6ستمبر1965جب شکست بھارت کا مقدر بنی

تحریر : فاروق حارث العباسی


ستمبر کی یہ جنگ کوئی عام جھڑپ یا کوئی معمولی جنگ نہ تھی بلکہ یہ جنگ درحقیقت پاکستان کو ہڑپ کر جانے یا پھر اسے اپاہج بنا دینے کی ایک بھیانک کارروائی تھی۔ جس کا پاکستانی بہادر افواج نے مردانہ وار مقابلہ کیا اور بھارت کو ایسا منہ توڑ جواب دیا جس کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ بھارت کو اپنی فوجی طاقت پر گھمنڈ تھا جبکہ افواج پاکستان کو اپنی ایمانی قوت پر۔

 1965ء میں جذبہ حب الوطنی سے سرشار ہماری قوم الرٹ کھڑی ہوئی تھی جب دشمن نے زبردستی ہم پر جنگ مسلط کر دی تھی۔ پوری قوم اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن بھارت سے جنگ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئی۔ 17روز ہ اس پاک بھارت جنگ میں ہر فرد نے اپنا کردار ادا کیا جس میں ہماری مسلح اور بہادر افواج نے دشمن کو ناکوں چنے چبوا دئیے۔ 

 دنیا بھر کی بڑی عسکری قوتوں نے چھڑنے والی اس جنگ پر اپنے اپنے انداز اور تجربات کی بناء پر تجزیے شروع کر رکھے تھے اور بہت سی عالمی طاقتوں کا یہ خیال تھا کہ نومولود پاکستان بھارت کی اس فوجی قوت کا مقابلہ نہیں کر پائے گا اور بالآخر اسے اپنے بہت سے علاقوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے لیکن پاک افواج کے جذبۂ حب الوطنی اور جذبۂ شہادت نے دشمن کے تمام ناپاک منصوبوں کو خاک میں ملا کر رکھ دیا اور عسکری تجزیہ کاروں کی آنکھیں بھی خیرہ ہو کر رہ گئیں۔

 یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہم نے اپنے سے تین گنا بڑی فوجی قوت اور چار گنا بڑی عوامی طاقت کی اس یلغار کو نہ صرف روک لیا بلکہ شکست فاش سے دوچار کیا کہ اس وقت قوم کے دل اور افواج پاکستان کے دل ایک ساتھ دھڑکتے تھے اور یہی وہ امتیازی خصوصیت تھی جس نے ہمیں اس کڑی آزمائش سے سرخرو کیا۔ یعنی یہ بات برملا کہی جا سکتی ہے کہ اس جنگ میں قوم اور فوج کی کیفیت یک جان دو قالب کی مانند تھی اور اسی اجتماعی جوش و جذبے نے دشمن کے غرور و تکبر کو تہہ و بالا کرکے رکھ دیا لیکن بدقسمتی سے پاک افواج کے خلاف جس قسم کا رویہ و روش آج ہم اختیار کئے ہوئے ہیں اگر اسے روکا نہ گیا یا اس کا سدباب نہ کیا گیا تو خدا نخواستہ 71ء جیسا کوئی سانحہ ایک بار پھر رونما ہو سکتا ہے۔ لہٰذا فوجی سربراہان اور سیاسی قائدین پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ باہمی اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے قوم کے دلوں میں پیدا ہونے والی دوریوں کو قربت میں تبدیل کرنے کیلئے اپنا اہم کردار ادا کریں۔ اس لئے کہ ان حالات میں جبکہ دشمن ہمیں نگل جانے کی تیاریوں میں مصروفِ عمل ہے، ملک اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ستمبر کی اس جنگ کا اگر مطالعہ اور پھر موازنہ کیا جائے تو ہر چیز ہمارے سامنے نکھر کر آ جاتی ہے۔

