جنگ ستمبر میں پاک فضائیہ کا کردار!

تحریر : ڈاکٹر یوسف عالمگیرین


سترہ روزہ جنگ میں پاکستان نے بھارت کے 110طیارے تباہ کردیئے جبکہ پاکستان کے صرف 19طیارے تباہ ہوئے بھارتی پائلٹس پاکستانی شاہینوں سے اس قدر خائف و خوفزدہ تھے کہ وہ اپنے طیارے فضا میں بلند کرنے سے گریزاں تھے

6ستمبر1965ء کا دن وطن عزیز کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے جانے کے لائق ہے، جس دن پاکستان کے ازلی دشمن بھارت نے ہماری سرزمین پر اچانک جارحانہ اور وحشیانہ حملہ کیا۔ بھارت نے سب سے پہلے لاہور پر دھاوا بولا، اس وقت پاک فضائیہ کا سکوارڈرن 19 پشاور میں تعینات تھا۔6ستمبر کی صبح اس کے چھ ’’ایف 86‘‘ سیالکوٹ کی فضائوں میں مشن پر مصروف عمل تھے۔ اسی دوران انہیں حکم ملا کہ دشمن نے لاہور پر حملہ کر دیا ہے، انہیں جا کر سبق سکھائو۔ چنانچہ سوا نو بجے پاکستانی شاہین امرتسر، واہگہ روڈ پر جا پہنچے۔ وہ سڑک بھارتی ٹینکوں، توپوں اور بکتر بندگاڑیوں سے بھری پڑی تھی۔ بھارتی تیزی سے بی آر بی نہر کی سمت بڑھ رہے تھے تاکہ باٹا پور پل پار کرکے لاہور تک رسائی حاصل کریں، جب پاک فضائیہ کے شیروں نے اس قدر کثیر تعداد میں دشمنوں کو دیکھا تو ان کا خون کھول اٹھا، وہ جذبہ حب الوطنی اور ملی حمیت سے بھرپور تھے، ان کے طیارے راکٹوں سے لیس تھے۔

 بیس منٹ تک پاک فضائیہ کے طیارے دشمن کے بھاری اسلحے پرتاک تاک کر راکٹ پھینکتے رہے۔جب مشن مکمل ہو گیا تو چشم فلک نے دیکھا امرتسر واہگہ روڈ پر کئی ٹینک اور توپیں آگ کے شعلوں کی لپیٹ میں ہیں۔ اس طرح پاک فضائیہ کے جاں بازوں نے بھارت کا بھاری اسلحہ تباہ و برباد کر دیا اور لاہور شہر کے دفاع کو مضبوط بنا دیا۔ یہ بات یاد رہے کہ پاک بھارت جنگ میں پاک فضائیہ کا یہ پہلا حملہ تھا۔ اس محاذ پر اس مختصر فضائی دستے کی سربراہی سکواڈرن لیڈر سید سجاد حیدر کر رہے تھے، ان کی رفاقت میں فلائٹ لیفٹیننٹ محمد اکبر، دلاور حسین، غنی اکبر جیسے مجاہد پائلٹ اور فلائنگ آفیسر محمد ارشد سمیع چودھری اور خالد لطیف خان شامل تھے۔

6ستمبر 1965ء کو اسکوڈرن کمانڈر سرفراز احمد رفیقی کی سربراہی میں سرگودھا سے تین طیاروں کے گروپ نے بھارت کے ہلواڑہ ایئر فیلڈ پر حملے کی غرض سے پرواز کی یہ ان تین فارمیشنز کا حصہ تھے، جنہیں دشمن پر پیشگی حملے کیلئے منتخب کیا گیا۔ اسکواڈرن لیڈر رفیقی کی سربراہی میں فلائٹ لیفٹیننٹ سیسل چودھری بطور نمبر 2اور فلائٹ لیفٹیننٹ بطور نمبر3طیاروں کے پائلٹس میں شامل تھے۔ تاریکی تیزی سے پھیل رہی تھی اور کمانڈر رفیقی کو رات کے مکمل چھا جانے سے پہلے پہلے دشمن پر حملہ کرنا تھا۔ اسکواڈرن لیڈر ایم ایم عالم کی سربراہی میں تین طیاروں پر مشتمل فارمیشن جو دس منٹ پہلے ہی روانہ ہوئی تھی، آدم پور پر ایک کارروائی کے بعد واپس آ رہی تھی۔ ایم ایم عالم نے رفیقی کو دشمن کے ہنٹر طیاروں کی موجودگی سے خبردار کر دیا تھا۔

