت کے اظہار کے لئے مصنوعی طور پر پیدا کی ہوئی نہیں ہے۔ ان کے اس افسانے کا مطالعہ افسانے کے کسی بھی تربیت یافتہ قاری کو ان کی ہنر مندی کا قائل کرنے کیلئے کافی ہے۔ ان کا مخصوص اسلوب افسانہ نگاری اس افسانے میں اپنی بہترین مشکل میں ظاہر ہوا ہے جہاں حقیقت اور ابہام ایک ایسی ترکیب میں ظاہر ہوئے ہیں جس نے افسانے کو علامتی حقیقت نگاری کے درجے پر فائز کر رہا ہے۔