ڈاکٹر وزیر آغا : ایک کثیر الجہت شخصیت

تحریر : حیدرقریشی


اُن کی تخلیقات کا کمال یہ ہے کہ اس میں اُن کامصنف خود سانس لے رہا ہوتا ہے ڈاکٹرانور سدید نے وزیر آغا سے ادب کی جو روشنی حاصل کی اس کا نتیجہ ہے کہ وزیر آغا سے تمام تر موانست کے باوجود انہوں نے کبھی بلا دلیل بات نہیں کی

کہ آ پ اپنا رتعارف…

ڈاکٹر وزیر آغاعالمی شہرت کے حامل مایہ ناز پاکستانی ادیب، دانشور، نقاد، محقق اور انشائیہ نگار تھے۔ وہ18 مئی 1922ء کو سرگودھا کے گاؤں وزیر کوٹ میں پیدا ہوئے۔ گورنمنٹ ہائی سکول سے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ پاس کیا۔ 1943ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے معاشیات میں ایم اے کیا۔ 1956ء میں ’’اردو ادب میں طنزومزاح‘‘ پر پنجاب یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ان کی ادبی زندگی کا آغاز 1945ء میں ہوا۔ ابتدا میں نصرت آرا نصرت کے نام سے نظمیں کہتے رہے اور نصیر آغا کے نام سے مضامین لکھے۔ 1949ء میں اپنے نام سے نظمیں اور مضامین لکھنے لگے۔ موصوف کی کئی ادبی حیثیتیں ہیں۔ان کے شعری مجموعوں میں ’’شام اور سائے‘‘ (نظمیں)، ’’دن کا زرد پہاڑ‘‘(نظمیں اور غزلیں)، ’’نردبان‘‘ (نظمیں)،’’آدھی صدی کے بعد‘‘(طو یل نظم)، ’’گھاس میں تتلیاں‘‘(نظمیں)نمایاں ہیں۔دیگر کتب میں خیال پارے، چوری سے یاری تک،دوسرا کنار، سمندر اگر میرے اندر گرے، پگڈنڈی سے روڈ رولر تک شامل ہیں۔

 

ہمارے ادب کا یہ المیہ رہا ہے کہ یہاں ادیبوں کی زندگی میں ان پر نہ ہونے کے برابر کام ہوتا ہے اور موت کے ساتھ ہی ان کی خوبیوں کی تلاش اور شمار کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ چند خوش قسمت ادیب ایسے ضرور ہیں جن کی زندگی میں ہی انہیں خراج تحسین پیش کیا گیا تاہم ان چند میں سے بھی بیشتر کو جو تحسین فراواں نصیب ہوئی اس میں تخلیقی کارنامے کم اور سیاسی وفاداری کے کمالات زیادہ مدنظر رکھے گئے۔

ڈاکٹر انور سدید نے ڈاکٹر وزیر آغا ایسی عہد آفریں ادبی شخصیت کی زندگی میں ہی ان کے بارے میں ایک پر مغز کتاب’’ ڈاکٹر وزیر آغا، ایک مطالعہ‘‘ لکھ دی ۔ان کی وزیر آغا سے عقیدت اور محبت کا تعلق کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں لیکن یہ ساری عقیدت اور محبت بھی تخلیقی سچائی اور علم کی روشنی سے پھوٹی ہے۔ کتاب کے دیباچہ میں ڈاکٹر انور سدید نے وزیر آغا سے اپنی محبت اور عقیدت کا جو ازان لفظوں میں فراہم کیا ہے ’’وزیر آغا نے میرے دل میں ادب کی بجھی ہوئی قندیل کو دوبارہ روشن کیا۔ نیز ادب کو حصول مقاصد کا وسیلہ بنانے کے بجائے مجھے اس کیلئے خون دل جلانے کا ذوق و شوق عطا کیا۔ انہوں نے مجھے اس کوہ کنی کا عادی بنایا جس کا حاصل نہ ’’شیریں‘‘ ہے اور نہ ’’ جوئے شیر‘‘ بلکہ جس کا ثمر تخلیقی نکتہ آفرینی کی وہ لذت حیات آفریں ہے جس سے روح سبکسار ہو جاتی ہے اور بدن کا تمام زنگ اتر جاتا ہے‘‘۔

