اہل و عیال پر خرچ کرنا بھی صدقہ

تحریر : مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی


حضرت ابو مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو مسلمان اپنے اہل و عیال پر کچھ خرچ کرتا ہے اور اسے ثواب کا کام سمجھتا ہے تو اس کا یہ خرچ کرنا اس کیلئے صدقہ ہے‘‘(متفق علیہ)

اللہ رب العزت نے انسان کو عبادت کیلے پیدا فرمایا اور پھر زندگی گزارنے کا ایسا سلیقہ اور ایسے آداب سکھائے کہ انسان کی زندگی کا ہر مرحلہ عبادت بن جائے۔انسان جب مل جل کر زندگی گزارتا ہے تو ظاہر ہے کہ اسے اپنی بیوی بچوں کیلئے رہائش، کھانا، لباس اور دیگر ضروریات زندگی کا بھی انتظام کرنا ہے‘ اللہ تعالیٰ نے اس عمل کو بھی نیکی اور صدقہ شمار فرمایا۔ یہاں تک کہ صحیح مسلم کی ایک روایت جو حضرت ابوہریرہؓ  سے منقول ہے اس میں ارشاد نبوی ہے ’’ ایک دینار وہ جو کہ تم اللہ کے راستہ میں خرچ کرو اور ایک دینار وہ جسے تم غلام آزاد کرنے میں خرچ کرو،ایک دیناروہ جو تم کسی مسکین کو خیرات کرو اور ایک وہ دینار جو تم اپنے اہل و عیال پر خرچ کرو تو ان سب دیناروں میں سے اجر و ثواب کے اعتبار سے زیادہ بڑا دینار وہ ہے جو تم اپنے اہل و عیال پر خرچ کرو‘‘۔

یہاں لفظ صدقہ کی وضاحت بھی ضروری معلوم ہوتی ہے اس لیے کہ قرآن و سنت میں لفظ صدقہ، زکوٰۃ کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے اور خیرات کیلئے بھی اور عام نیکی کے معنی میں بھی، چنانچہ صدقہ سے مراد اگر زکوٰۃ یا خیرات ہو تو ایسا مال خاص مستحق افراد کو دینے کی ہدایت دی گئی ہے، سورۂ توبہ کی آیت 60 میں اللہ تعالیٰ نے آٹھ صارف بیان فرمائے ہیں لیکن یہاں اس حدیث میں اہل و عیال پر خرچ کرنے کو جو صدقہ کہا گیا ہے اس سے مراد عام نیکی کا کام ہے۔

ارشاد نبوی کے مطابق اہل و عیال پر خرچ کرنا صدقہ ہے تو پھر ایک اور ارشاد نبوی بھی ذہن میں رہنا چاہیے۔ترجمہ: ’’یعنی اللہ تعالیٰ صرف پاکیزہ اور حلال چیز کو قبول فرماتا ہے‘‘۔لہٰذا انسان اگر حلال مال سے اپنے اہل و عیال پرخرچ کرے تو یہ صدقہ شمار ہو گا اس لیے کہ صرف وہی صدقہ قبول ہوتا ہے جو حلال مال سے ہو۔

صحیح مسلم کی ایک روایت کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے صدقہ کے آداب کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا:  ’’خیر الصدقہ ماکان عن ظہر غنی وابدأ من تعول‘‘اس ارشاد نبوی میں یہ سمجھایا گیا کہ صدقہ کا مال اس انداز سے دو کہ تم خود فقیر اور مفلس نہ بن جائو بلکہ کچھ غناء، باقی رہے، یعنی اپنے اہل و عیال کی ضروریات زندگی کے بقدر مال و اسباب رکھ لو اس کے بعد جو کچھ بچ رہے اسے خدا کے نام پر خیرات کر دو اور پھر خیرات کرنے میں یہ بھی بات پیش نظر رہے کہ صدقہ کا مال پہلے ان لوگوں کو دو جن کی ضروریات زندگی تمہاری ذات سے وابستہ ہیں۔

اہل و عیال کی ضروریات کہاں تک پورا کرنا نیکی ہے اس کیلئے قرآن حکیم سے ایک اصول تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ترجمہ: ’’کھائو پیو لیکن فضول خرچی نہ کرو‘‘

انسان کے پاس جس قدر آمدنی کے وسائل ہوں ان کے ذریعہ حلال مال کما کر اہل و عیال پر خرچ کرتا رہے لیکن اس خرچ میں بھی اعتدال اور میانہ روی شامل رہے، سورۃ الفرقان میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کے اوصاف بیان فرماتے ہوئے یہ خوبی بھی بیان فرمائی: ترجمہ: ’’اور رحمن کے بندے وہ ہیں کہ جب وہ خرچ کریں تو نہ فضول خرچی کریں اور نہ تنگی کریں بلکہ ان کا خرچ اس کے درمیان اعتدال کے ساتھ ہوتاہے۔‘‘

