6سے 12سال کی عمر میں بچے کیا سوچتے ہیں؟
ہر بچہ مختلف فطری صلاحیتوں کا مالک ہوتا ہے، لیکن ان فطری صلاحیتوں کی تکمیل اور جلا کیلئے رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ویسے تو بچہ اپنی ابتدائی عمری سے ہی سیکھنا شروع کر دیتا ہے ، اسی لئے تو ماں کی گود کو بچے کی پہلی درسگاہ قرار دیا جاتا ہے۔
6سے12سال کی عمر میں بچہ کسی حد تک اپنے آپ کو دوسروں کی جگہ رکھ کر سوچ سکتا ہے۔ ایک ہی وقت میں کسی چیز کے دو پہلوؤں پر غور کر سکتا ہے۔ وہ پرانے اعمال کو ذہن میں دہرانے کے علاوہ ایسے اعمال کے بارے میں بھی سوچ سکتا ہے جو اس نے نہ کبھی دیکھے اور نہ خود کئے ہیں۔ بچے کو یہ احساس ہو جاتا ہے کہ چیزوں کی شکل تبدیل ہونے سے ان کے وزن یا جسامت میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ اب بچہ ایک ہی چیز یا فرد کو مختلف گروہوں میں شامل کر سکتا ہے مثلاً گائے ایک جانور ہے جو جاندار بھی ہے، چوپایہ بھی ہے اور دودھ دینے والا بھی۔
اس عمر میں بچے میں اعداد کا تعلق یا کانسپٹ پیدا ہو جاتا ہے، یعنی بچہ یہ سیکھ لیتا ہے کہ کسی چیز کی تعداد کسی اور چیز سے زیادہ یا کم ہے اور یہ کہ ایک عدد مثلاً دنیا کی تما م چیزوں سے منسوب ہو سکتا ہے۔ اس مرحلے میں بچہ صرف چیزوں کی موجودہ حالت پر متوجہ ہونے کی بجائے چیزوں یا حالات کی تبدیلی پر بھی توجہ دیتا ہے۔ یعنی اب اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ ایک چیز جو اس وقت وقت ایک خاص حالت میں ہے پہلے ایسے نہ تھی اور ہو سکتا ہے کہ یہ مستقبل میں مزید تبدیل ہو جائے۔ یعنی بچے تغیر اور تبدیلی کا احساس پیدا ہوتا ہے۔
اس دور میں مختلف خصوصیات کے دوام (کنزرویشن)کے تعقلات مختلف عمروں میں سیکھے جاتے ہیں۔ سب سے پہلے مادے کا دوام سیکھا جاتا ہے (عموماً سات آٹھ سال کی عمر میں)، پھر وزن کا دوام (نو سے دس سال کی عمر میں) پھر حجم کا دوام (تقریباً بارہ سال کی عمر میں) اس کے بعد اعداد کا اور پھر رقبے کا دوام۔ اسی طرح عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ بچوں میں یہ احساس بڑھتا جاتا ہے کہ چیزوں اور واقعات میں تسلسل، یکسانیت، ترتیب اور منطق پائی جاتی ہے۔ اس طرح بچوں میں منطقی سوش، پیش بینی اور منصوبہ بندی کی صلاحیتیں فروغ پاتی ہیں۔