6سے 12سال کی عمر میں بچے کیا سوچتے ہیں؟

تحریر : ڈاکٹر فرزین ملک


ہر بچہ مختلف فطری صلاحیتوں کا مالک ہوتا ہے، لیکن ان فطری صلاحیتوں کی تکمیل اور جلا کیلئے رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ویسے تو بچہ اپنی ابتدائی عمری سے ہی سیکھنا شروع کر دیتا ہے ، اسی لئے تو ماں کی گود کو بچے کی پہلی درسگاہ قرار دیا جاتا ہے۔

6سے12سال کی عمر میں بچہ کسی حد تک اپنے آپ کو دوسروں کی جگہ رکھ کر سوچ سکتا ہے۔ ایک ہی وقت میں کسی چیز کے دو پہلوؤں پر غور کر سکتا ہے۔ وہ پرانے اعمال کو ذہن میں دہرانے کے علاوہ ایسے اعمال کے بارے میں بھی سوچ سکتا ہے جو اس نے نہ کبھی دیکھے اور نہ خود کئے ہیں۔ بچے کو یہ احساس ہو جاتا ہے کہ چیزوں کی شکل تبدیل ہونے سے ان کے وزن یا جسامت میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ اب بچہ ایک ہی چیز یا فرد کو مختلف گروہوں میں شامل کر سکتا ہے مثلاً گائے ایک جانور ہے جو جاندار بھی ہے، چوپایہ بھی ہے اور دودھ دینے والا بھی۔ 

اس عمر میں بچے میں اعداد کا تعلق یا کانسپٹ پیدا ہو جاتا ہے، یعنی بچہ یہ سیکھ لیتا ہے کہ کسی چیز کی تعداد کسی اور چیز سے زیادہ یا کم ہے اور یہ کہ ایک عدد مثلاً دنیا کی تما م چیزوں سے منسوب ہو سکتا ہے۔ اس مرحلے میں بچہ صرف چیزوں کی موجودہ حالت پر متوجہ ہونے کی بجائے چیزوں یا حالات کی تبدیلی پر بھی توجہ دیتا ہے۔ یعنی اب اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ ایک چیز جو اس وقت وقت ایک خاص حالت میں ہے پہلے ایسے نہ تھی اور ہو سکتا ہے کہ یہ مستقبل میں مزید تبدیل ہو جائے۔ یعنی بچے تغیر اور تبدیلی کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ 

اس دور میں مختلف خصوصیات کے دوام (کنزرویشن)کے تعقلات مختلف عمروں میں سیکھے جاتے ہیں۔ سب سے پہلے مادے کا دوام سیکھا جاتا ہے (عموماً سات آٹھ سال کی عمر میں)، پھر وزن کا دوام (نو سے دس سال کی عمر میں)  پھر حجم کا دوام (تقریباً بارہ سال کی عمر میں) اس کے بعد اعداد کا اور پھر رقبے کا دوام۔ اسی طرح عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ بچوں میں یہ احساس بڑھتا جاتا ہے کہ چیزوں اور واقعات میں تسلسل، یکسانیت، ترتیب اور منطق پائی جاتی ہے۔ اس طرح بچوں میں منطقی سوش، پیش بینی اور منصوبہ بندی کی صلاحیتیں فروغ پاتی ہیں۔ 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

پاکستان کا دورہ جنوبی افریقہ:شاہین،پروٹیز کو ہوم گرائونڈ پر کلین سویپ کرنے کیلئے پر عزم

پاکستانی شاہین ون ڈے سیریز میں پروٹیز کو ہوم گرائونڈ پر کلین سویپ کرنے کو تیار ہیں۔ تیسرا اور آخری ون ڈے میچ آج جوہانسبرگ میں کھیلا جائے گا۔ گرین شرٹس نے کیپ ٹاؤن میں کھیلے گئے دوسرے ون ڈے میں مہمان ٹیم کو81 رنز کے مارجن سے شکست دے کر سیریز میں2-0 کی فیصلہ کن برتری حاصل کرلی ہے۔

متوازن غذا ضروری ہے!

’’مما! آج کیا پکایا ہے؟‘‘ عائشہ سکول سے واپس آئی تو آتے ہی بے تابی سے پوچھا، اسے شدید بھوک لگی تھی۔

مغرور اونٹ کی کہانی

کسی جنگل میں ایک مغرور اونٹ رہتا تھا۔ اسے اپنے لمبے قد اور چال ڈھال پر بڑا ناز تھا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ میں سب سے اعلیٰ ہوں۔ اس کا جہاں جی چاہتا منہ اْٹھا کر چلا جاتا اور سب جانوروں سے بدتمیزی کرتا رہتا۔ کوئی جانور اگر اسے چھیڑتا تو وہ اس کے پیچھے پڑ جاتا۔ اس کے گھر کے قریب چوہے کا بل تھا اور اونٹ کو اس چوہے سے سب سے زیادہ نفرت تھی۔ وہ اس چوہے کو نہ جانے کیا کیا القابات دیتا رہتا لیکن چوہا ہنس کے ٹال دیتا تھا۔ جنگل کے سب جانور ہی اونٹ سے اس کے تکبر کی وجہ سے تنگ تھے اور چاہتے تھے کہ اسے اس کے کیے کی سزا ملے مگر ابھی تک اونٹ کو کھلی چھٹی ملی ہوئی تھی۔

پہیلیاں

ہو اگر بخار کا مارا کیوں نہ چڑھے پھر اُس کا پارہ (تھرما میٹر)

بکری میری بھولی بھالی

بکری میری بھولی بھالی بکری میری بھولی بھالی کچھ تھی بھوری کچھ تھی کالی

ذرامسکرایئے

ماں : گڈو ! میں نے پلیٹ میں کیک رکھا تھا ، وہ کہاں گیا؟ گڈو : امی مجھے ڈر تھا کہ کیک کہیں بلی نہ کھا جائے ، اس لیے میں نے کھا لیا۔ ٭٭٭