طوطے کا سبق

تحریر : عمار اعجاز


یہ ان دنوں کی بات ہے جب چڑی مار پرندوں میں سب سے اچھا شکار طوطے کا سمجھتے تھے۔یہی وجہ تھی کہ جنگل کے طوطوں میں خوف و ہراس پھیلا ہوا تھا۔سب طوطے چڑی مار کو دیکھتے ہی اپنی جگہ چھوڑ جایا کرتے تھے۔پھر بھی چڑی مار طوطوں کی تلاش میں خاک چھانتے پھرتے تھے۔

اس آفت کو دور کرنے کیلئے ایک دن تمام طوطے اکٹھے ہوئے ۔ وہ سوچ سوچ کے تھک گئے مگر ان سے اس مسئلے کا کوئی حل نہ نکلا کہ آخر کیسے شکاری انسانوں سے بچا جائے، بہت غور و فکر کے بعد ایک نے کہا ’’یہ تو ہم جانتے ہیں کہ انسانوں میں بھی سب کے سب چڑی مار نہیں ہوتے،کتنے ایسے بھی لوگ ہیں جو اپنی محنت سے کھیتی باڑی کرتے ہیں اور غلہ پیدا کر کے گزر بسر کرتے ہیں۔ ان لوگوں میں رحم کا جذبہ یقینا ہوتا ہو گا،اگر ہم ان کسان لوگوں کی پناہ میں چلے جائیں تو چڑی مار کے ظلم وستم سے بچ سکتے ہیں۔

یہ سن کر بہت سے طوطے ایک ساتھ بولے ’’لیکن بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا‘‘؟یعنی کوئی بھی طوطا مشورہ دینے والے طوطے کی بات سے اتفاق کرنے کو تیار نہیں تھا،ان کا خیال تھا کہ سب انسان ایک جیسے ہیں او ر کسی پر بھی بھروسہ کرنا موت کو دعوت دینے کے برابر ہے،لیکن اس طوطے نے پکا ارادہ کر لیا تھا۔اس لیے اپنے ساتھیوں سے چھپ کے کسان کی عادتوں، طریقوں اور ان کی خوبیوں کا اندازہ لگانے لگا۔اس کا زیادہ تر وقت بادشاہ کے باغ میں گزرتا تھا۔

باغ سے کچھ دور ایک بہت بڑا اور گھنا آم کا درخت تھا۔اس کے نیچے ایک استاد بچوں کو پڑھایا کرتا تھا،جنہیں سن سن کر طوطا بھی اچھی اچھی نظمیں اور نصیحت آموز کہانیاں یاد کر چکا تھا۔ و ہ فارغ اوقات میں یاد کیا ہوا سبق زور زور سے دہراتا۔ایک دن اس کی آواز استاد صاحب اور باقی لوگوں نے بھی سن لی تو وہ سب چونک اٹھے ا ور آس پاس کے علاقوں میں بھی بولنے والے طوطے کے چرچے ہونے لگے۔ کافی دور دور سے لوگ اسے دیکھنے کیلئے آنے لگے یہاں تک کہ ایک دن بادشاہ نے بھی خود باغ میں جا کر اس طوطے کو روانی سے بولتے سنا۔ان لوگوں سے چونکہ طوطے کو کوئی تکلیف نہیں پہنچتی تھی،اس لیے وہ نڈر ہو گیا تھا۔

ایک دن استاد صاحب نے اسے پچکار کر اپنے پاس بلایا اور کچھ سیکھنے کی خواہش کی وجہ سے وہ استاد صاحب کے بازو پر آ کر بیٹھ گیا،اور باقی بچوں کے ساتھ بھی گھل مل گیا۔اب اس کی خدمت میں بادشاہ سلامت کے حکم پر سونے کا پنجرہ اور چاندی کی کٹوری پیش کی گئی، ساتھ ہی طرح طرح کے پھل بھی اس کے آگے آنے لگے،اور طوطا وہاں رہ کر علم حاصل کرنے لگا۔

ایک دن اس کے دل میں اپنے ساتھیوںکا خیال آیاتو اس نے سوچا کہ ان کا حال چال معلوم کرنے جانا چاہیے،کیونکہ یہ نہایت بُری بات ہے کہ خوشی کے دنوں میں اپنوں کو بھُلا دیا جائے۔

وہ جنگل پہنچا تو اس نے دیکھا کہ پہلے کی طرح ہی اس کے سب ساتھی خوفزدہ ہیں کیونکہ چڑی مار وہاں تاک لگائے بیٹھا تھا۔ طوطا چونکہ انسانی زبان بولنا سیکھ چکا تھا اس لیے غصے سے بولا ’’چڑی مار!کچھ شرم کرو۔تم نے اپنی زندگی کیا بنا رکھی ہے۔طوطوں کو پکڑ کر تمہیں کیا ملتا ہے،کیا تم اپنا اور اپنے گھر والوں کا پیٹ بھر لیتے ہو؟مجھے رحم آتا ہے تمہاری زندگی پر،جائو کھیت میں محنت کرو اور اپنی روزی کمائو،شاید تم علم سے بے بہرہ ہو‘‘۔