انور سدید نے وزیر آغا سے ادب کی جو روشنی حاصل کی اس کا نتیجہ ہے کہ وزیر آغا سے تمام تر موانست کے باوجود انہوں نے کہیں بھی بلا دلیل بات نہیں کی۔ انہوں نے دلائل کے ساتھ اور ایک صاحب نظر مبصر کی حیثیت سے وزیر آغا کی ادبی خدمات کا جائزہ لیا اور تفصیل سے بتایا کہ انہوں نے ہمارے ادب کو کیا کچھ دیا‘‘۔سچی تخلیق کا کمال یہی ہوتا ہے کہ اس کا تخلیق کار اس میں خود سانس لے رہا ہوتا ہے اس کے برعکس محض نظریہ بردار ادیب جو نظریات کے جبر سے ہانپتے کانپتے تخلیق کا ڈھول پیٹتے ہیں ان کی تخلیقات میں ان کی ذات کا سایہ تک نظر نہیں آتا۔

ڈاکٹر انور سدید جدید نظم کے حوالے سے لکھتے ہیں: ’’ جدید نظم نے معنی کا معنی تلاش کرنے کیلئے بالعموم کو منزل قرار نہیں دیا بلکہ اسے محض وسیلے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ لفظ کا معنوی دائرہ محدود رہنے کے بجائے وسیع ہو گیا اور تجربے کو الفاظ میںڈبونے کے بجائے اس کو فطری سیال کیفیت میں پیش کرنا ممکن ہو گیا‘‘۔ اس کے بعد انور سدید نے ڈاکٹر وزیر آغا کی متعدد نظموں کے حوالے دے کر ان میں تجربے کو اس کی فطری سیال کیفیت میں دکھایا ہے۔ ساری کتاب ایسی دلیلوں سے بھری پڑی ہے۔ وزیر آغا کی شاعری کے مختلف امیجزہوا، شام، رات، صبح، دھوپ، سورج، روشنی، شہر، ماں، جنگل، شجر، دھرتی اور برکھا وغیرہ کو انور سدید نے ان کی پوری معنویتوں کے ساتھ واضح کیا ہے۔

وزیر آغا کی تنقید کے ضمن میں انور سدید نے ان کے نظام تنقید کو یوں بیان کیا ہے: ’’ ڈاکٹر وزیر آغا کے ہاں تنقید کا جو نظام مرتب ہوتا ہے اس نے کسی ایک سرچشمہ علم سے استفادہ نہیں کیا بلکہ یہ سب علوم کو روشنی کے ماخذ تصور کرتا ہے اور انہیں یکساں آزادی کے ساتھ مزید روشنی پھیلانے کیلئے استعمال کرتا ہے‘‘۔

ان کے تنقید نتائج کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’وہ نتیجے کو زورِ بازو سے ثابت کرنے کی بجائے اس کی کرنوں کو ہر چہار جانب بکھیرتے چلے جاتے ہیں اور ان کرنوں سے ہی قاری کو مرکزی نقطے کی طرف پیش قدمی کا راستہ دکھاتے ہیں‘‘۔

انور سدید نے وزیر آغا کی جملہ تنقیدی کتب کا بالتفصیل جائزہ لیا ہے ’’اردو شاعری کا مزاج‘‘ جیسی تہلکہ خیز کتاب کی اہمیت واضح کی ہے۔ ’’نظم جدید کی کروٹیں‘‘،’’ تنقید اور احتساب‘‘، ’’تنقید اور مجلسی تنقید‘‘، ’’ تصوراتِ عشق و خرد‘‘ وغیرہ کتب سے لے کر ان کے پی ایچ ڈی کے مقالہ ’’اردو ادب میں طنزو مزاح‘‘ تک تمام کتب کا جائزہ پیش کیا ہے۔

وزیر آغا پر عائد کئے جانے والے دھرتی پوجا کے الزام کو متعدد مقامات پر مضبوط دلائل سے رد کیا ہے لیکن اس الزام کی تردید اور وزیر آغا کے موقف کی وضاحت اور صداقت میں یہ دلیل پہلی بار سامنے آئی ہے کہ وزیر آغا کی اپنی دھرتی سبز رنگ کی ہے۔ اس سبز رنگت میں کسی سرکاری نظریہ برداری کے طور پر نہیں بلکہ ان کی اپنی ایمانیات کا حصہ ہوتے ہوتے ان کی پاکستانیت نمایاں ہے۔

