بجلی بلوں کا بحران حکومت کا امتحان دو سو یونٹ والوں کیلئے ریلیف کتنا کارگر ہو گا؟

تحریر : سلمان غنی


سیاسی حکومت کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ وہ دبائو کو محسوس کرتی ہے اور جہاں ضروری ہوتا ہے فیصلے بھی کر لیتی ہیں، خصوصاً جب حکومتی پالیسیوں کے نتیجہ میں عوام کے مسائل اور مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہو اور اس کے نتیجہ میں ردعمل نظر آئے۔

منتخب حکومتوں کو اس پر نہ صرف کان دھرنا پڑتے ہیں بلکہ ان مسائل کے سدباب کیلئے کچھ کر دکھانا بھی پڑتا ہے تاکہ ردعمل ایک حد سے آگے نہ بڑھے۔ بلاشبہ توانائی کا بحران خطرناک صورت اختیا ر کر چکا ہے۔ آئی ایم ایف کے دبائو کے نتیجہ میں بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ہونے والے اضافہ نے عوام الناس کو تکلیف دہ صورتحال سے دوچار کررکھا ہے۔ کوئی طبقہ ایسا نہیں جس کے لیے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ نہ ہوا ہو ۔جولائی کے بلوں نے تو جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ کوئی طبقہ ایسا نہیں کہ جس پر بجلی کے بلوں کے اثرات نہ ہوں ۔ خصوصاً مہنگائی زدہ عوام کی زندگیاں بجلی کے بلوں سے اجیرن ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف پنجاب حکومت نے بجلی کے بحران سے نمٹنے کیلئے صارفین کو سولر پینل دینے کے پروگرام کی منظوری دی ہے جس کے تحت حکومت پچاس سے پانچ سو یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو سولر پینل دے گی اور سولر پینل کی لاگت کا 90فیصد حکومت ادا کرے گی ، 10 فیصد صارفین کو ادا کرنا ہوں گے۔ یہ سولر پینل پانچ سال کی آسان اقساط میں صارفین کو فراہم کئے جائیں گے ۔ حکومت پنجاب کا یہ اعلان عوام کیلئے ریلیف کے ضمن میں ایک اہم پیش رفت ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہی وہ دن ہیں جن میں ایک جانب درجہ حرارت عروج پر ہے تو دوسری جانب بجلی کے بلوں کا خوف عوام کی زندگیوں کو اجیرن بنارہا ہے؛ چنانچہ حکومتوں کا فرض ہے کہ پریشان حال عوام کے زخموں پر مرہم رکھے۔ حکومت پنجاب کی مذکورہ پالیسی اپنی جگہ لیکن اس پر عملدرآمد جلد ممکن نظر نہیں آتا، البتہ وفاقی حکومت نے بجلی کے بلوں کے حوالے سے مسائل زدہ عوام کے اندر پیدا شدہ ردعمل کے باعث فوری طور پر 200 یونٹ تک استعمال کرنے والے صارفین کیلئے ریلیف کا اعلان کردیا ہے جس کے تحت بجلی صارفین کو اگلے تین ماہ کے دوران ریلیف دیا جائے گا۔ وزیراعظم شہبازشریف نے بجلی کے نرخوں میں اضافہ کے باعث عوامی بے چینی کو حقیقت پسندانہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا غصہ جائز ہے لہٰذا فیصلہ کیا گیا ہے کہ200 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو ریلیف دیا جائے گا۔یہ ریلیف تین ماہ کیلئے ہوگا اور اس پر 50ارب روپے خرچ ہوں گے۔

وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے آئی ایم ایف سے بات کر چکے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف کے اس اعلان کے اثرات مہنگائی زدہ عوام کے بلوں پر ہوں گے لیکن اصل ایشو اوور بلنگ کا ہے جس نے عوام کی زندگیوں کو اجیرن بنارکھا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اوور بلنگ سے صارفین پر پڑنے والے اضافی مالی بوجھ نے کراچی سے خیبر تک ایک تشویش کی لہر دوڑا  رکھی ہے اور خود وزیر داخلہ محسن نقوی نے چند ہفتے قبل لاہور میں پریس کانفرنس میں یہ انکشاف کیا تھا کہ 82کروڑ یونٹ اضافی ڈالے گئے ہیں جس کا لوڈ عام آدمی پر آیا ہے۔ جب اضافی یونٹ بھی ڈالے جائیں گے اور صارفین کی جیبوں پر  ڈاکہ ڈالنے کیلئے طے شدہ سلیب میں جان بوجھ کر اضافہ کرکے ان کے بلوں میں کئی ہزار کا اضافہ ہوگا تو پھر عام آدمی کہاں جائے گا، کس کے پاس جا کر فریاد کرے گا؟ اگر واپڈا کا عملہ اووربلنگ کرتا ہے، سلیب کو تبدیل کر دیتا ہے تو اس پر حکومت کو واضح حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی، عوام کے درد کو محسوس کرنا ہوگا۔ فی الحال تو عوام میں بڑھتے ہوئے معاشی بوجھ کی وجہ سے  کسی رد عمل کی کیفیت نظر نہیں آتی مگر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تو آنے والے وقت میں کسی بڑے عوامی ردعمل کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ فی الحال تو مہنگائی زدہ عوام حکومتوں کو کوستے نظر آتے ہیں لیکن جب وہ اپنے بچوں کو بھوک سے بلکتا دیکھیں گے اور ان کے چولہے بجھ رہے ہوں گے تو ان کے دل جلیں گے اور ان کے پاس احتجاج کے سوا کوئی راستہ نہیں ہوگا ۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ ایسی کوئی غیر معمولی یا ہنگامی صورتحال طاری ہوتی ہے تو کیا پولیس اور دیگر ایجنسیاں اس ردعمل پر قابو پا سکیں گی؟ کیونکہ ان کے بھی اپنے گھر بار ہیں ان کے بچوں کیلئے بھی صحت، تعلیم کی سہولیات درکار ہیں اور اگر وہ اپنے گھر بار سے مطمئن ہو جائیں گے تو پھر وہ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کریں گے۔

