احسان اور حسن سلوک کا حکم!
احسان دین اسلام کی بنیادوں میں سے ہے۔ تمام تر حالات اور معاملات میں احسان اختیار کرنے کا حکم ہے۔ احسان کرنے والوں سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے اور وہ اس کے محبوب بندوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مختلف انداز میں احسان کی فضیلت کو قرآن میں بیان فرمایا۔ ارشادِ ربانی ہے ’’سو اللہ تعالیٰ نے ان کی اس (مومنانہ) بات کے عوض انہیں ثواب میں جنتیں عطا فرما دیں، جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، (وہ) ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں، اور یہی احسان کرنے والوں کی جزا ہے‘‘ (المائدہ: 85)۔
احسان کرنے والے ہی اللہ تعالیٰ کی محبت سے سرفراز ہوتے ہیں، فرمان ربانی ہے ’’اور احسان کرو، اللہ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے‘‘ (البقرہ : 195)۔ اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کے ساتھ ہے، اس حوالے سے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’بیشک اللہ اُن لوگوں کو اپنی معیتِ (خاص) سے نوازتا ہے جو صاحبانِ تقویٰ ہوں اور وہ لوگ جو صاحبانِ اِحسان (بھی) ہوں‘‘ (النحل: 128)۔ اگر احسان کریں گے تو اس سے اپنا ہی فائدہ ہو گا جس کا بدلہ دنیا و آخرت میں بہترین جزا کی صورت میں ملے گا: ’’اگر تم احسان کرو گے تو خوداپنے ہی فائدہ کیلئے کرو گے، اور اگر تم برائی کرو گے تو اپنی (ہی) جان کیلئے‘‘ (بنی اسرائیل: 7)، دوسری آیت میں ارشاد ِربانی ہے ’’اللہ تعالیٰ عدل کا، احسان کا اور قرابت داروں کو حق دینے کا حکم دیتا ہے‘‘ (النحل: 90)۔
احسان کامفہوم
احسان جس کی وجہ سے بندہ اللہ تعالیٰ کا محبوب اور پیارا بن جاتا ہے اور بدلہ میں اللہ تعالیٰ جنت عطا فرماتا ہے۔ اس کا معنی و مفہوم حسب ذیل ہے۔ لفظِ احسان کا اصل ماخذ’’ح ، س ، ن‘‘ ہے جس کے معنی ’’عمدہ و خوبصورت ہونا‘‘ کے ہیں۔ امام راغب اصفہانی حسن کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : اس سے مراد ایسا حسین ہونا ہے جو ہر لحاظ سے عمدہ ہو، اس کا عمدہ ہونا عقل کے پیمانے پر بھی پورا اترتا ہو، قلبی رغبت اور چاہت کے اعتبار سے بھی دل کو بھلا لگتا ہو۔ (راغب اصفہانی، مفردات القرآن : 119)
احسان کی اقسام
احسان کی دو اقسام ہیں۔ (1) خالق کے ساتھ احسان کاتعلق (2) مخلوق کے ساتھ احسان کاتعلق ۔
خالق کے ساتھ احسان کاتعلق:جب بندے کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ بندگی کا تعلق حسین ہو جائے اور وہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکامات اور فرائض و حقوق کو بدرجہ احسن ادا کرے اس کا دل محبت الٰہی اور خشیت الٰہی سے اس طرح سرشار ہو کہ اس کی کیفیت ’’ان تعبد اللہ کانک تراہ فان لم تکن تراہ فانہ یراک‘‘ کا مصداق ہو تو اسے احسان مع الخالق کہتے ہیں۔
مخلوق سے احسان کا تعلق:جب بندہ اللہ کی تعالیٰ مخلوق کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے اپنا تعلق حسین بنا لے، اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ اس کا معاملہ حسن عمل پر مبنی ہو، وہ سراپا ایثار و قربانی بن کر ہمیشہ دوسروں کے کام آئے۔ اس کے ہاتھ اور زبان سے کبھی کسی کو تکلیف نہ پہنچے، وہ اپنے جان و مال، رزق و دولت، علم و عمل سب کچھ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی خدمت کیلئے وقف کر دے، اپنا سکھ چین قربان کر کے دکھی انسانیت میں سکھ بانٹے تو بندے کا اللہ کے بندوں کے ساتھ ایثار کا یہ عمل ’’احسان‘‘ کہلاتا ہے۔