تقسیم ہند کے وقت سرحدوں سے متعلق پاکستان کے ساتھ جو ناانصافی کی گئی وہ کوئی معمولی بات نہ تھی مگر اس کے ساتھ ہی جو اس سے بھی بڑی زیادتی کی گئی وہ ہندوستان کا کشمیر پر غاصبانہ قبضہ تھا جو کشمیری عوام کی مرضی و منشاء کے قطعی خلاف تھا لہٰذا اس ابتدائی دور میں جب کشمیری حریت پسندوں نے ہندوستان کی اس کارروائی کے خلاف مزاحمت و مداخلت کی تو اس پر اقوام متحدہ نے فوری طور پر صلح کرا دی اور یہ فیصلہ دیا کہ کشمیری عوام کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے کیلئے استصوابِ رائے کا حق حاصل ہے مگر ہندوستان کی ہٹ دھرمی اور میں نہ مانوں کی پالیسی نے ایک مستقل نزاع کی صورت پیدا کردی۔ یہی نہیں بلکہ حکومت ہند کشمیری مسلمانوں پر طرح طرح کے مظالم ڈھانے شروع کردیئے اور واویلا مچا دیا کہ کشمیر ہندوستان اور پاکستان کے مابین متنازعہ علاقہ نہیں بلکہ ہندوستان کا اٹوٹ انگ ہے۔ حالات بگڑتے بگڑتے اس نہج پر پہنچ گئے کہ ہندوستان نے پاکستانی سرحدوں پر جنگی کارروائیاں شروع کر دیں اور مئی1965ء میں ہندوستانی فوجوں نے رَن کچھ کی بعض چوکیوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کی مگر پاکستانی فوج کے مجاہدوں نے ہندوستانی فوجیوں کے چھکے چھڑا دیئے جس پر بھارتی لیڈر لال بہادر شاستری شدید بوکھلاہٹ کا شکار ہوئے اور کہا کہ ’’ اس کا بدلہ لینے کیلئے اب ہم اپنی مرضی کا محاذ کھولیں گے‘‘۔

 یہاں پر ایک بات نہایت اہمیت کی حامل ہے کہ ستمبر 1962ء میں بھارت اور چین کے درمیان جب جنگ ہوئی تو بھارت کے حمایتی ممالک نے چین کی مخالفت میں بھارت کو بے تحاشا اسلحہ و ہتھیار فراہم کئے جن میں سے کچھ ہتھیار تو اس نے چین کے خلاف استعمال کئے مگر لاتعداد ہتھیار استعمال کرنے کا بھارت کو موقع ہی نہ ملا اس لئے کہ دونوں ممالک کے درمیان اس جنگ کو بند کروا دیا گیا چنانچہ وہ اسلحہ بھارت نے اب پاکستان کے خلاف استعمال کرنا شروع کیا۔ بھارت کا خیال تھا کہ پاکستان عسکری اعتبار سے ایک کمزور ملک ہے اس لئے کہ جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو اس وقت ایک پلان کے تحت پاکستان کی فوجی قوت کو بھی نہایت قلیل و محدود کردیا گیا تھا اور یہی خبط بھارت کے سر پر سوار تھا کہ پاکستان اس کا مقابلہ کرنے کی   صلاحیت نہیں رکھتا چنانچہ اس نے 1965ء کے عین موسمِ بہار میں کشمیر میں کارگل کی چند ایک چوٹیوں پر قبضہ کر لیا لیکن اقوام متحدہ کی مداخلت پر مئی میں اسے یہ چوکیاں چھوڑنا پڑیں لیکن اس کے فوراً بعد ہی اس نے ٹیٹوال ، اوڑی اور چھمب کے علاقوں کی طرف پیش قدمی شروع کر دی اور پھر گجرات کے قصبہ اعوان شریف پر بمباری کر دی اور اس کے بعد بھارتی فوجیں پونچھ اور حاجی پیر پر قابض ہو گئیں۔ گویا اب ہندوستان رفتہ رفتہ کشمیر کی وادیوں سے نکل کر پاکستان کے علاقوں پر بھی قابض ہونے لگا تھا چنانچہ اس صورتحال کے پیش نظر پاکستان نے بھی چھوٹی سطح پر جوابی اور مدافعاتی کارروائیوں کا آغاز کیا اور اپنی سرحدوں کی حفاظت کیلئے سر دھڑ کی بازی لگا دی۔