ہلواڑہ پر ہنٹر طیاروں پر مشتمل بھارتی فضائیہ کا نمبر 7اسکواڈرن دن میں چار مرتبہ اڑان بھر چکا تھا۔ یہ مسلح جاسوسی کے مشن تھے جو مناسب ٹارگٹ کی تلاش میں ناکام رہے تھے۔ چوتھا اور دن کا آخری حملہ لاہور کی جانب ہونے جا رہا تھا کہ ترن تارن کے قریب اس کا سامنا ایم ایم عالم کی فارمیشن سے ہوا۔ اس لڑائی میں بھارتی اسکواڈرن لیڈر اے کے رالی کا طیارہ انتہائی کم بلندی پر پسپائی اختیار کرتے ہوئے زمین سے ٹکرا گیا کیونکہ ایم ایم عالم کافی بلندی سے ان پر گولیاں برسا رہے تھے۔ بھارتی فضائیہ کے باقی رہ جانے والے تین طیاروں نے یہ مشن ترک کر دیا اور لینڈنگ کے بعد اپنی مقررہ جگہوں کی جانب بڑھ رہے تھے کہ رفیقی اور ان کے ہوا بازوں نے ایئر بیس پر کھڑے طیاروں پر گولیاں برسا کر جنگ کا طبل بجا دیا۔ اس شام بھارتی ہنٹر طیاروں کی دو جوڑیاں فضا میں موجود تھیں۔

پاکستانی طیارے پینگا لے اور گاندھی ایئر فیلڈ کے گرد مسلسل چکر لگا رہے تھے۔ رفیقی نے خود سے قریب ترین طیارے(پینگالے) کو نشانہ بنایا۔ ان کا نشانہ شاندار تھا۔ پینگالے کو پتا بھی نہ چل سکا کہ اس پر حملہ کہاں سے ہوا۔ طیارے پر اس کا کنٹرول ختم ہو گیا اور جان بچانے کی خاطر اس نے طیارے سے چھلانگ لگا دی۔ اس کے بعد رفیقی تیزی سے قلا بازی کھا کر گاندھی ایئر فیلڈ کے عقب میں پہنچے اور طیارے کی مشین گن سے فائر کھول دیا۔ چند گولیاں دشمن طیارے میں پیوست ہو گئیں۔ اسی وقت سیسل چودھری نے ریڈیو پر اپنے سکواڈرن کمانڈر کی آواز سنی جو کہہ رہے تھے: ’’سیسل میرے طیارے میں گولیاں ختم ہو گئی ہیں اب تم لیڈر ہو‘‘۔سیسل برق رفتاری سے آگے بڑھے اور رفیقی نے پیچھے ہو کر ونگ مین کی پوزیشن سنبھال لی۔ اس ایک لمحے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے گاندھی، رفیقی کے عقب میں پہنچ گیا، جو ابھی اپنی نئی پوزیشن پر سیٹ ہو رہے تھے۔ گاندھی نے رفیقی کے سپر پر فائر کئے مگر نشانہ خطا ہو گیا۔ اسی دوران موقع ملتے ہی سیسل نے گاندھی پر فائر کھول دیا۔ گولیاں طیارے کے بائیں ونگ پر لگیں۔ گاندھی نے طیارے کو ٹوٹتے دیکھا وہ جان بچانے کی غرض سے ایئر فیلڈ کے قریب آتے ہی طیارے سے کود گیا۔ ایندھن کی قلت اور روشنی کم ہونے کے باعث رفیقی نے واپسی کا فیصلہ کیا، مگر دو ہنٹر طیاروں کی موجودگی میں واپسی کا سفر آسان نہیں تھا۔

 راٹھور اور نیب کمانڈر رفیقی کی فارمیشن کے پیچھے لگ گئے۔ راٹھور، رفیقی کے عقب میں دائیں جانب پہنچا جبکہ نیب نے بائیں جانب موجود یونس کو نشانہ بنایا۔ راٹھور نے تیزی سے آگے بڑھتے ہوئے تقریباً600فٹ کے فاصلے سے رفیقی کے طیارے پر فائرنگ چند گولیاں طیارے میں پیوست ہو گئیں۔ دشمن طیارے نے قریب آکر دوبارہ فائرنگ کی اس بار رفیقی کے سپر کو سخت نقصان پہنچا اور طیارہ بائیں جانب تیزی سے گرا اور ہلواڑہ سے کوئی چھ میل کے فاصلے پر واقع ہیرن نامی گائوں کے قریب زمین سے ٹکرا گیا۔

