اردونظم روایت سے جدیدیت تک
اردو میں نئی نظم کا تجربہ اردو شاعر کی کلاسیکی روایت سے پھوٹا ہے۔ آریائوں اور دراوڑوں کے تہذیبی تصادم نے گیت کو جنم دیا اور ہندوستان میںغزل جیسی بھرپور اظہار والی صنف معرض وجود میں آئی۔ نظم کی روایت قدیم مثنویوں تک اپنی جڑیں رکھتی ہے تاہم اس کا انفرادی تشخص اوّل اوّل اس وقت ظاہر ہوا جب ہند وستان میں انگریزی تہذیب کے تصادم سے اردو شاعری میں نیچر پسندی کے رجحان کو فروغ حاصل ہوا۔
مولانا محمد حسین آزاد جو اس رجحان کے بڑے علمبردار تھے۔ انہوں نے تب اردو شعراء کو نظم کی طرف یوں متوجہ کیا: ’’اب رنگ زمانہ کچھ اور ہے۔ ذرا آنکھیں کھولیں گے تو دیکھیں گے کہ ضاعت و بلاغت کا عجائب خانہ کھلا ہے جس میں یورپ کی زبانیں اپنی اپنی تصانیف کے گلدستے، ہار، طرے، ہاتھوں میں لئے حاضر ہیں اور ہماری نظم خالی ہاتھ الگ کھڑی منہ دیکھ رہی ہے لیکن اب وہ بھی منتظر ہے کہ کوئی باہمت ہو جو میرا ہاتھ پکڑ کر آگے بڑھائے‘‘۔
مولانا محمد حسین آزاد کے زیر اثر اسماعیل میرٹھی، چکبست، نادر کا کوروی اور حالی جیسے شعراء نے نظم میں اپنے اپنے تجربات کئے۔ تقریباً اسی حوالے سے ان رویوں سے ہٹ کر کچھ عرصہ پہلے نظیر اکبر آبادی ایک مخصوص انداز کی عوامی شاعری شروع کر چکے تھے جسے نظم کے ارتقاء میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
مولانا محمد حسین آزاد کی مثنویاں فی ذاتہٖ نظمیں تھیں۔’’مثنوی ابر کرم‘‘، مثنوی صبح امید‘‘،’’ مثنوی حب وطن‘‘ یہ سب بنیادی طور پر نظمیں تھیں۔ حالی کو چھوڑ کر آزاد کے زیر اثر لکھنے والے تمام شعراء کے ہاں نظم کے تقاضوں کی کاوشیں زیادہ تر مصنوعی نظر آتی ہیں جس کی وجہ سے ان کے ہاں تخلیقی جوہر کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ ان کے برعکس نظیر اکبر آبادی اپنی عوامی نظموں میں اور مولانا حالی اپنی ملی نظموں میںتخلیقی لحاظ سے بے حد زرخیز دکھائی دیتے ہیں۔ حالی اور نظیر کی روایتیں اقبالؒ کے ہاں یکجا ہوئیں تو پابند نظموں کے تمام ممکنات کھل کر سامنے آ گئے اور پھر پابند نظم سے آزاد نظم کا سفر شروع ہوا۔ تصدیق حسین خالد، میر اجی، ن، م راشد اور مختار صدیقی اس نئے سفر کے اہم شعراء تھے۔ اسی اثناء میں ترقی پسند تحریک کا آغاز ہوا۔ تحریک میں بڑی گھن گرج تھی۔ اس لئے آزاد نظم والوں کی آواز قدرے دب گئی۔ ترقی پسندوں نے زیادہ تر قافیے کی پابندی والی نظمیں کہیں۔ یہ نظمیں عمومی طور پر نعرے بازی کاشکار ہو کر رہ گئیں۔ چنانچہ پابند نظموں کے شائق ترقی پسندوں نے بھی مجبوراً آزاد نظمیں کہیں۔ ترقی پسند تحریک سے وابستہ اہم شعراء میں فارغ بخاری کی نظم ’’دائرے‘‘، ظہور نظر کی‘‘، ’’ شہر سبا‘‘ اور ’’ اس پار‘‘ اور عارف عبدالمتین کی ’’گمشدہ کڑی‘‘ کو ترقی پسند نظم کے ارتقا میں بنیادی اہمیت دی جا سکتی ہے۔ فیض احمد فیض اور احمد ندیم قاسمی ترقی پسندوں کے بے حد اہم اور بڑے شعراء میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کے ہاں پابند نظم سے آزاد نظم کا سفر بڑا حیران کن اور مسرت انگیز ہے۔ فیض کی آخری چند بڑی نظموں میں سے ایک نظم ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کا ایک حصہ ملاحظہ فرمائیں:
سر کوئے ناشناساں، ہمیں دن سے رات کرنا
کبھی اس سے بات کرنا، کبھی اس سے بات کرنا
جو ملے نہ کوئی پرساں، بہم التفات کرنا
ہمیں یہ بھی تھا غنیمت جو کوئی شمار ہوتا
ہمیں کیا بُرا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا
تاہم احمد ندیم قاسمی کا کمال ہے کہ انہوں پرانی معنویت کو نئی لفظیات میں سمیٹ لیا اور یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ ترقی پسند شعراء کی نظموں سے نعرے بازی خارج کر دی جائے تو باقی بچنے والی نظموں کا بیشتر حصہ تخلیقی سے زیادہ اکتسابی نظر آتا ہے اس کے برعکس داخلیت پسندوں کے ہاں ترجمے کا عمل بھی تخلیقی محسوس ہوتا ہے۔
میرا جی کے ہاں جنسی جذبے جن ناآسودہ صورتوں میں ظاہر ہوئے اس کی صرف ایک چھوٹی سی مثال :
ہاتھ آلودہ ہے، نمدار ہے، دھندلی ہے نظر
ہاتھ سے آنکھوں کے آنسو نہیں پونچھے تھے
میرا جی کی تقلید جب خواتین نے کی تو ایک تہلکہ سا مچ گیا۔ فہمیدہ ریاض کی نظمیں ’’مقابلہ حسن‘‘، ’’زبانوں کا بوسہ‘‘، ’’ابد‘‘، ’’لائو ہاتھ اپنا لائو ذرا‘‘ اور کشور ناہید کی نظمیں ’’کلیرنس سیل‘‘، ’’ تم سے‘‘ وغیرہ نے نو آموز شاعرات پر شدید اثرات مرتب کئے۔ پروین شاکر اس لحاظ سے منفرد اور اہم شاعرہ ہے کہ اس نے فہمیدہ ریاض اور کشور ناہید کے ’’ کھلے ڈُلے‘‘ شعری احساسات کو ایک لطیف پیرایۂ اظہار دے دیا۔
فیض احمد فیض اور میرا جی کے اثرات سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن یہ حقیقت ہے کہ جدید نظم پر سب سے زیادہ اثرات ن،م راشد نے مرتب کئے۔ راشد نے ’’ ایران میں اجنبی‘‘ کی فارسیت سے جہاں نظم کا اس کی قدیم شعری، روایت سے تعلق کا تخلیقی سطح پر اقرار کیا وہیں ’’لا =انسان‘‘ میں انسان کی نا معلوم قیمت کو کائناتی اسرار و رموز کے حوالے سے دریافت کرنے کی کاوش کی۔ یوسف ظفر، مجید امجد اور وزیر آغا کی نظمیں دراصل راشد کی نظمیہ شاعری سے آگے کا سفر ہیں۔