یکم ستمبر 1965ء تک پاکستانی افواج نے چھمب جوڑیاں وغیرہ فتح کر لئے اور پاک افواج جب اکھنور کی طرف بڑھیں تو بھارتی افواج اپنے اِرد گرد کے علاقے چھوڑ کر اکھنور کی طرف بھاگیں تاکہ اسے بچایا جا سکے۔ اب کشمیر کے سرحدی علاقوں اور اہم راستوں پر پاکستانی حملوں اور فوج کا دبائو شدید ہو چکا تھا اور ایسا دکھائی دے رہا تھا کہ بہت جلد کشمیر فتح ہو جائے گا کہ اچانک 6ستمبر 1965ء کو ہندوستان نے لاہور پر حملہ کر دیا تاکہ پاکستانی فوجوں کی توجہ کشمیر سے ہٹائی جا سکے، چنانچہ 6ستمبر کی دوپہر ساڑھے بارہ بجے صدر پاکستان جنرل ایوب خان نے قوم اور پاک افواج کے نام ایک خصوصی اور یادگار تقریر کرتے ہوئے کہا کہ  ’’میرے عزیز ہم وطنو! پاکستان کے کروڑوں عوام کیلئے آزمائش کا لمحہ آن پہنچا ہے۔ ہندوستانی افواج نے آج صبح پاکستانی علاقوں کے اندر لاہور پر حملہ کر دیا ہے اور اسی طرح اس نے لاہور سے وزیر آباد جانے والی ایک مسافر ٹرین پر بھی ہوائی حملہ کیا ہے۔ اس نے ہماری سرحدوں پر حملہ کرکے اپنے مذموم ارادوں کا ثبوت فراہم کردیا ہے کیونکہ ہندوستانی حکمرانوں کو خود مختار اور آزاد پاکستان جس میں مسلمان امن و سکون سے رہ سکیں، یکسر ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ گزشتہ اٹھارہ برس سے ہندوستان کی تمام فوجی تیاریاں اور پیش بندیاں صرف ہمارے خلاف ہی ہیں۔ اب ہندوستانی حکمرانوں نے اپنی بزدلی کا کھلا ثبوت فراہم کرنے اور منافقتوں کا اظہار کرنے کیلئے اپنی فوجوں کو پاکستان کی مقدس سرزمین پر مارچ کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ ہندوستان کی یہ کارروائی باقاعدہ اعلانِ جنگ کے بغیر ہے۔ لہٰذا اب وقت آ گیا ہے کہ ہم دشمن پر سخت وار کریں اور ہندوستانی استعماریت کو ختم کرکے رکھ دیں۔ لا الہ اللہ محمد رسول اللہ کا ورد کرتے ہوئے دشمن کی توپوں کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خاموش کر دیجئے! آگے بڑھئے اور دشمن پر کاری ضرب لگایئے‘‘۔

6ستمبر کے دن پاک افواج نے بھارتی فوج کے 800سے زائد فوجی ہلاک کر دیئے اور پٹھان کوٹ پر حملہ کرکے بھارت کے 22طیارے تباہ کردیئے۔7ستمبر کو پاکستانی فوج نے بھارت کے ہر حملے کو بری طرح ناکام بنا دیا اور بھارت کے 31 طیارے مار گرائے۔ 8ستمبر کو لاہور کے محاذ پر بھارت کو شدید جانی نقصان اٹھانا پڑا اور بھارتی فوج اپنا جنگی سازو سامان چھوڑ کر فرار ہو گئے۔سیالکوٹ جمروں سیکٹر پر پاکستانی فوج نے بھارت کے 25ٹینک تباہ کر دیئے اور پانچ توپوں پر قبضہ کر لیا۔ پاکستانی شاہینوں نے اسی روز سرگودھا میں دشمن کے تین ہنٹر طیارے اور قصور میں دو طیارے مار گرائے جبکہ جودھ پور اور ہلواڑہ میں کامیاب فضائی حملے کرکے بھارتی فضائیہ کا پانچواں حصہ تباہ کر دیا۔9/10ستمبر کو بیدیاں کھیم کرن سیکٹر میں دشمن کو کئی میل دور دھکیل دیا۔11ستمبر کو پاکستانی افواج نے فیروز پور سیکٹر میں بھارت کے قصبے کھیم کرن پر قبضہ کر لیا۔ سیالکوٹ کے محاذ پر بھارت کے مزید 36ٹینک تباہ کر دیئے اور دو مزید جٹ طیاروں کو مار گرایا۔12ستمبر کو سیالکوٹ کے محاذ پر دشمن کے تمام ٹینک اور 123فوجی گاڑیاں تباہ کر دیں۔ اس شدید نقصان پر پچاس ہزار کے قریب بھارتی فوجی میدان چھوڑ کر پیچھے ہٹ گئے۔ ان سات دنوں میں پاکستانی افواج نے بھارت کے  187ٹینک تباہ کر دیئے اور کھیم کرن کے محاذ پر فورتھ سیکٹر رجمنٹ نے پاک فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے۔ 16ستمبر تک بھارت کے 336ٹینک اور 91طیارے تباہ ہو چکے تھے۔17ستمبر کو سیالکوٹ محاذ پر مزید41ٹینک اور 14توپیں تباہ کردی گئیں۔18ستمبر کو پاک فضائیہ نے بھارت کے مزید 6طیارے اور11ٹینک تباہ کر دیئے۔ اس طرح اس سترہ روزہ جنگ میں پاکستان نے بھارت کے 110طیارے تباہ کردیئے جبکہ پاکستان کے صرف 19طیارے تباہ ہوئے۔ پاک افواج نے بھارت کے475ٹینک تباہ کئے جبکہ پاکستان کے 165ٹینک تباہ ہوئے۔ بھارت کے نو ہزار 600فوجی موت کے گھاٹ اتارے گئے جبکہ پاکستان کے صرف 1200افسران و جوان شہید ہوئے۔ پاکستان نے بھارت کے 1617مربع میل رقبے پر قبضہ کیا جبکہ بھارت پاکستان کے کسی علاقے پر کوئی خاص قبضہ نہ کر سکا۔ اس جنگ میں پاک بحریہ بھی کسی سے پیچھے نہ تھی کہ اس نے ناقابل فراموش  کارکردگی سے دشمن کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ 