اس تمام کارروائی کے دوران سیسل، دشمن پر مسلسل گولیاں برسا رہے تھے اس سیسل نے سر گھما کر دیکھا تو لیفٹیننٹ یونس کو مشکل میں پایا۔ انہوں نے ریڈیو ٹرانسمیٹر سے یونس کو طیارہ جھکانے کی ہدایت دی گمر یونس نے ذہن میں نہ جانے کیا سمایا کہ انہوں نے طیارے کا رخ اوپر کی جانب کر لیا۔ نیب نے اس غلطی کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور یونس کے طیارے پر فائرنگ شروع کر دی جو جان لیوا ثابت ہوئی۔ طیارے سے پہلے دھوئیں کا بادل نمود ار ہوا، پھر آگ لگ گئی اور طیارہ فضا میں پھٹنے کے بعد زمین بوس ہو گیا۔ اس مشن میں دو جانباز یعنی اسکواڈرن لیڈر سرفراز احمد رفیقی اور فلائٹ لیفٹیننٹ یونس حسن شہید ہو گئے جبکہ سیسل چودھری بے جگری سے لڑتے ہوئے بیس پر واپس آنے میں کامیاب رہے۔

6ستمبر 1965ء کی بی بی سی رپورٹ میں کہا گیا: ’’ بھارتی فوج نے مغربی پاکستان پر حملہ کر دیا۔ بھارتی افواج تین مقامات سے سرحدوں کو پار کرکے پاکستان میں داخل ہوئیں اور ان کا اصل ہدف پاکستان کا شہر لاہور ہے۔ اس حوالے سے دہلی میں موجود حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے پاکستانی افواج کو بھارت پر حملہ سے باز رکھنے کیلئے یہ انتہائی قدم اٹھایا۔ اگرچہ اس سے پہلے جنگ بندی لائن پر دونوں ممالک کی افواج کے درمیان متعدد جھڑپیں ہو چکی ہیں، مگر بھارتی فوج پہلی مرتبہ سرحد پار کرکے مغربی پاکستان میں داخل ہوئی جسے ایک باقاعدہ جنگ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے‘‘۔

6اور 7ستمبر 1965ء کی شب اور طلوع سحر کی بھارتی فضائیہ کی چڑھائیوں نے پاک فضائیہ کے کمانڈران چیف ایئر مارشل نور خان کو جوابی کارروائی کیلئے متحرک کر دیا۔ 7ستمبر کی صبح 6بجے کلائی کندہ پر حملہ کرنے کے احکامات موصول ہوئے تو اسکواڈرن لیڈر شبیر حسین سید کی سربراہی میں پانچ پائلٹس (فلائٹ لیفٹیننٹ حلیم، بصیر، طارق، حبیب خان اور فلائنگ آفیسر افضل خان) نے نچلی پرواز پر حملے کی تیاریاں شروع کر دیں۔ مشن بہت خطرناک تھا کیونکہ ڈھاکہ سے تقریباً 300کلو میٹر کا فاصلہ تھا اور واپسی کے سفر کیلئے اس بات کا دھیان رکھنا تھا کہ راستے میں ایندھن کی کمی سے پورا مشن ناکام نہ ہو جائے۔ نچلی پرواز کی ضرورت کے مطابق ہر طیارے کو دو120اور دو 200گیلن کے ڈراپ ٹینک اضافی ایندھن کے طور پر رکھنے کی ضرورت تھی جبکہ حملے کیلئے 0.5انچ مشین گنیں دستیاب تھیں۔

