پرسکون زندگی کیلئے صبر کا دامن تھامے رکھیں!

تحریر : عابدہ ارشاد


شادی شدہ زندگی میں اختلاف ہونا عام بات ہے کیونکہ دو مختلف شخصیات کے درمیان اتفاق ہوگا تو اختلاف بھی ہوگا ۔ایک بات جان لیجئے، آخر آپ دونوں دو مختلف شخصیات ہیں۔ دونوں کے اپنے اپنے خیالات ہوں گے۔

 اپنے اپنے تصورات ہوں گے۔ اکثر لڑائی جھگڑوں کے دوران بہت کچھ کہا اور سنا جاتا ہے مگر سوچئے جھگڑنے کے باوجود بہت سے جوڑے خوشحال شادی شدہ جوڑے کہلاتے ہیں جبکہ لڑائی کے بغیر بھی کئی جوڑے اپنے رشتے سے مطمئن نہیں ہوتے۔شادی شدہ جوڑوں میں اپنائیت پیدا کرنا بہت ضروری ہے اور اس میں والدین اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ انہیں چاہئے کہ بیٹا اور بیٹی دونوں کو بتائیں کہ شادی شدہ زندگی میں صبر کی بے حد ضرورت ہوتی ہے۔ ایک دوسرے کو برداشت کرنا چاہئے۔ ایک دوسرے کی بات کو سمجھنا چاہئے۔ میاں بیوی میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر اختلاف ہونا فطری ہے لیکن معمولی باتوں کو طول دینا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔

لڑکی کا رشتہ آیا، دادی نے کہا گھر بھی ہے، آمدنی بھی ہے، اپنے بھی ہیں ’ہاں ‘ کردو۔ شادی ہوگئی۔ زندگی نشیب و فراز کے ساتھ گزر گئی۔ چند دہائیاں مزید گزر گئیں، پھر لڑکی کا رشتہ آیا۔ دادی نے کہا کہ گھر بھی ہے، تعلیم بھی ہے، آمدنی بھی ہے ’ہاں ‘ کردیتے ہیں۔ لیکن لڑکی نے اپنی ماں سے کہا ان کا اور ہمارا ماحول بہت مختلف ہے، ’ہاں ‘ مت کیجئے گا۔ ماں سمجھدار خاتون تھی اس کی سمجھ میں بات آگئی۔ رشتے سے معذرت کر لی۔ کچھ عرصہ مزید گزر گیا۔ اب وقت کچھ اور بھی بدل گیا۔ یہ حقیقت ہے کہ ہر زمانے کی ترجیحات اور ضروریات الگ ہوتی ہیں۔ ایک محنتی شریف لیکن غریب بچے کا رشتہ آیا۔ ماں نے سوچا کہ جب میری شادی ہوئی تب میرے شوہر بھی زیادہ امیر نہیں تھے، مگر محنتی تھے تو میں نے کچھ عرصہ مشکل لیکن مجموعی طور پر ایک اچھی زندگی گزاری۔ اس رشتے پر غور کرتے ہیں۔ 

لیکن بیٹی نے کہا ’’ماں مجھے امیر لڑکے سے شادی کرنی ہے۔ میں اپنی آدھی زندگی آپ کی طرح ترس ترس کر نہیں گزار سکتی۔ مجھے زندگی بھر رونا دھونا نہیں ہے ، اگر رونا  ہے ہی تو محل میں بیٹھ کر رونا جھونپڑی میں بیٹھ کر رونے سے کہیں بہتر ہے‘‘۔  ماں بیٹی کو سمجھانے لگی کہ ’’پیسہ آنے جانے والی چیز ہے، امیر ہونے سے زیادہ اچھا انسان ہونا زیادہ اہمیت رکھتا ہے ‘‘۔

اب لڑکیوں کی سوچ تبدیل ہوچکی ہے۔ اگرچہ اب بھی کچھ گھرانے ایسے ہیں جہاں بچیوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت پر بھی توجہ دی جارہی ہے اس کے باوجود آج کل زیادہ تر دوقسم کی لڑکیاں نظر آرہی ہیں۔ ایک وہ جو اپنے پائوں پر کھڑی ہیں ، خود کمارہی ہیں، خود اعتماد ہیں اور آرام دہ زندگی گزار رہی ہیں تو وہ اپنی آرام دہ اورپر سکون زندگی میں کسی کو شامل نہیں کرنا چاہتیں اور نہ کسی کو برداشت کرنا چاہتی ہیں۔ دوسری قسم وہ ہے جن کی نظر میں شادی کا مقصد روپیہ، پیسہ، آزادی اور بہترین طرز ِزندگی ہے۔ 