اس جنگ میں مکمل فوجی یکجہتی دیکھنے میں آئی۔23ستمبر کو جب جنگ بندی کا اعلان کیا گیا تو پوری قوم کو اس بات کا دُکھ تھا کہ جنگ کیوں بند کی گئی اس لئے کہ فوج اور قوم نے مل کر دشمن کو دن میں تارے دکھا دیئے تھے۔ دشمن کی حالت دیدنی تھی اور وہ اقوام متحدہ کے آگے لیٹا اس کے تلوے چاٹ رہا تھا کہ کسی بھی طرح اس جنگ کو رکوائیں ورنہ بھارت ختم ہو جائے گا۔ 

یہ تھا وہ جذبہ اور قومی اتحاد جس نے خود سے چار گنا بڑی قوت کو ناکوں چنے چبوا دیئے۔ آج ایک بار پھر ہمیں ایسے ہی اتحاد کی اشد ضرورت ہے تاکہ دشمن ہماری طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی بھی جرأت نہ کر سکے۔ نہ پاک افواج کے جذبۂ ایمانی میں کوئی کمی ہے اور نہ ہی قوم کی حب الوطنی پر کوئی شک، بس اگر کمی ہے توقیادت کی جو ان دونوں قوتوں کو آپس میں یک جان دو قالب کر سکے۔

 

پہلا فائر اور پہلا شہید

مصنف ایم  آر شاہد نے اپنی کتاب’’شہیدان وطن‘‘ میں بہت تحقیق کے بعد پاکستانی شہدا کا احوال پیش کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ6ستمبر کی صبح ٹھیک 3بج کر 45منٹ پر ہندوستان کی جانب سے واہگہ پر ایک گولہ آکر گرا جسے بھارت کی جانب سے پہلا فائر قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس موقع پر  موجود پلاٹون کمانڈر محمد شیراز چوکنا ہو گئے اور پوسٹ پر بھارت کی جانب سے مزید فائرنگ شروع ہو گئی اور محمد شیراز نے جوابی فائرنگ کی جو ستمبر کی تاریخی جنگ میں ابتداء تھی۔ اگرچہ یہ حملہ اچانک تھا لیکن پاکستانی سپاہیوں نے اس کا دلیرانہ مقابلہ کیا جب پاکستانی دستی بموں کی ضرورت پڑتی تو سپاہی رینگ کر کمک کے پاس آتے اور رینگ کر آگے موجود سپاہیوں کو بم تھماتے تھے۔ اسی اثناء میں محمد شیراز دشمن کی گولیوں سے شہید ہو کر جنگ ستمبر کے پہلے شہید کا اعزاز حاصل کر گئے۔