صبح سویرے حملے کی حکمت عملی بنائی گئی۔ پرجوش عملے نے طیاروں کو تیار کرتے ہوئے اس بات کی یقین دہانی کی کہ ہر چیز مکمل اور اپنی جگہ پر ہو۔ پانچ سپر جنگی طیارے تیج گائوں کے میدان سے فضا میں اٹھے تو گرائونڈ کا عملہ ان کی کامیابی اور خیر و عافیت کی دعا مانگ رہا تھا۔ جب یہ اسکواڈرن محو پرواز ہوا تو کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ تاہم بہادر جنگجو آگے بڑھتے رہے۔ گو پاکستان کے جنگی طیاروں کی تعداد کم تھی مگر جب یہ طیارے اپنے ہدف تک پہنچے اور شبیر حسین نے دشمن پر اچانک حملہ کر دیا تو یہ بات عیاں تھی کہ اس حملے نے دشمن کو حواس باختہ کردیا ہے۔ شبیر حسین کے سپر پر کوئی اینٹی ایئر کرافٹ فائر نہیں ہوا۔چودہ کے  چودہ’’کنبرا‘‘ جنگی طیارے قطار میں کھڑے محو خواب تھے۔ بھارتیوں کے تو وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اتنی افرادی قوت یوں تیزی سے ردعمل دکھائے گی اور اس قدر شدید نقصان ہو جائے گا۔

پاک فضائیہ کے ہر ایک سپر جنگی طیارے نے فضا میں دو چکر لگا کر تابڑ توڑ حملوں سے گولیوں کی بارش کردی۔ یہ مشن کامیاب رہا اور پورا سکواڈرن محفوظ طریقے سے واپس اپنے ٹھکانے پر آ گیا۔ اس اچانک حملے سے دشمن کے 10کینبر مکمل تباہ ہو گئے جبکہ پانچ طیاروں کو شدید نقصان پہنچا جس میں دو ہنٹرز بھی شامل تھے۔ شبیر اور ان کے ساتھی جب اپنے طیاروں سے نیچے اترے تو تیج گائوں’’اللہ اکبر‘‘ کے فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھا اور تیج گائوں کے پاک فضائیہ کے اڈے پر جشن کا سماں پیدا ہو گیا۔ طیارہ اڑانے کی بے مثال مہارت اور بہادری کے اعتراف میں سکواڈرن لیڈر شبیر حسین سید کو ستارہ جرأت سے نوازا گیا۔

جنگ کے چند روز بعد ہی برطانیہ کے معروف ہفتہ وار جریدے’’سنڈے ٹائمز‘‘ نے پاک فضائیہ کی شاندار کارکردگی اور بہترین جنگی حکمتِ عملی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا کہ ’’پاکستانی فضائیہ نے اپنی فضائوں کا مکمل تحفظ کرنے کے ساتھ ساتھ بھارتی فضائوں کو بھی مکمل طور پر اس طرح اپنے کنٹرول میں لے لیا کہ وہاں پر بھی ہر سو پاک فضائیہ کے طیارے ہی اڑتے دکھائی دیتے تھے۔ بھارتی پائلٹس پاکستانی شاہینوں سے اس قدر خائف و خوفزدہ تھے کہ وہ اپنے طیارے فضا میں بلند کرنے سے گریزاں تھے۔ پاکستانی شاہینوں کے سامنے بھارتی طیارے ننھے منے پرندوں کی مانند تھے جو شاہین کو دیکھ کر اِدھر اُدھر چھپنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ تمام نظارے ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ اس سے بھی بڑی حیران کن بات تو یہ ہے کہ وہ بھارتی فوج جو پاکستانی فوج سے کم و بیش تین گنا بڑے ا ور طاقتور تھی۔ پاکستانی افواج کی جنگی چالوں اور جذبہ و ولولہ کے سامنے ڈھیر ہو گئی جس سے ہمیں اندازہ ہوا کہ جنگیں ہتھیاروں سے نہیں جذبوں سے لڑی اور جیتی جاتی ہیں اور پاک بھارت کے درمیان ہونے والی یہ جنگ ہمارے لیے بہت سے سوال اور تجربات چھوڑ گئی‘‘ (سنڈے ٹائمز 19ستمبر 1965ء)۔

یہ حقیقت ہے کہ دفاع وطن کے تقاضے آج بھی وہی ہیں۔جذبہ ستمبر بھی اْسی آب و تاب کے ساتھ پاکستانی قوم کے دلوں میں موجزن ہے اور آج بھی ہمارے سپوت دفاع وطن کے لئے ڈٹے ہوئے ہیں۔ 

