سیاسی قیادت کے مل بیٹھنے کی ضرورت اور امکانات

تحریر : سلمان غنی


صوبائی دارالحکومت لاہور میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے اعلیٰ سطحی اجلاس کا مقصد تو موجودہ حالات پر غورو خوض اور حکومتی کارکردگی کا جائزہ تھا مگر اجلاس کے حوالے سے پارٹی لیڈر میاں نوازشریف کے اس بیان اور اعلان نے سیاسی حلقوں میں ہلچل پیدا کر دی کہ موجودہ ملکی حالات میں سیاسی قیادت کو مل بیٹھنا چاہئے اور مل کر فیصلے کرنے چاہئیں۔

مذکورہ اجلاس سے ایک روز قبل وزیراعظم شہبازشریف نے جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن سے اُن کی رہائش گاہ پر  ملاقات کی تھی اور مسلم لیگ (ن) کے اجلاس میں بھی مولانا فضل الرحمن سے مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا، لہٰذا ایک بات تو واضح ہے کہ خود مسلم لیگ (ن) کے اندر بھی موجودہ صورتحال میں اہل سیاست سے مل بیٹھنے کے حوالے سے تحریک موجود ہے۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت اور خصوصاً وزیراعظم شہبازشریف اس پر پیش رفت کر پائیں گے۔ اپنے دورۂ چین سے قبل وزیر اعظم شہباز شریف پارلیمنٹ کے فلور پر پی ٹی آئی کی لیڈر شپ کو ان کے معاملات اور جیل میں سہولتوں پر بات چیت کی پیشکش کر چکے ہیں لیکن اس اجلاس میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے وزیراعظم کی پیشکش کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا کہ حکومت عوامی تائید سے عاری ہے لہٰذا ان سے مذاکرات نہیں ہو سکتے۔

 ملک کے معاشی اور سیاسی حالات کا جائزہ لیا جائے تو مفاہمت ایک قوی ضرورت ہے لیکن عملاً صورتحال مختلف نظر نہیں آ رہی ہے۔ اس کی وجہ 9مئی کے واقعات ہیں۔ اس حوالے سے وزیراعظم شہبازشریف بھی متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ ان واقعات کے ذمہ داران قابلِ معافی نہیں ۔وفاقی وزراخواجہ آصف ، احسن اقبال اور دیگر بھی اسی نقطہ نظر کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ 9مئی کے واقعات کے ذمہ داران اپنے عمل پر شرمندگی کا اظہار نہیں کرتے تو ان سے بات نہیں ہو سکتی۔ دوسری جانب تحریک انصاف کی لیڈر شپ اس پر ندامت ظاہر کرنے کے بجائے جوڈیشنل کمیشن کا مطالبہ کرتی نظر آتی ہے۔ معاملات اور مذاکرات کی راہ میں یہ ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ اگر حکومت مذاکرات میں سنجیدہ نہیں تو پی ٹی آئی کی لیڈر شپ بھی مسلم لیگ (ن) ،پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم سے ہر طرح سے مذاکرات کی مخالف ہے، مگر دوسری جانب محمود خان اچکزئی جیسے سینئر سیاستدان کو مذاکرات کا مینڈیٹ دیتے ہوئے یہ بھی کہتی نظر آتی ہے کہ وہ سیاسی قوتوں سے مذاکرات کریں۔سوال یہ ہے کہ اگر مسلم لیگ (ن) ، پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم سے مذاکرات نہیں تو پھر کن قوتوں سے مذاکرات کریں گے؟ مذاکرات کا معاملہ اعلانات اور بیانات تک محدود ہے، اس حوالے سے کوئی پیش رفت نظر نہیں آ رہی۔