ٹینکوں کی سب سے بڑی جنگ

 اگرچہ جنگ عظیم دوم میں کئی ممالک کے لاتعداد ٹینک استعمال ہوئے تھے لیکن 1965ء کی جنگ میں بہت کم دنوں میں لگ بھگ 600 ٹینکوں نے حصہ لیا تھا، جس میں بھارت کے سنچورین ٹینک بھی شامل تھے۔ عددی برتری کے لحاظ سے بھارت کے پاس بہت اسلحہ تھا اور ان ٹینکوں کو ناکام بنانے کیلئے پاکستان کے عظیم سپاہیوں نے مادر وطن کی حفاظت کیلئے اپنے سینوں پر بم باندھ کر ٹینکوں کے نیچے لیٹ کر انہیں تباہ کر کے ناکارہ بنا دیا۔ بھارت میں چونڈہ کا مقام اب بھی ٹینکوں کے قبرستان کے نام سے مشہور ہے کیونکہ پاکستانی سپاہیوں نے بھارتی صفوں میں گھس کر ان کی سفلی تدابیر کو ناکام بنایا تھا۔ دوسری جانب میجر راجہ عزیز بھٹی شہید نے اسی طرح کے معرکے میں شجاعت اور عظمت کی نئی داستان رقم کی تھی۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

سنی سنائی باتیں بغیر تحقیق کے نہ آگے پہنچائیں!

قرآن پاک کی سورۃ الحجرات کی آیت نمبر 6 میں ارشاد ربانی ہے ’’ اے ایمان والو! اگر آئے تمہارے پاس کوئی گناہگار خبر لے کر تو تحقیق کر لو، کہیں جا نہ پڑو کسی قوم پر نادانی سے پھر کل کو اپنے کئے پر لگو پچھتانے‘‘ ۔یہ آیت حضرت ولیدؓ بن عقبہ بن ابی معیط کے بارے میں نازل ہوئی ہے، جنہیں رسول اللہﷺ نے بنو مصطلق کی طرف زکوٰۃ وصول کرنے کیلئے بھیجا تھا۔

غیبت:گناہ کبیرہ

ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اے لوگوں جو ایمان لائے ہو بہت گمان کرنے سے پر ہیز کرو کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں، تجسس نہ کرو، اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے، کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے، تم کو اس سے گھن آئے گی اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے (سورۃ الحجرات :12)

حدود فراموشی اللہ کی ناراضگی کا سبب

انسان حدود فراموشی کا مرتکب اس وقت ہوتا ہے جب خوف خدا نہ رہے یا حساب آخرت کا خوف نہ رہے

مسائل اور ان کا حل

مال یا فصل سے چوری کی صورت میں مالک کو اجروثواب ملنے کا مسئلہ سوال : اگرکوئی چورکسی شخص کے لگائے ہوئے شجر، قیمتی درخت کوچوری کرکے کاٹ کرلے جائے یاکوئی اور چیز نقدی، مال یاغلہ وغیرہ چوری کرکے لے جائے توکیا اس پر مالک کواللہ تعالیٰ کی طرف سے اجرملتاہے؟اورکیاوہ چیزمالک کی طرف سے صدقہ ہو جاتی ہے بغیر نیت کئے؟ (اے آر چودھری، ٹوبہ ٹیک سنگھ)

جنگ ستمبر میں پاک فضائیہ کا کردار!

سترہ روزہ جنگ میں پاکستان نے بھارت کے 110طیارے تباہ کردیئے جبکہ پاکستان کے صرف 19طیارے تباہ ہوئے بھارتی پائلٹس پاکستانی شاہینوں سے اس قدر خائف و خوفزدہ تھے کہ وہ اپنے طیارے فضا میں بلند کرنے سے گریزاں تھے

ساری نظریں سپریم کورٹ پر

عدالتی چھٹیاں ختم ہونے میں چار روز باقی ہیں، جس کے بعد ملکی سیاست اور عدالتی محاذ پر کئی ڈیویلپمنٹس ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ یوں تو ہر سال معمول کے مطابق ستمبر میں نئے عدالتی سال کا آغاز ہوتا ہے مگر اس بار نئے عدالتی سال کی اہمیت اس لئے بڑھ گئی ہے کہ عدالتی چھٹیوں کے دوران حکومت نے عدلیہ سے متعلق کئی اقدامات اٹھانے کی کوشش کی ، کئی پلان زیر غور ہیں اور کچھ پر عملدرآمد شرو ع ہو چکا ہے۔