 نظم ’’آ دھی صدی کے بعد‘‘ میں انور سدید نے ارض پاک سے وزیر آغا کی گہری محبت کو یوں تلاش کیا ہے:  ’’وزیر آغا کی اس نظم میں سبز رنگ جگہ جگہ پھیلا ہوا ہے۔ سبز رنگ دھرتی کی تخلیقی صلاحیت کا استعارہ ہے۔ یہ آنکھوں کو ٹھنڈک اور دل کو طراوت بہم پہنچاتا ہے۔ دھرتی کے حوالے سے یہ ارض پاکستان اور اس کے پرچم کی علامت ہے۔ وزیر آغا نے اس رنگ کو بار بار اپنے اوپر نچھاور کرکے ارض وطن سے گہری وابستگی کا ثبوت دیا ہے‘‘۔

ڈاکٹر وزیر آغا کی کتاب ’’تخلیقی عمل‘‘ اپنی جگہ اہمیت کی حامل کتاب ہے لیکن انور سدید کے مطالعہ نے اس کے بعض مخفی گو شے اجاگر کرکے اس کی زبردست اہمیت واضح کردی ہے۔ ’’تخلیقی عمل‘‘1970ء میں شائع ہوئی تھی اور وزیر آغا نے اس میں جست کی کارکردگی پر تخلیقی عمل کی بنیاد رکھی تھی۔ ڈاکٹر انور سدید یہ حیرت انگیز انکشاف کرتے ہیں کہ وزیر آغا نے ادب کے راستے جست کی کارکردگی پر تخلیقی عمل کا جو نتیجہ نکالا تھا مغرب میں پرگو جائن نے ٹھیک آٹھ برس بعد طبیعات کے راستے یہی نتیجہ اخذ کیا۔ 

وزیر آغا کے ہاں ادبی سطح پر ذہنی کشادگی کا احساس ہوتا ہے ’’ وزیر آغا کی تکنیک‘‘ کے تحت انور سدید نے وزیر آغا کا یہ حوالہ درج کیا ہے: ’’ایک نجی محفل میں اردو کے ایک بزرگ نقاد نے کسی کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ میرے لئے اس کتاب کو پسند کرنا ناممکن ہے۔ اس لئے کہ یہ تو میرے عقائد ہی کے خلاف ہے اور میں سوچنے لگا کہ ادب کی پرکھ کے سلسلے میں اگر عقیدے کو کسوٹی مقرر کیا جائے تو اس کے کیا نتائج برآمد ہوں گے؟‘‘۔

اردو انشائیہ اور وزیر آغا لازم و ملزم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انور سدید نے وزیر آغا کے مطالعہ میں اس حیثیت کو مضبوط دلائل کے ساتھ اجاگر کیا ہے۔ وزیر آغا کے انشائیہ ’’ چیخنا‘‘ کا اختتام ان لفظوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ ’’ میں جب اس چیخ کو سنتا ہوں تو مجھ پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور نجانے کیوں مجھے اپنا بچپن یاد آ جاتا ہے۔ یقیناً ریل کی اس چیخ کا میرے بچپن  سے کوئی گہرا تعلق ہے۔ لیکن کیسا تعلق، یہ بات میں نہیں جانتا‘‘۔ریل کی چیخ کو اپنے بچپن کے کسی انجانے تعلق سے مربوط کرنے کے باوجود وزیر آغا شعوری طور پر اس تعلق کی وضاحت نہیں کر سکتے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ غیر شعوری طور پر ان سے اس تعلق کی نوعیت بھی ظاہر ہو گئی ہے۔ 

 

منتخب اشعار

دن ڈھل چکا تھا اور پرندہ سفر میں تھا

سارا بدن لہو کا رواں مشت پر میں تھا

 

جاتے کہاں کہ رات کی باہیں تھیں مشتعل

چھپتے کہاں کہ سارا جہاں اپنے گھر میں تھا

 

حد افق پہ شام تھی خیمے میں منتظر

آنسو کا اک پہاڑ سا حائل نظر میں تھا

 

لو وہ بھی خشک ریت کے ٹیلے میں ڈھل گیا

کل تک جو ایک کوہ گراں رہگزر میں تھا

 

پاگل سی اک صدا کسی اجڑے مکاں میں تھی

کھڑکی میں اک چراغ بھری دوپہر میں تھا

 