احسان کے کچھ اور مفہوم بھی بیان کیے جاتے ہیں جو کہ حسب ذیل ہیں۔
کامل توجہ سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا
نیتوں کو اپنے مفادات سے پاک اور بلند تر کر کے اللہ کیلئے خالص کر دینے کے باعث احسان عبودیت یعنی بندگی کا اعلیٰ ترین درجہ بن جاتا ہے۔ اس لیے احسان فی الحقیقت اپنی سوچ و فکر اور ارادہ و مقصد کو مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کیلئے خالص کر دینے کا نام ہے اور یہ عقیدہ و عمل میں سنت محمدﷺ کا اتباع کر تے ہوئے نیک اعمال بجا لانے سے حاصل ہوتا ہے۔جیساکہ حدیث میں ہے:امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ کی روا یت کردہ متفق علیہ حدیث میں ہے کہ ایک روز حضرت جبرائیل امین علیہ السلام بارگاہ رسالت مآب ﷺمیں انسانی شکل میں حاضر ہوئے اور امت کی تعلیم کیلئے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! مجھے ایمان کے بارے میں بتائیے کہ ایمان کیا ہے؟ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: (ایمان یہ ہے کہ) تو اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کے (نازل کردہ) صحیفوں، اس کے رسولوں اور روز آخرت پر ایمان لائے اور ہر خیر و شر کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقدر مانے۔ انہوں نے پھر پوچھا اسلام کیا ہے؟ حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا: (اسلام یہ ہے کہ) تو اس بات کی گواہی دے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں، (اور یہ کہ) تو نماز قائم کرے اور زکوٰۃ ادا کرے، اور تو ماہ رمضان کے روزے رکھے اور اگر استطاعت ہو تو اس کے گھر کا حج کرے۔اس کے بعدحضرت جبرائیل امین علیہ السلام نے تیسرا سوال احسان کے بارے میں کیا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا:احسان یہ ہے کہ تو اللہ کی عبادت اس طرح کرے گویا تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو نہیں دیکھ رہا تو (کم از کم یہ یقین ہی پیدا کر لے کہ) وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔ (صحیح بخاری، :65)
اچھارویہ اختیارکرنا
نماز، روزہ، زکوٰۃ، گفتگو، لین دین، تجارت، معاملا ت سب کچھ احسن انداز سے بجالانا۔حتیٰ کہ جانورکوذبح کرنے اور کسی موذی چیزکومارنے میں بھی احسان (اچھا انداز) اختیارکرنا۔ اسی معنی و مفہوم کو رسول اکرمﷺ نے اس انداز میں بیان فرمایا کہ: ’’اللہ تعالیٰ نے ہر چیز میں احسان (اچھا انداز اختیار) کرنا تم پر فرض کیا ہے۔ لہٰذا جب تم کسی کو مارو تو اچھے طریقے سے مارو اور جب تم جانور ذبح کرو تو اچھے طریقے سے ذبح کرو، چھر ی اچھی طرح تیزکرو، اور ذبیحہ کو راحت پہنچاؤ‘‘ (سنن ابن ماجہ:3170)۔
غرضیکہ ہر نیک اور جائز کام کو اچھے انداز سے سرانجام دینا ضروری ہے۔ میاں بیوی کے درمیان جھگڑا ہو جاتا ہے اور طلاق تک نوبت پہنچ جاتی ہے اور طلاق سے ہونے والی علیحدگی میں بھی اسلام نے اچھے انداز اختیار کرنے کا حکم دیا۔ قرآن مجید میں ہے: ’’طلاق والیوں کو اچھی طرح فائدہ دینا پرہیز گاروں پر لازم ہے‘‘ (البقرہ: 241)۔
