حدود فراموشی اللہ کی ناراضگی کا سبب

تحریر : مولانا حافظ زبیر حسن


انسان حدود فراموشی کا مرتکب اس وقت ہوتا ہے جب خوف خدا نہ رہے یا حساب آخرت کا خوف نہ رہے

حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ ’’جو شخص اللہ کی مقرر کردہ حدود میں حائل ہو (یعنی اللہ کی مقرر کردہ حدود میں سفارش کر کے یا کسی اور طریقے سے رکاوٹ بنے) تو اس نے اللہ سے ضد کی‘‘(ابوداؤد شریف)۔

لفظ حدود، حد کی جمع ہے اور فراموشی کا معنی ہے بھول جانا لہٰذا حدود فراموشی کا معنی ہوا ’’حدوں کو بھول جانا‘‘ اور ان کا خیال نہ رکھنا۔قرآن و حدیث میں حد کالفظ دو معنوں میں استعمال ہوا ہے ایک لغوی معنی ہے اور دوسرا اصطلاحی معنی ہے۔

حد کا لغوی معنی ہے ’’الحاجز بین شیئین‘‘ یعنی دو چیزوں کے درمیان جو رکاوٹ ہوتی ہے اسے حد کہتے ہیں جسے ہم آسان الفاظ میں ایک کنارا یا سرحد یا انتہا کہہ سکتے ہیں۔

اسلامی اصطلاح میں حد کہتے ہیں عقوبۃ مقدرۃ تجب حقاللہیعنی حد اس سزا کو کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حق کے طور پر واجب ہوتی ہے جیسے حد سرقہ یعنی چوری کی سزا، حد قذف یعنی تہمت لگانے کی سزا۔گویا کہ حدود اللہ کی طرف سے مقرر کر دہ وہ ضابطے ہیں جو سزا کی صورت میں یا حلال و حرام کے احکامات کی صورت میں ہیں۔

ان حدود کو مقرر کرنا اس لیے ضروری ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو خیر و شر میں سے کسی بھی راستہ پر چلنے کا اختیار دیا ہے اب انسان اسی فطرت کی وجہ سے اپنی خواہش، اپنی چاہت، اپنی مرضی کو پورا کرنا چاہتا ہے اس لیے انسان کو حدود و قیود پسند نہیں‘ وہ ہر قسم کی بندشوں سے آزادی چاہتا ہے۔ اگر انسان کو اسی طرز پر چلنے کی اجازت دے دی جائے تو ظاہر ہے کہ انسان من مانی کرے گا اور اس طرح زندگی کا پورا نظام تباہ ہو کر رہ جائے گا اس لیے کہ انسان خود اپنے بارے میں یہ چاہے گا کہ مجھے یہ چیز مل جائے، میری یہ بات پوری ہو جائے۔ حالانکہ انسان کو معلوم نہیں کہ آخر کار اس کیلئے یہ اچھا ہے یا برا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

(ترجمہ) ’’ہو سکتا ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرتے ہو اور وہ تمہارے لیے بہتر ہو اور ہو سکتا ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرتے ہو اور وہ تمہارے لیے بری ہو اور اللہ جانتا ہے‘ تم نہیں جانتے‘‘۔

انسان نے جو اپنے اچھے اور برے کو سوچ کر خود بھی ضابطے بنائے قوانین بنائے اور اپنے لیے اور دوسروں کیلئے کچھ حدیں مقرر کی ہیں۔ اب انسان کی مقرر کردہ حدود اور اللہ کی مقرر کردہ حدود میں فرق یہ آجاتا ہے کہ انسان کی سوچ محدود ہے۔ وہ جب بھی قوانین بنائے گا تو اگر اپنے ملک کیلئے بنائے گا تو اپنے ملکی مفادات کو سوچے گا۔ علاقے کیلئے ضابطے اور حدود مقرر کرے گا تو علاقائی مفادات کو سامنے رکھے گا۔

لیکن خالق کائنات اللہ جل جلالہ نے جب حدود مقرر فرمائیں تو پوری کائنات کے حالات اس کے سامنے تھے۔ وہ علیم ہے خبیر ہے اس کی مقرر کردہ حدود میں پوری انسانیت کی فلاح اور کامیابی ہے۔

لہٰذا اللہ رب العزت نے زندگی کے ہرمرحلے کیلئے احکام و آداب سکھائے۔ پیدائش سے لے کر موت تک کے ہر مرحلے کیلئے حدود مقرر فرمائیں۔ یہاں تک کہ انسان اکثر خوشی اور غم کے موقع پر اللہ کی مقرر کردہ حدود کو فراموش کر بیٹھتا ہے۔ خوشی کے مرحلے میں سب کچھ کر بیٹھتا ہے اور کہتا ہے خوشی کا موقع ہے اب سب جائز ہے غم کا وقت آجائے تو نہ معلوم کیا کچھ کرتا ہے اور کہتا ہے بس جی غم کا موقع ہے کیا کریں۔حالانکہ اللہ نے غم اور خوشی کے موقع پر حدود مقرر فرمائی ہیں۔ حتیٰ کہ نماز، روزہ اور دیگر عبادات کی حدود بھی بتائی ہیں تاکہ انسان وہاں بھی حد سے آگے نہ بڑھے۔