اس سے انسان کو ایک طرف تو سکون ملے گا اور دوسری طرف بیوی بچوں کے اندر قناعت پسندی پیدا ہو گی جو آئندہ چل کر اولاد کی تربیت کا حصہ بن جاتی ہے کہ وہ اولاد خود بھی فضول خرچی سے بچتی ہے لہٰذا انسان اپنے اہل و عیال کیلئے رہائش میں خرچ کرے، ان کے کھانے، پینے، لباس کیلئے خرچ کرے اور پھر اللہ توفیق دے تو ان کیلئے آسائش بھی مہیا کرے یعنی گھریلو سہولیات کا انتظام کرے جس سے زندگی آرام و راحت سے گزرے اور اسلام نے جائز حد تک زیب و زینت اختیار کرنے کی بھی اجازت دی ہے اس لیے اہل و عیال پر شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے آرائش کی مد میں بھی خرچ کر سکتا ہے۔ الغرض انسان اپنے اہل و عیال کی رہائش، آسائش اور آرائش پر تو خرچ کر سکتا ہے لیکن ایک چیز سے اسلام نے قطعی طور پر روکا ہے اور وہ ہے نمائش، دکھاوا۔ دوسروں کے اہل و عیال پر اپنے اہل و عیال کی امارت اور اپنی دولت ظاہر کرنا۔ قرآن و سنت میں اس سے سختی سے منع فرمایا گیا ہے۔

دور جدید میں نمود و نمائش ایک ایسی بیماری جس کی خاطر انسان حلال وحرام کی تمیز کیے بغیر دولت کے حصول میں سرگرداں ہے اور اس ریتلے، تپتے سراب زدہ صحراء کا کوئی کنارہ نہیں ہے جس کا نتیجہ بے سکونی اور جرائم کی شکل میں سامنے آتا ہے۔

فلاں کے بچے ایسے کپڑے پہنتے ہیں میں اپنے بچوں کو اس سے بڑھ کر پہنائوں گا‘ فلاں کے اہل و عیال کے پاس ایسی سواری، میں اس سے عمدہ سواری لائوں گا۔ یہ دوڑ نہ ختم ہونے والی ریس ہے اس لیے اسلام نے ہمیں قناعت، صبر اورشکر کی تعلیم دی۔ بس انسان حلال مال کمانے کی فکر کرے اور اہل و عیال پر فضول خرچی اور نمائش کے جذبہ سے پاک ہو کر خرچ کرے اور ہر وقت اہل و عیال کے اندر اخلاقی اوصاف پیدا کرنے کی فکر رکھے بیوی بچوں پر خرچ کرنے کے دوران اگر بے جا فرمائشیں کرنے کا جذبہ نظر آنے لگے تو انہیں اپنے سے کمتر افراد کا سامنا کرائے اور پھر اللہ کا شکر ادا کرنے کی تعلیم دے۔

رسول اکرم ﷺنے اپنی اولاد کو بالکل اس طرح تعلیم دی۔ دربار نبوی میں چند غلام آئے آپﷺ کی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے گزارش آئی کہ ایک غلام کام کاج کرنے کے لیے عطا فرما دیں، اس لیے کہ کام کرتے کرتے ہاتھوں پر نشان اور پانی کا مشکیزہ لادنے سے کندھوں پر نشان پڑ گئے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے بیٹی فاطمہ! کیا میں تمہیں غلام اور یہ دنیا اور جو کچھ اس دنیا میں ہے اس سے بہتر چیز نہ دوں؟ عرض کیا ضرور فرمایا جب تم بستر پر لیٹا کرو تو 33 بار سبحان اللہ، 33 بار الحمدللہ اور 34 بار اللہ اکبر کہہ لیا کرو غور فرمائیے! بیٹی نے ملازم کام کرنے کے لیے مانگا لیکن جواب میں باپ نے مشقانہ اندا زمیں کتنی عمدہ تربیت فرمائی۔

اہل و عیال پر خرچ کرنے کے بعد ان کو جتلانا نہیں چاہیے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ترجمہ: ’’اے ایمان والو! تم اپنے صدقات کو احسان جتا کر اور تکلیف پہنچا کر ضائع نہ کرو۔‘‘

اہل و عیال پر خرچ کرنے کے دوران یہ بات بھی معاشرہ میں سامنے آتی ہے کہ لوگ بیٹوں کو بیٹیوں پر ترجیح دیتے ہیں ابوداؤد میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ  کی روایت میں رسول اکرمﷺنے اس شخص کیلئے جنت کی بشارت دی ہے جو اپنی بیٹیوں کو بیٹوں پر ترجیح دیتا ہے۔ لہٰذا انسان معاشرہ میں رہتے ہوئے اپنے اہل و عیال پر خرچ تو کرتا ہی ہے لیکن اگر یہ خرچ قرآن و سنت کی ان تعلیمات کے ساتھ ثواب سمجھ کر کیا جائے تو یہی اجر و ثواب کا باعث ہو گا۔ اور سورۂ فرقان میں اللہ تعالیٰ نے جو دعا سکھائی ہے وہ اپنے بیوی بچوں کیلئے خوب مانگے۔ترجمہ: ’’اے اللہ ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں متقین کا راہنما بنا دے‘‘۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