 جہاں تک مسلم لیگ( ن) کے قائد میاں نوازشریف کا اپنی جماعت کے اجلاس میں بجلی کے مہنگے بلوں پر تنقید اور عوام کیلئے ریلیف کی بات ہے تو وہ اپنی حکومتوں کے تجربات کو موجودہ حکومت پر لاگو کرنا چاہتے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ وہ اپنی حکومتوں کے دور میں یہ کہتے نظر آتے تھے کہ حکومتیں دینے کیلئے ہوتی ہیں لینے کیلئے نہیں ۔ خصوصاً اشیائے ضروریہ کو عام آدمی کی دسترس میں رکھنے پر زور دیتے تھے اور اس کیلئے کوشش بھی کرتے تھے مگر آج کے حقائق کا جائزہ لیا جائے تو صورتحال یکسر مختلف ہے۔ یہ درست ہے کہ وزیراعظم شہبازشریف نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا یا لیکن آئی ایم ایف کا سارے کا سارا لوڈ عام آدمی پر پڑ گیا خصوصاً بجلی کے بلوں نے تو عوام کی زندگیاں اجیرن کر دیں۔ ان کے گھروں کا بجٹ اَپ سیٹ ہو گیا اور کرایہ کے مکانوں میں رہنے والوں کا بجلی کا بل اَب کرایہ سے بھی زیادہ آنے لگا، لیکن حکومت کا کہنا ہے کہ مہنگائی کی شرح کو وہ سنگل ڈیجٹ میں لے آئے ہیں ۔یا تو انہیں زمینی حقائق کا ادراک نہیں یا وہ اپنے ان بیانات اور اعلانات سے حقائق سے صرفِ نظر برت رہے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ (ن)دفاعی محاذ پر کھڑی نظر آ تی ہے اور اپنے قائد نوازشریف کی ہدایت پر  عوام کو ریلیف دینے کی بجائے اعداد شمار پر اکتفا کر رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مہنگائی میں اضافہ ہوشربا ہے اور اس حوالے سے صوبائی حکومتیں اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برا نہیں ہو پا رہیں کیونکہ یہ گورننس کا معاملہ ہے جو حقیقت نہیں بن پا رہا۔

بلوچستان کے وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی بلوچستان میں 26اگست کے واقعات میں شہید ہونے والے نوجوان کیپٹن محمد علی قریشی کی شہادت پر اظہارِ تعزیت کیلئے لاہور آئے تو لاہور کے سینئر صحافیوں اور اینکرز پرسنز سے بھی مقامی ہوٹل میں ان کی ملاقات ہوئی۔اس موقع پر انہوں نے بلوچستان میں دہشت گردی ، اس کے محرکات اور بی ایل اے کے کردار سمیت حکومتی  کارکردگی پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا ۔گو کہ انہوں نے اپنی اس بریفنگ کو آف دی ریکارڈ قرار دیا لیکن یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ انہیں بلوچستان کے سلگتے مسائل کا ادراک ہے اور وہ انہیں حل کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ انہوں نے بلوچستان میں دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل کئے جانے والوں پر اہلِ پنجاب سے اظہار ِیکجہتی کیا اور کہا کہ دہشت گرد دہشت گردہیں ہم انہیں بلوچ نہیں سمجھتے اور دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل کئے جانے والے پاکستانی ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ پنجاب نے بلوچستان کی تعمیر و ترقی کیلئے این ایف سی کے ذریعہ اپنا حصہ بلوچستان کو دے کر اعلیٰ ظرفی کا ثبوت دیا جس پر ہم اہل پنجاب کے مشکور ہیں۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان  نے یہ بھی تسلیم کیا کہ اسلام آباد بلوچستان کے مسائل کے حل کے حوالے سے سنجیدہ ہے اور فنڈز  کی فراہمی سمیت ہر طرح سے دہشت گردی کے سدباب میں معاونت کی جا رہی ہے۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ یہ امر ڈھکا چھپا نہیں کہ بلوچستان میں دہشت گردی میں بھارت ملوث ہے اور یہاں سرگرم عمل بعض بلوچ رہنمائوں اور بی ایل اے کو راء فنڈز دے رہی ہے۔ وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی کے خیالات اور جذبات میں تشویش کے پہلو بھی نمایاں تھے البتہ وہ دہشت گردی کے مسئلہ کو سیاسی کی بجائے علیحدگی پسندی کا شاخسانہ قرار دے رہے تھے جبکہ بلوچستان کے حقائق کا جائزہ لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ اگر مسائل کا سیاسی حل نکالا جاتا اور بلوچستان کے عوام اور نوجوانوں کی محرومی کا خاتمہ اور ان کے مسائل کا حل نکالا جاتا تو بلوچستان میں یہ صوتحال پیدا نہ ہوتی، لہٰذ آج کی بڑی ضرورت مسائل کا سیاسی حل ہے۔ طاقت کا استعمال وقتی طور پر تو امن بحال کر سکتا ہے لیکن جب تک سیاسی عمل نہ چلے اور لوگوں کے مسائل حل نہ ہوں تو مستقل امن قائم نہیں ہو سکتا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