یہ دونوں نظرئیے درست نہیں ہیں۔ ہم والدین کا فرض ہے کہ اپنے بچوں پر نظررکھیں، ان کی تربیت پر نظر رکھیں۔ یہی بچے کل کے والدین ہیں۔ انہیں شادیوں سے پہلے ذہنی طور پر آنے والی ذمہ داریوں کیلئے تیار کریں۔ یہ درست ہے کہ آج کے دور میں جب انٹر نیٹ نے ساری دنیا بچوں کیلئے کھول کر رکھ دی ہے۔ شادیوں میں زیادہ دیر نہیں کرنی چاہئے لیکن انہیں ذہنی طور پر آئندہ ذمہ داریوں کیلئے تیار کرنا بہت ضروری ہے۔ اُن کے اندر صبر و تحمل کا جذبہ پیدا کریں۔ 

میاں بیوی کو اختلافات کے دوران  سمجھداری سے کام لینا چاہئے۔ بعض دفعہ غلط فہمی کی وجہ سے رشتے میں دوریاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ اس لئے غلط فہمی کو دور کرنے کی کوشش کریں۔ رشتے میں خاموشی کو آنے نہ دیں۔ اگر ایک فریق ناراض ہے تو سامنے والے کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسئلہ جاننے کی کوشش کریں اور ناراضی دور کریں۔ اس طرح زندگی آسان گزرے گی۔ 

 

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

ملتانی مٹی چہرے کی بہترین محافظ

موسم میں تبدیلی، فضائی آلودگی اور مضر صحت غذائوں کے منفی اثرات سب سے پہلے چہرے پر آتے ہیں جس کے نتیجے میں چہرے پر دانے، ایکنی، کیل مہاسے اور اُن کے سبب بد نما داغ دھبے بننے لگتے ہیں جن سے نہایت آسانی اور بغیر بھاری بھرکم رقم خرچ کیے جان چھڑائی جا سکتی ہے۔ملتانی مٹی کا قدیم زمانے سے استعمال چلا آ رہا ہے،

رہنمائے گھر داری جینز کیسے دھوئیں؟

جینز سے بنے رنگ دار ملبوسات کی دھلائی کا طریقہ ذرا الگ ہوتا ہے۔آج میں آپ کو کچھ ایسے طریقوں کے بارے میں بتائوں گی جن پر عمل کر کے نہ صرف یہ کہ کپڑے کا رنگ محفوظ رکھا جا سکتا ہے بلکہ اس کی عمر بھی بڑھتی ہے۔

باغیچہ سجائیں،صحت بنائیں

آپ کے گھر کی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ آپ کے گھر کا گارڈن بھی اگر سجا سنورا ہوتونہ صرف یہ گھر کے افرادکیلئے شگفتہ احساس کا باعث بنتا ہے بلکہ گھر میں آنے والے مہمانوں کی توجہ کا مرکز بھی بنتا ہے۔گھر کے باغیچے میں صبح اور شام کے وقت کی گئی ورزش سے آپ چاق و چوبند رہتی ہیں۔

آج کا پکوان : حیدر آبادی قبولی بریانی

اجزاء: چنے کی دال ایک کپ، چاول تین کپ،نمک حسب ذائقہ، سرخ مرچ پاؤڈر ایک کھانے کا چمچ، دہی(پھینٹ لیں) ایک کپ، ہلدی پاؤڈر ایک چائے کا چمچ، ادرک، لہسن پیسٹ دو کھانے کے چمچ، پیاز(سلائس کاٹ لیں)چار عدد، ہرا دھنیا، پو دینہ ایک کپ، ہری مرچیں چار عدد، گرم مصالحہ پاؤڈر دو کھانے کے چمچ، لیموں کا رس تین کھانے کے چمچ، تیل ایک کپ، دودھ کپ‘ ثابت گرم مصالحہ تھوڑا سا۔

کل49ویں برسی ن۔م۔راشد کی شعری کائنات

ن م راشد بیسویں صدی کے چند اہم شاعروں سے ایک ہیں، عام طور پر ان کی اہمیت کو اس عنوان سے تسلیم کیا جاتا رہا ہے کہ انہوں نے اردو میں آزاد نظم کو رواج دیا اور شاعری میں اظہار کے مختلف تجربے کئے۔ 1935ء سے لے کر 1947ء تک بلکہ اس کے بعد بھی چار چھ برس تک جس انداز کی تنقید ہمارے ادب میں خوب وزشت کی میزان بنی رہی وہ راشد کے اس کارنامے سے آگے کچھ اور نہیں دیکھ سکی۔

سوء ادب :ہمارے پرندے (طوطا 2)

طوطے کے حوالے سے سب سے زیادہ غلط کام یہ ہُوا ہے کہ دراصل یہ ت سے توتا ہے ،ط سے طوطا نہیں لیکن وہ اِس پر مُصر ہے کہ اِسے ط ہی سے لکھا اور پڑھا جائے یعنی وہ اپنی اِس بنیادی غلطی پر شرمندہ ہونے کی بجائے خوش بھی ہے اور مُصر بھی ۔