سنی سنائی باتیں بغیر تحقیق کے نہ آگے پہنچائیں!
قرآن پاک کی سورۃ الحجرات کی آیت نمبر 6 میں ارشاد ربانی ہے ’’ اے ایمان والو! اگر آئے تمہارے پاس کوئی گناہگار خبر لے کر تو تحقیق کر لو، کہیں جا نہ پڑو کسی قوم پر نادانی سے پھر کل کو اپنے کئے پر لگو پچھتانے‘‘ ۔یہ آیت حضرت ولیدؓ بن عقبہ بن ابی معیط کے بارے میں نازل ہوئی ہے، جنہیں رسول اللہﷺ نے بنو مصطلق کی طرف زکوٰۃ وصول کرنے کیلئے بھیجا تھا۔
حضرت ولیدؓ بن عقبہ کی بنو مصطلق والوں سے پرانی دشمنی چلی آرہی تھی جب وہاں کے لوگوں کو معلوم ہوا تو اللہ اور رسول اللہﷺ کی تعظیم کی خاطر ان کے استقبال کیلئے بستی سے باہر آئے۔شیطان نے ان کو بہکایا کہ یہ لوگ قتل کے ارادہ سے آئے ہیں۔ چنانچہ حضرت ولیدؓ خوفزدہ ہو کر راستہ سے ہی واپس رسول اللہﷺ کے پاس آگئے اور حاضر خدمت ہو کر کہا کہ بنو مصطلق نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا ہے اور میرے قتل کا ارادہ کیا ہے۔ اس پر آنحضرتﷺ برافروختہ ہوئے اور ان پر لشکر کشی کا ارادہ فرمایا۔جب بنو مصطلق کے لوگوں کو حضرت ولیدؓ کی واپسی کا پتا چلا تو بارگاہ نبویﷺ میں حاضر ہوئے اور کہا کہ ہمیں آپﷺ کے قاصد کے آنے کی خبر ملی تو ہم ان کے اکرام و استقبال کیلئے بستی سے باہر آئے تاکہ ہماری طرف اللہ تعالیٰ کا جو حق (زکوٰۃ) ہے اس کو اداکریں لیکن یہ واپس ہی چلے آئے۔ ہمیں خدشہ ہوا کہ شاید یہ اس لئے راستہ سے ہی واپس آگئے ہیں کہ آنجنابﷺ کی طرف سے غضب بھرا مکتوب گرامی ان کو ملا ہو گا جس میں آپ ﷺ نے ہم پر ناراضگی کا اظہار کیا ہو، ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہﷺ کے غضب سے پناہ پکڑتے ہیں۔ بعض روایات میں یہاں تک بھی آیا ہے کہ نبیﷺ نے حضرت خالد بن ولیدؓ کی سرکردگی میں ایک دستہ بھی روانہ فرمایا، جیسے ہی دستہ روانہ ہونے لگا تو ادھر سے وہ لوگ بھی آگئے اور انہوں نے ساراواقعہ نبیﷺ کو بتا دیا، جس پر مذکورہ آیت نازل ہوئی۔
حدیث مبارکہ ہے، حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’آدمی کے جھوٹا ہونے کیلئے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات (بلا تحقیق)بیان کردے‘‘ (صحیح مسلم)۔آج کل معاشرے میں بے چینی اور بے سکونی کا بہت بڑا سبب افواہیں ہیں۔ عربی زبان میں افواہ ’’فوہ‘‘ کی جمع ہے، یعنی کئی منہ چنا نچہ افواہ میں بھی یہی ہوتا ہے کہ جتنے منہ اتنی باتیں۔ اردو میں بے بنیاد بات کو افواہ کہتے ہیں اور عربی زبان میں افواہ کو ’’شائعۃ‘‘ کہتے ہیں۔ اسلام نے مومن کی شان یہ بیان کی کہ مسلمان نہ دھوکہ دیتا ہے اور نہ دھو کہ کھاتا ہے، لہٰذا ایمان والے کی شان یہ ہے کہ وہ غلط کہہ کر دوسرے کو دھوکہ نہیں دیتا، یہ اس کی شرافت کی علامت ہے اور کسی سے دھو کہ نہیں کھاتا یہ اس کے سمجھدار اور ہوشیار ہونے کی نشانی ہے۔
رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں کفار کا ایک شاعر ابو عز ہ مسلمانوں کے خلاف اشعار کہہ کر کفار کو جنگ میں بھڑکا تا تھا۔ جنگ بدر میں یہ شاعر گرفتار ہوا لیکن آپ ﷺ کے سامنے وعدہ کیا کہ اگر اس مرتبہ چھوڑ دیا جائے تو وہ آئندہ مسلمانوں کے خلاف اشعار نہیں کہے گا۔ آپ ﷺنے اسے چھوڑ دیا لیکن اس نے رہائی کے بعد دوبارہ مسلمانوں کے خلاف کفار کو اکسانا شروع کر دیا۔ غزوہ اُحد میں دوبارہ گرفتار ہوا پھر معافی مانگنے لگا۔ لیکن آپﷺنے اس کے قتل کا حکم جاری فرمادیا اور ساتھ یہ فرمایا کہ مومن کو ایک سوراخ سے دو دفعہ نہیں ڈسا جا سکتا۔ یہ بات ایمان والے کی ہوشیاری اور سمجھداری کی دلیل ہے۔
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’ سنی ہوئی بات دیکھی ہوئی بات کی طرح نہیں ہوتی‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے بھی سورۃ الحجرات کی آیت 6 میں ارشاد فرمایا:اے ایمان والو، اگر تمہارے پاس کوئی گنہگارخبر لے کر آئے تو تحقیق کر لو کہیں تم کسی قوم پر نادانی میں نہ پڑو پھر تم بعد میں اپنے کیے پر یشان ہونے لگو حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اکثر لڑائی جھگڑوں کی ابتداء جھوٹی خبروں سے ہوتی ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اختلاف کے اسی سر چشمہ کو بند کرنے کی تعلیم دی اور یہ ہدایت کی کہ بلا تحقیق کسی خبر کو قبول نہیں کرنا چاہیے۔لہٰذا جب تک کسی بری خبر کی تصدیق نہ ہو جائے یا اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لے دوسرے کو وہ نہیں بتانی، چاہیے یہ بات درست ہے۔
سو رۃ البقرہ کے آغاز میں اللہ تعالیٰ نے متقین کی یہ صفت بیان فرمائی ہے کہ وہ ان دیکھی بات یعنی غیب پر ایمان رکھتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ مسلمان کو ہر ان دیکھی بات پر یقین کرنے کا حکم نہیں اگر وہ خبر اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے دی ہے تو بے چون و چرا اس پر ایمان لانے کا حکم ہے لیکن اس کے علاوہ خبر کے جو عام ذرائع ہیں ان میں جھوٹ کا احتمال موجود ہے، اس لیے رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: ’’کسی شخص کے جھوٹا ہونے کیلئے اتنی بات کافی ہے کہ وہ ہرسنی سنائی بات بیان کرتا پھرے۔ لہٰذا افواہیں پھلانے میں ایک تو جھوٹ بولنے کا گناہ ہوا اور پھر اگر خود جھوٹ بول رہا ہے دوسرا اسے سچا سمجھ رہا ہے تو یہ ایک اور بددیانتی ہے۔ ابوداؤد میں حضرت سفیانؓ سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ’’یہ بہت بڑی خیانت ہے کہ تو اپنے بھائی سے کوئی بات کہے اور وہ تجھے سچا سمجھ رہا ہو حالانکہ تو اس سے جھوٹ بول رہا ہے‘‘۔
اب سوال یہ ہے کہ آخر افواہیں پھیلانے والوں کو ملتا کیا ہے؟ جب ماہرین نفسیات نے اس بارے میں انسانی ذہنوں اور طبیعتوں کا مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ انسانی طبیعت میں یہ بات شامل ہے کہ وہ دوسرے کے دکھ کو بیان کر کے لذت و سرور محسوس کرتا ہے لیکن یہ جب ہی ہوتا ہے کہ جب ان دونوں کے درمیان محبت کے بجائے دشمنی بغض اور نفرت موجود ہو۔ اگر دونوں کے درمیان محبت موجود ہو تو کبھی اس کے دکھ کو بیان کر کے لذت محسوس نہیں کرے گا۔