سنی سنائی باتیں بغیر تحقیق کے نہ آگے پہنچائیں!

قرآن پاک کی سورۃ الحجرات کی آیت نمبر 6 میں ارشاد ربانی ہے ’’ اے ایمان والو! اگر آئے تمہارے پاس کوئی گناہگار خبر لے کر تو تحقیق کر لو، کہیں جا نہ پڑو کسی قوم پر نادانی سے پھر کل کو اپنے کئے پر لگو پچھتانے‘‘ ۔یہ آیت حضرت ولیدؓ بن عقبہ بن ابی معیط کے بارے میں نازل ہوئی ہے، جنہیں رسول اللہﷺ نے بنو مصطلق کی طرف زکوٰۃ وصول کرنے کیلئے بھیجا تھا۔

غیبت:گناہ کبیرہ

ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اے لوگوں جو ایمان لائے ہو بہت گمان کرنے سے پر ہیز کرو کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں، تجسس نہ کرو، اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے، کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے، تم کو اس سے گھن آئے گی اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے (سورۃ الحجرات :12)

حدود فراموشی اللہ کی ناراضگی کا سبب

انسان حدود فراموشی کا مرتکب اس وقت ہوتا ہے جب خوف خدا نہ رہے یا حساب آخرت کا خوف نہ رہے

مسائل اور ان کا حل

مال یا فصل سے چوری کی صورت میں مالک کو اجروثواب ملنے کا مسئلہ سوال : اگرکوئی چورکسی شخص کے لگائے ہوئے شجر، قیمتی درخت کوچوری کرکے کاٹ کرلے جائے یاکوئی اور چیز نقدی، مال یاغلہ وغیرہ چوری کرکے لے جائے توکیا اس پر مالک کواللہ تعالیٰ کی طرف سے اجرملتاہے؟اورکیاوہ چیزمالک کی طرف سے صدقہ ہو جاتی ہے بغیر نیت کئے؟ (اے آر چودھری، ٹوبہ ٹیک سنگھ)

6ستمبر1965جب شکست بھارت کا مقدر بنی

ستمبر کی یہ جنگ کوئی عام جھڑپ یا کوئی معمولی جنگ نہ تھی بلکہ یہ جنگ درحقیقت پاکستان کو ہڑپ کر جانے یا پھر اسے اپاہج بنا دینے کی ایک بھیانک کارروائی تھی۔ جس کا پاکستانی بہادر افواج نے مردانہ وار مقابلہ کیا اور بھارت کو ایسا منہ توڑ جواب دیا جس کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ بھارت کو اپنی فوجی طاقت پر گھمنڈ تھا جبکہ افواج پاکستان کو اپنی ایمانی قوت پر۔

جنگ ستمبر میں پاک فضائیہ کا کردار!

سترہ روزہ جنگ میں پاکستان نے بھارت کے 110طیارے تباہ کردیئے جبکہ پاکستان کے صرف 19طیارے تباہ ہوئے بھارتی پائلٹس پاکستانی شاہینوں سے اس قدر خائف و خوفزدہ تھے کہ وہ اپنے طیارے فضا میں بلند کرنے سے گریزاں تھے