ایک طوطے کے منہ سے انسان کی زبان اور نصیحتیں سن کر چڑی مار حیران اورشرمندہ بھی ہوا۔اس نے وہیں بیٹھے بیٹھے طوطے کی باتوں پر غور کیا تو سمجھ میں آیا کہ واقعی اس کی زندگی میں بھلا کیا رکھا ہے؟چڑی مار کی زندگی اختیار کر کے اس نے دولت کمائی اور نہ ہی عزت۔ سوائے جنگل میں مارے مارے پھرنے کے اسے کیا مل رہا ہے؟اس نے سوچا کہ اسے محنت کر کے روزی کمانی چاہیے،یا کوئی دوسرا ہنر والا کام کرنا چاہیے۔کہتے ہیں تب ہی سے چڑی مار طوطے کا شکار نہیں کرتے اور لوگ اپنے گھروں میں طوطے کو اس لیے پالتے ہیں تا کہ وہ اچھی اچھی باتیں سیکھ کر دُہراتا رہے۔

 

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

چیمپئنز ون ڈے کپ

پاکستان کرکٹ بورڈ نے چیمپئنز ون ڈے کپ کی پانچ ٹیموں کے کپتانوں کے ساتھ ساتھ 12 سے 29 ستمبر تک فیصل آباد میں منعقد ہونے والے ٹورنامنٹ کیلئے عارضی اسکواڈز کا اعلان بھی کر دیا ہے۔کپتانوں کا تقرر پانچ ٹیموں کے مینٹور نے کیا۔

یوم تحفظ ختم نبوتﷺ

عقیدہ ختم نبوت مسلمانوں کا قطعی اجماعی عقیدہ ہے، اس پر بیسیوں آیاتِ قرآنیہ اور سیکڑوں احادیث صحیحہ مقبولہ شاہدودالّ ہیں۔ قرآن مجید میں وارد لفظِ خاتم النبیین میں کسی قسم کی تاویل اور تخصیص کی گنجائش نہیں ہے۔ تاویل و تخصیص کرنے والا قرآن مجیدکی تکذیب کرتا ہے۔

عقیدہ ختم نبوت شفاعت رسولﷺ کا ذریعہ

7ستمبرہماری تاریخ کا وہ روشن اور تاریخ ساز دن ہے جب ہزاروں مسلمانوں نے عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے طویل جدوجہد کے بعد پارلیمنٹ سے قادیانیوں کو آئینی طور پر غیر مسلم اقلیت قراردلوانے میں کامیابی حاصل کی۔ عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ ہر مسلمان کی ذمہ داری، اس کے ایمان کا تقاضہ اور آخرت میں شفاعتِ رسولﷺ کا ذریعہ ہے۔ ختم نبوت کا عقیدہ اسلام کا وہ بنیادی اور اہم عقیدہ ہے جس پر پورے دین کا انحصار ہے ۔عقیدہ محفوظ تو پورا دین محفوظ، اگر عقیدہ محفوظ نہیں تو دین بھی محفوظ نہیں۔

7ستمبر 1974ء عشاقان مصطفی کیلئے ایک یادگار دن

7ستمبر 1974ء کا دن عالم اسلام کیلئے بالعموم اور اسلامیانِ پاکستان کیلئے بالخصوص ایک یادگار اور تاریخی موقع کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس دن خلاقِ عالم نے ختم نبوت کیلئے جدوجہد کرنے والے اور اس مبارک کام کیلئے خود کو میدانِ عمل میں اتارنے والے علماء، طلباء اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ مجاہدین ختم نبوت اور فدایان ختم الرسلﷺ کی بے مثال قربانیوں اور انتھک کاوشو ں کے نتیجے میں قادیانی مسئلہ ہمیشہ کیلئے قانونی طور پر حل کر دیا۔

سنی سنائی باتیں بغیر تحقیق کے نہ آگے پہنچائیں!

قرآن پاک کی سورۃ الحجرات کی آیت نمبر 6 میں ارشاد ربانی ہے ’’ اے ایمان والو! اگر آئے تمہارے پاس کوئی گناہگار خبر لے کر تو تحقیق کر لو، کہیں جا نہ پڑو کسی قوم پر نادانی سے پھر کل کو اپنے کئے پر لگو پچھتانے‘‘ ۔یہ آیت حضرت ولیدؓ بن عقبہ بن ابی معیط کے بارے میں نازل ہوئی ہے، جنہیں رسول اللہﷺ نے بنو مصطلق کی طرف زکوٰۃ وصول کرنے کیلئے بھیجا تھا۔

غیبت:گناہ کبیرہ

ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اے لوگوں جو ایمان لائے ہو بہت گمان کرنے سے پر ہیز کرو کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں، تجسس نہ کرو، اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے، کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے، تم کو اس سے گھن آئے گی اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے (سورۃ الحجرات :12)