اس کا بدن تھا خون کی حدت میں شعلہ پوش

سورج کا اک گلاب سا طشت سحر میں تھا

 

دھوپ کے ساتھ گیا ساتھ نبھانے والا

اب کہاں آئے گا وہ لوٹ کے آنے والا

 

رنگ اور روپ سے جو بالا ہے

کس قیامت کے نقش والا ہے

تول سکتا ہے کون خوشبو کو

پھر بھی ہم نے یہ روگ پالا ہے

 

کورے کاغذ کی سادگی پہ نہ جا

گنگ لفظوں کی اس ردا سے ڈر

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

ملتانی مٹی چہرے کی بہترین محافظ

موسم میں تبدیلی، فضائی آلودگی اور مضر صحت غذائوں کے منفی اثرات سب سے پہلے چہرے پر آتے ہیں جس کے نتیجے میں چہرے پر دانے، ایکنی، کیل مہاسے اور اُن کے سبب بد نما داغ دھبے بننے لگتے ہیں جن سے نہایت آسانی اور بغیر بھاری بھرکم رقم خرچ کیے جان چھڑائی جا سکتی ہے۔ملتانی مٹی کا قدیم زمانے سے استعمال چلا آ رہا ہے،

رہنمائے گھر داری جینز کیسے دھوئیں؟

جینز سے بنے رنگ دار ملبوسات کی دھلائی کا طریقہ ذرا الگ ہوتا ہے۔آج میں آپ کو کچھ ایسے طریقوں کے بارے میں بتائوں گی جن پر عمل کر کے نہ صرف یہ کہ کپڑے کا رنگ محفوظ رکھا جا سکتا ہے بلکہ اس کی عمر بھی بڑھتی ہے۔

باغیچہ سجائیں،صحت بنائیں

آپ کے گھر کی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ آپ کے گھر کا گارڈن بھی اگر سجا سنورا ہوتونہ صرف یہ گھر کے افرادکیلئے شگفتہ احساس کا باعث بنتا ہے بلکہ گھر میں آنے والے مہمانوں کی توجہ کا مرکز بھی بنتا ہے۔گھر کے باغیچے میں صبح اور شام کے وقت کی گئی ورزش سے آپ چاق و چوبند رہتی ہیں۔

آج کا پکوان : حیدر آبادی قبولی بریانی

اجزاء: چنے کی دال ایک کپ، چاول تین کپ،نمک حسب ذائقہ، سرخ مرچ پاؤڈر ایک کھانے کا چمچ، دہی(پھینٹ لیں) ایک کپ، ہلدی پاؤڈر ایک چائے کا چمچ، ادرک، لہسن پیسٹ دو کھانے کے چمچ، پیاز(سلائس کاٹ لیں)چار عدد، ہرا دھنیا، پو دینہ ایک کپ، ہری مرچیں چار عدد، گرم مصالحہ پاؤڈر دو کھانے کے چمچ، لیموں کا رس تین کھانے کے چمچ، تیل ایک کپ، دودھ کپ‘ ثابت گرم مصالحہ تھوڑا سا۔

کل49ویں برسی ن۔م۔راشد کی شعری کائنات

ن م راشد بیسویں صدی کے چند اہم شاعروں سے ایک ہیں، عام طور پر ان کی اہمیت کو اس عنوان سے تسلیم کیا جاتا رہا ہے کہ انہوں نے اردو میں آزاد نظم کو رواج دیا اور شاعری میں اظہار کے مختلف تجربے کئے۔ 1935ء سے لے کر 1947ء تک بلکہ اس کے بعد بھی چار چھ برس تک جس انداز کی تنقید ہمارے ادب میں خوب وزشت کی میزان بنی رہی وہ راشد کے اس کارنامے سے آگے کچھ اور نہیں دیکھ سکی۔

سوء ادب :ہمارے پرندے (طوطا 2)

طوطے کے حوالے سے سب سے زیادہ غلط کام یہ ہُوا ہے کہ دراصل یہ ت سے توتا ہے ،ط سے طوطا نہیں لیکن وہ اِس پر مُصر ہے کہ اِسے ط ہی سے لکھا اور پڑھا جائے یعنی وہ اپنی اِس بنیادی غلطی پر شرمندہ ہونے کی بجائے خوش بھی ہے اور مُصر بھی ۔