(ترجمہ)’’اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے مت بڑھو‘‘(سورۃ الحجرات :1)۔رسول اکرم ﷺ نے ان حدود سے آگے بڑھنے اور ان حدود کو فراموش کرنے سے منع کرنے کے ساتھ اس سے بچنے کے طریقے بھی بتائے۔ صحیح بخاری و مسلم میں حضرت نعمان بن بشیرؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ: ’’بے شک حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے۔ اور ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہ باتیں ہیں جنہیں بہت سے لوگ نہیں جانتے پس جو شخص مشتبہ چیزوں سے بچ گیا اس نے اپنا دین اور اپنی عزت بچا لی ‘‘ پھر فرمایا:

(ترجمہ) یعنی’’ جو شخص شبہ والی چیزوں میں پڑ جائے وہ حرام میں جا پڑے گا جیسے کہ چرواہا ممنوعہ چراگاہ کے اردگرد مویشی چرانے لگے تو ہو سکتا ہے کہ وہ ممنوعہ چراگاہ میں چرنے لگے۔‘‘ پھر فرمایا:

(ترجمہ)یعنی ’’آگاہ رہو ہر بادشاہ کی ایک ممنوعہ چراگاہ ہوتی ہے اور اللہ کی وہ ممنوعہ چراگاہ اس کی حرام کی ہوئی چیزیں ہیں‘‘

اس ارشاد سے رسول اکرم ﷺ نے یہ تعلیم دی کہ حدود فراموشی سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ انسان حلال و حرام کو واضح طور پر اپنے سامنے رکھے اور جن چیزوں میں شبہ ہو ان سے بچتا رہے۔

انسان حدود فراموشی یعنی اللہ کی مقرر کردہ حدوں کو بھلا دینے کا مرتکب اس وقت ہوتا ہے جب خوف خدا نہ رہے یا حساب آخرت کا خوف نہ رہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے جو حکیم و خبیر ہے جب قرآن حکیم میں انسان کیلئے ضابطے اور حدود بیان فرمائی ہیں تو وہاں انسانوں کو حدود کی پابندی کیلئے تین طرح کے جملے فرمائے۔

ایک تو قیامت کے دن کے حساب اور جرائم کی سزا سے ڈرا کر انسان کو ان حدود کی پابندی کیلئے آمادہ کیا پھر اس کے ساتھ اس قانون کی خلاف ورزی میں انسان کیلئے جو نقصانات ہیں ان کو واضح کیا۔ پھر بتایا کہ تمہاری اپنی بھلائی صرف اسی میں ہے کہ تم ان حدود کی پابندی کرو۔

لہٰذا انسان اگر پابندی سے قرآن مجید کی تلاوت کرتا رہے اور اس کے احکامات کو ذہن میں رکھے اور پھر زندگی کے ہر مرحلے میں یہ آگاہی حاصل کرتا رہے کہ رسول اکرمﷺ نے اس بارے میں کیا ہدایات ارشاد فرمائی ہیں تو پھر انشاء اللہ یہ انسان زندگی کے کسی مرحلے میں حدود فراموشی کا مرتکب نہ ہو سکے گا اور یوں اسے دنیا و آخرت دونوں میں فلاح و کامیابی نصیب ہو گی۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

پاکستان کا دورہ جنوبی افریقہ:شاہین،پروٹیز کو ہوم گرائونڈ پر کلین سویپ کرنے کیلئے پر عزم

پاکستانی شاہین ون ڈے سیریز میں پروٹیز کو ہوم گرائونڈ پر کلین سویپ کرنے کو تیار ہیں۔ تیسرا اور آخری ون ڈے میچ آج جوہانسبرگ میں کھیلا جائے گا۔ گرین شرٹس نے کیپ ٹاؤن میں کھیلے گئے دوسرے ون ڈے میں مہمان ٹیم کو81 رنز کے مارجن سے شکست دے کر سیریز میں2-0 کی فیصلہ کن برتری حاصل کرلی ہے۔

متوازن غذا ضروری ہے!

’’مما! آج کیا پکایا ہے؟‘‘ عائشہ سکول سے واپس آئی تو آتے ہی بے تابی سے پوچھا، اسے شدید بھوک لگی تھی۔

مغرور اونٹ کی کہانی

کسی جنگل میں ایک مغرور اونٹ رہتا تھا۔ اسے اپنے لمبے قد اور چال ڈھال پر بڑا ناز تھا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ میں سب سے اعلیٰ ہوں۔ اس کا جہاں جی چاہتا منہ اْٹھا کر چلا جاتا اور سب جانوروں سے بدتمیزی کرتا رہتا۔ کوئی جانور اگر اسے چھیڑتا تو وہ اس کے پیچھے پڑ جاتا۔ اس کے گھر کے قریب چوہے کا بل تھا اور اونٹ کو اس چوہے سے سب سے زیادہ نفرت تھی۔ وہ اس چوہے کو نہ جانے کیا کیا القابات دیتا رہتا لیکن چوہا ہنس کے ٹال دیتا تھا۔ جنگل کے سب جانور ہی اونٹ سے اس کے تکبر کی وجہ سے تنگ تھے اور چاہتے تھے کہ اسے اس کے کیے کی سزا ملے مگر ابھی تک اونٹ کو کھلی چھٹی ملی ہوئی تھی۔

پہیلیاں

ہو اگر بخار کا مارا کیوں نہ چڑھے پھر اُس کا پارہ (تھرما میٹر)

بکری میری بھولی بھالی

بکری میری بھولی بھالی بکری میری بھولی بھالی کچھ تھی بھوری کچھ تھی کالی

ذرامسکرایئے

ماں : گڈو ! میں نے پلیٹ میں کیک رکھا تھا ، وہ کہاں گیا؟ گڈو : امی مجھے ڈر تھا کہ کیک کہیں بلی نہ کھا جائے ، اس لیے میں نے کھا لیا۔ ٭٭٭