یونس حسن خان شہید

1965ء کے ایک اور ہیرو یونس خان شہید کا نام سنہرے حرفوں سے زندہ رہے گا۔ انہوں نے پٹھان کوٹ بھارت کے فضائی اڈے پر حملہ کیا اور اپنی مہارت سے بھارتی فضائیہ کے 15طیارے تباہ کردیئے جن میں کینبرا اور دوسرے طیارے شامل تھے۔ بعض ذرائع کے مطابق وہ جب بھارتی حدود میں داخل ہوئے تو ان کے طیارے پر بھارتی طیاروں کی جانب سے فائرنگ ہوئی اور طیارے کو نقصان پہنچا لیکن کچھ حوالہ جات کہتے ہیں کہ انہوں نے بھارتی علاقے پٹھان کوٹ کے پاس فضائی اڈے پر موجود پاکستانی حملے کے لیے کھڑے طیاروں سے اپنا طیارہ ٹکرا دیا جس میں بھارت کے  15طیارے جل کر راکھ ہو گئے اور دشمن کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

سنی سنائی باتیں بغیر تحقیق کے نہ آگے پہنچائیں!

قرآن پاک کی سورۃ الحجرات کی آیت نمبر 6 میں ارشاد ربانی ہے ’’ اے ایمان والو! اگر آئے تمہارے پاس کوئی گناہگار خبر لے کر تو تحقیق کر لو، کہیں جا نہ پڑو کسی قوم پر نادانی سے پھر کل کو اپنے کئے پر لگو پچھتانے‘‘ ۔یہ آیت حضرت ولیدؓ بن عقبہ بن ابی معیط کے بارے میں نازل ہوئی ہے، جنہیں رسول اللہﷺ نے بنو مصطلق کی طرف زکوٰۃ وصول کرنے کیلئے بھیجا تھا۔

غیبت:گناہ کبیرہ

ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اے لوگوں جو ایمان لائے ہو بہت گمان کرنے سے پر ہیز کرو کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں، تجسس نہ کرو، اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے، کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے، تم کو اس سے گھن آئے گی اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے (سورۃ الحجرات :12)

حدود فراموشی اللہ کی ناراضگی کا سبب

انسان حدود فراموشی کا مرتکب اس وقت ہوتا ہے جب خوف خدا نہ رہے یا حساب آخرت کا خوف نہ رہے

مسائل اور ان کا حل

مال یا فصل سے چوری کی صورت میں مالک کو اجروثواب ملنے کا مسئلہ سوال : اگرکوئی چورکسی شخص کے لگائے ہوئے شجر، قیمتی درخت کوچوری کرکے کاٹ کرلے جائے یاکوئی اور چیز نقدی، مال یاغلہ وغیرہ چوری کرکے لے جائے توکیا اس پر مالک کواللہ تعالیٰ کی طرف سے اجرملتاہے؟اورکیاوہ چیزمالک کی طرف سے صدقہ ہو جاتی ہے بغیر نیت کئے؟ (اے آر چودھری، ٹوبہ ٹیک سنگھ)

6ستمبر1965جب شکست بھارت کا مقدر بنی

ستمبر کی یہ جنگ کوئی عام جھڑپ یا کوئی معمولی جنگ نہ تھی بلکہ یہ جنگ درحقیقت پاکستان کو ہڑپ کر جانے یا پھر اسے اپاہج بنا دینے کی ایک بھیانک کارروائی تھی۔ جس کا پاکستانی بہادر افواج نے مردانہ وار مقابلہ کیا اور بھارت کو ایسا منہ توڑ جواب دیا جس کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ بھارت کو اپنی فوجی طاقت پر گھمنڈ تھا جبکہ افواج پاکستان کو اپنی ایمانی قوت پر۔

ساری نظریں سپریم کورٹ پر

عدالتی چھٹیاں ختم ہونے میں چار روز باقی ہیں، جس کے بعد ملکی سیاست اور عدالتی محاذ پر کئی ڈیویلپمنٹس ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ یوں تو ہر سال معمول کے مطابق ستمبر میں نئے عدالتی سال کا آغاز ہوتا ہے مگر اس بار نئے عدالتی سال کی اہمیت اس لئے بڑھ گئی ہے کہ عدالتی چھٹیوں کے دوران حکومت نے عدلیہ سے متعلق کئی اقدامات اٹھانے کی کوشش کی ، کئی پلان زیر غور ہیں اور کچھ پر عملدرآمد شرو ع ہو چکا ہے۔