اسلامی تعلیمات میں مسلمانوں کو خصوصی طور پر یہ سبق دیا گیا ہے کہ اپنے بھائی کو مصیبت اور تکلیف میں دیکھ کر کبھی خوش نہ ہونا ورنہ اس کا انجام بہت برا ہے اس لیے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اپنے بھائی کسی مصیبت میں مبتلا دیکھ کر خوش نہ ہونا ورنہ اللہ تعالیٰ اس مصیبت زدہ پر رحم کرے گااور تجھے اس مصیبت میں مبتلا کر دے گا۔ماہرین نفسیات کے تجزیہ کے مطابق افواہیں پھیلانے کا ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ دوسرے لوگوں کو خوف میں مبتلا کیا جائے کیونکہ یہ چیز بھی انسانی طبیعت میں ہے کہ دوسرے کو ڈرا کر خوفزدہ کر کے لذت محسوس ہوتی ہے یا دوسرے کو خوفزدہ کر کے اپنا مقصد پورا کر لیا جاتا ہے۔ اسلام نے اس چیز کا بھی خاتمہ کیا۔
ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺاور صحابہ کرامؓ سفر میں تھے ایک شخص سور ہا تھا، ایک صاحب اٹھے اور سونے والے کے قریب جا کر اس کے پاس پڑی ہوئی رسی اٹھالی، سونے والا اس سے ڈر گیا، اس پر رسول اللہ ﷺنے فرمایا: کسی مسلمان کیلئے یہ جائز نہیں کہ وہ کسی مسلمان کو ڈرائے اور یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ افواہیں پھیلانے کا سبب شیطان ہی ہے۔ جیسا کہ صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا قول منقول ہے، فرماتے ہیں کہ بسا اوقات شیطان کسی آدمی کی صورت اختیار کر کے ایک جماعت کے پاس آتا ہے اور اس سے جھوٹی باتیں کہتا ہے، پھر یہ جماعت منتشر ہو جاتی ہے اور ان میں سے ایک آدمی کہتا ہے میں نے ایک شخص کو یہ بات بتاتے ہوئے سنا، میں اسے چہرے سے پہچانتا ہوں لیکن میں اس کا نام نہیں جانتا۔اس لیے ایک مسلمان کی شان یہی ہے کہ و ہ سنی سنائی بات بغیر تحقیق اور اعتماد کے بیان نہ کرے۔
بخاری اور مسلم میں حضرت ابوہریرہؓ سے منقول روایت میں ایک یہ بھی ارشاد نبوی ہے کہ ’’جو شخص اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو تو اسے چاہیے کہ بھلائی کی بات کہے یا خاموش رہے۔اور اگر کوئی بری بات سنے تو دوسرے لوگوں کو نہ بتائے‘‘۔ برائی کو ڈھانپ دینا ہی اللہ تعالیٰ کو پسند ہے اور اگر دوسرا شخص افواہیں پھیلاتے ہوئے کوئی بات کہے تو اسے منع کر دیا جائے کہ بغیر تحقیق کے بات نہ کرو، اگر وہ اپنی بات پر پختگی ظاہر کرے، اپنی معلومات کو یقینی ظاہر کرے تو پھر اس کے سامنے ان مصیبت زدہ اور پریشانی میں مبتلا لوگوں کیلئے دعائے خیر کر دے، اپنے آپ کو افواہوں کی لذت میں مبتلا ہونے سے ہر صورت بچائے اور اگر افواہیں سنا کر کوئی خوف پھیلانا چاہتا ہے تو ایمان کو پختہ رکھ کر کہنے والے کے سامنے ظاہر کر دے کہ انسان کو صرف اللہ ہی سے ڈرنا چاہیے۔ مخلوق سے ڈرنے کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور جو لوگ افواہوں کی وجہ سے خوف میں مبتلا ہوں انہیں بھی صبر وتحمل کرنا چاہیے۔ خوف الٰہی سے آشنا کیا جائے اور دلوں کو ذکر الٰہی میں مصروف کر لیا جائے اس سے دلوں میں ا طمینان وسکون آئے گا۔ اللہ تعالیٰ ہر طرح کی افواہیں پھیلانے والوں کو ہدایت نصیب فرمائے اور اہل معاشرہ کوخوف وہر اس سے نجات دے کر قلبی سکون نصیب فرمائے۔آمین