 جماعت اسلامی نے حکومت کی جانب سے آنے والے بجٹ کو ظالمانہ قرار دیتے ہوئے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کے خلاف احتجاجی دھرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ 12 جولائی کو اس احتجاجی دھرنے کیلئے ملک بھر سے جماعت اسلامی کے  کارکن اسلام آباد پہنچیں گے اور اطلاعات یہ ہیں کہ جماعت اسلامی ڈی چوک اور اس کے قریبی علاقوں میں دھرنے کا بندوبست کر رہی ہے۔ احتجاجی دھرنے کی قیادت جماعت اسلامی کے امیر نعیم الرحمن کریں گے۔ جماعت اسلامی کے ذمہ دار ذرائع کا کہنا ہے کہ ہمارا احتجاجی دھرنا ہر حوالے سے پرامن اور قانون کے دائرہ کار میں ہوگا، لہٰذا ہم نہیں سمجھتے کہ  حکومت اس کو روکنے کیلئے کوئی رکاوٹ ڈالے گی۔ البتہ دھرنے کے حوالے سے جماعت اسلامی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ہم نے دھرنے کا اعلان کیا ہے، اس میں بیٹھنے کا عمل طے ہے اٹھنے کا نہیں، البتہ ہم یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ ہم اپنی احتجاجی حکمت عملی کے ذریعے جہاں پاکستان کے مسائل زدہ، مہنگائی زدہ عوام سے یکجہتی کا اظہار کریں گے وہاں عوامی طاقت کو بروئے کار لا کر حکومت کو عوام دشمن پالیسیوں اور اقدامات پر نظرثانی پر بھی مجبور کر یں گے۔ جماعت اسلامی کی جانب سے قومی اور عوامی ایشوز پر احتجاجی دھرنا کی روایت پہلے سے موجود ہے، اس سلسلہ کا آغاز جماعت اسلامی کے سابق امیر مرحوم قاضی حسین احمد کی جانب سے شروع ہوا تھا اور بہت حد تک وہ حکومتوں پر دبائو ڈالنے میں کامیاب ہوئے تھے، لہٰذا دیکھنا پڑے گا کہ جماعت اسلامی کے امیر نعیم الرحمن کی قیادت میں یہ احتجاجی دھرنا قومی سیاست میں کن اثرات کا حامل ثابت ہوتا ہے۔ ابھی تک کسی اور جماعت نے احتجاجی دھرنے کی حمایت تو نہیں کی البتہ ایسی اطلاعات ہیں کہ دھرنے کا عمل کامیاب ہوا تو اپوزیشن جماعتوں کے کارکن بھی اس کا حصہ بن سکتے ہیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

غوروفکر کے بعد کام کرنااللہ تعالیٰ کو محبوب!

حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قبیلہ عبدالقیس کے سردار سے فرمایا تم میں دو باتیں ایسی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے۔ ایک بردباری اور دوسرے غوروفکر کے بعد کام کرنا‘‘ (مسلم شریف)۔

کفایت شعاری:شریعت اسلامی کی نظر میں

کفایت شعاری کا معنی یہ ہے کہ انسان خرچ، اخراجات اورخریداری کے معاملے میں اعتدال و توازن اورمیانہ روی اختیار کرے اورغیر ضروری اخراجات سے پرہیز کرے۔ہم مسلمان ہیں اوراسلام ہمیں فضول خرچی سے روکتا ہے۔

حج کے بعد زندگی کیسے گزاریں؟

اللہ تعالیٰ دنیا بھر کے تمام حجاج (حج کرنے والوں) اور معتمرین (عمرے کرنے والوں) کا حج اور عمرہ اپنے کرم سے قبول فرمائے۔ اس دوران ہونے والی تمام لغزشوں اور کوتاہیوں کو معاف فرمائے اور بار بار بیت اللہ شریف کی مقبول حاضری کی سعادت نصیب فرمائے۔

غصے کا علاج

غصیلا انسان شیطان کے ہاتھ میں اس طرح ہوتاہے جیسے بچوں کے ہاتھ میں گیند، لہٰذا غصہ کاعلاج کرناضروری ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ غصے کے سبب شیطان سارے اعمال برباد کروا ڈالے۔

مسائل اور ان کا حل

اذان کے وقت تلاوت قرآن کی شرعی حیثیتسوال:تلاوت کے دوران اگر اذان شروع ہو جائے تو اذان کے وقت قرآن پڑھنا درست ہے یا نہیں ؟(جاویدستار،کراچی)

وفاقی بجٹ۔۔۔۔معاشی ٹیم بیک فٹ پر کیوں؟

نئے مالی سال کا بجٹ پیش کردیا گیا ہے مگر حکومت اور حکومتی شخصیات اس بجٹ پر بیک فٹ پر نظر آرہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت نے پہلی مرتبہ وفاقی بجٹ پیش کرنے کے بعد ایف بی آر میں ہونے و الی ٹیکنیکل بریفنگ منسوخ کردی۔ یہ ٹیکنیکل بریفنگ بجٹ میں اٹھائے گئے ریونیو اقدامات کی تفصیلات بتا نے کیلئے ہوتی ہے۔