اولمپک گیمز اور پاکستان
جشن آزادی کے موقع پر سالوں بعد اولمپک میدان سے ملک کیلئے ایک اچھی خبر آئی ہے۔ ارشد ندیم نے پاکستان کیلئے 32 سال بعد اولمپک تمغہ جیت کر اور نیا اولمپک ریکارڈ قائم کرکے قوم کا سر فخر سے بلند کردیا ہے۔ اس میڈل کو شامل کرکے پاکستان کے اب تک 11 اولمپک تمغے جن میں چار سونے، تین چاندی اور چار کانسی کے تمغے ہیں۔
اقوام عالم میں اولمپکس مقبول ترین کھیلوں کے مقابلے ہیں۔ جن میں 200 سے زائد ممالک کے ہزاروں کھلاڑی حصہ لیتے ہیں۔ 1894ء میں بین الاقوامی اولمپک کمیٹی کی بنیاد رکھی گئی۔اس کمیٹی نے اس کھیل کو عالمی سطح پر مقبول بنانے کیلئے کئی اقدامات اٹھائے ۔ یوتھ اور خواتین کے ساتھ ساتھ معذور افراد کے گیمز بھی ان عالمی مقابلوں کا حصہ بنے ۔
بدقسمتی سے پاکستان نے 1992 بار سلونا کے بعد اولمپک گیمز میں ایک بھی تمغہ نہیں جیتا تھا۔ اس سال پاکستان سے صرف سات کھلاڑی اولمپکس کا حصہ بنے اور کوئی بھی خاطر خواہ کارکردگی نہ دکھا سکا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ایتھلیٹس کے ساتھ جانے والے لوگوںکی تعداد 27 تھی۔
پاکستان نے 1948ء میں پہلی بار اولمپکس میں شرکت کی، البتہ پاکستان نے اپنا پہلا اولمپک گولڈ میڈل 1956ء میں ہاکی کے میدان میں جیتا۔(اس اعزاز کے بعد ہاکی کو قومی کھیل بنا دیا گیا)۔
دوسری طرف اولمپک کے حوالے سے صرف ہمسایہ ملک بھارت کا ہی جائزہ لیں تو ان کے اس سال 150 کے قریب کھلاڑی پیرس گئے ہیں۔ ان کی اولمپکس فیڈریشن بھی پانی کی طرح پیسے لگا رہی ہے۔ یاد رہے کہ بھارت کی اولمپک ایسوسی ایشن کی صدر ایک زبردست ایتھلیٹ رہی ہیں اور 101 بین الاقوامی میڈل جیت چکی ہیں۔ لیکن پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن میں گزشتہ 24 سال ایک ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل صدر رہے، جن کا کھیل سے دور دور تک تعلق تھا نہ ان کے دور میں کوئی اولمپک تمغہ ملک کے نام ہوسکا۔
ارشد ندیم کی جیت نے یہ ثابت کردیا ہے کہ وسائل کے فقدان، مقامی اور قومی سطح پر کھیلوں اور کھلاڑیوں کی ناقدری، فنڈز کی عدم دستیابی، عدم توجہی، ناکافی تربیت، جدید سہولیات کی عدم فراہمی، مختلف فیڈریشنز اور ان کے عہدیداروں کے مابین کشمکش، اختیارات کی جنگ، سیاسی مداخلت، اقربا پروری کے باوجود ٹیلنٹ کو آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
اگر ملک میں مقامی اور قومی دونوں سطحوں پر اولمپک کھیلوں کے فروغ کیلئے فوری دور رس نتائج کے حامل اقدامات کو اٹھایا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان ہر کھیل میں ممتاز مقام حاصل کرلے۔ اس مقصد کیلئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو کھیلوں کے فروغ اور کھلاڑیوں کی تعلیم و تربیت کیلئے مناسب فنڈ مختص کرنا ہوںگے۔ کھیلوں کے سرکاری اداروں میں صرف میرٹ پر منتخب افراد کو آگے لاکر ہر طرح کا ناجائز اثرورسوخ ختم کرنا ہوگا۔ محض خانہ پوری کیلئے بیرون ملک جانے کے شوقین اور سفارشیوں کو اصل کھلاڑیوں کی جگہ آخری وقت میں تبدیل کرنا چھوڑنا ہو گا،سالہا سال محنت کرنے والے اصل کھلاڑیوں کو اولمپک میں بھیجا جائے۔ اس کیلئے اولمپک کمیٹی کو زیادہ فعال کرنے کے ساتھ ساتھ اس اہم ترین ادارہ کو مقامی کھیلوں کے اداروں کے ساتھ باہمی تعاون کے رشتے میں منسلک کرنا ہوگا۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ اگلے اولمپک میں اچھا پھل ملے تو آج سے ہی زمین پر مطلوبہ محنت کرنا ہوگی، تیاری پکڑنا ہوگی،نسل نو کی تعمیر کرناہوگی۔