اسی طرح خریدوفروخت کے دوران تاجروں پر لازم ہے کہ وہ احسان اور رحم کی راہ اپنائیں اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہیں۔ وہ اس استحصال سے باز رہیں جس کا موجودہ زمانہ میں چلن عام ہو چکا ہے۔ وہ ذخیرہ اندوزی نہ کریں اور زائد قیمت لینے سے احتراز کریں۔ یہ بات انھیں ہمیشہ ملحوظ رکھنا ضروری ہے کہ ان کا عظیم رب ان کی نیتوں ، ان کے اقوال اور ان کے افعال کی خوب نگرانی کر رہا ہے۔ یہ بھی ان کے ذہن نشین رہے کہ تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ ایک مومن اپنے بھائی کیلئے وہی پسند کرتا ہے جو اپنے لیے چاہتا ہے۔ رسول اکرمﷺنے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ اس شخص پررحم کرے جو سودا بیچتے وقت، سوداخریدتے وقت اور اپنا حق مانگتے وقت نرم اور احسن انداز اختیار کرتا ہے‘‘ (صحیح بخاری: 2076)۔
حسن سلوک اختیارکرنا
احسان، کتاب و سنت کی نصوص کے مطابق انسان کے اپنے بھائی سے حسن معاملات کا جوہر ہے۔ احسان کا دائرہ کار انسان کے خود اپنے آپ پر، ماتحتوں پر، اس کے خاندان اور عزیز و اقارب پر اور تمام انسانی معاشرے پر پھیلا ہوا ہے۔ حق داروں کے حقوق کی ادائیگی میں احسان کاحکم دیااوریہاں بھی احسان حسن سلوک کے معنی میں بھی استعمال ہواجیساکہ اللہ تعالیٰ کاارشادہے: ’’تم اللہ کی عبادت کرو، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو، اور رشتہ داروں، اور یتیموں، اور محتاجوں (سے)، اور نزدیکی ہمسائے، اور اجنبی پڑوسی، اور ہم مجلس اور مسافر (سے)، اور جن کے تم مالک ہو چکے ہو،(سے بھی حسن سلوک کرو)‘‘ (النساء: 36)۔
احسان کرناضروری ہے لیکن احسان جتلانا ناجائز اور حرام ہے۔عبادت کرکے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں احسان جتلاناجائز نہیں، اور بندوں کے ساتھ حسن سلوک کرکے بندوں پراحسان جتلانابھی جائز نہیں۔دونوں کی تردیدقرآن و سنت میں موجود ہے: ’’یہ لوگ آپ پر احسان جتلاتے ہیں کہ وہ اسلام لے آئے ہیں، فرما دیجئے: تم اپنے اسلام کا مجھ پر احسان نہ جتلاؤ، بلکہ اللہ تعالیٰ تم پر احسان فرماتا ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کا راستہ دکھایا ہے‘‘ (الحجرات: 17)
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پر احسان جتلا کر ایذادینے سے منع فرمایا،جیساکہ ارشادباری تعالیٰ ہے: ’’اے ایمان والو!اپنی خیرات کواحسان جتلا کر اور ایذا پہنچا کر برباد نہ کرو‘‘ (البقرہ: 264)
حدیث مبارکہ میں ہے،حضرت ابوذرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا: ’’تین اشخاص سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کلام کرے گا نہ ان کی جانب نظررحمت کرے گا۔وہ شخص جو تکبر سے اپنی چادرٹخنوں سے نیچے لٹکاتا ہے، جو (کسی غریب و نادار پہ) خرچ کر کے احسان جتلاتاہے اور جھوٹی قسمیں کھا کر اپنے کاروبار کو چلانے والاہے‘‘(صحیح مسلم:106)۔
احسان شناسی
مل جل کر رہنا انسانی ضرورت ہے ۔ جب یہ حقیقت ہے کہ بنی آدم کسی نہ کسی اعتبار سے ایک دوسرے کے محسن و معاون ہیں تو اس احسان کا تقاضا ہے کہ اپنے محسن کے ساتھ وفاداری اور احسان شناسی کا معاملہ کیاجائے، اس کے تعاون کا اچھا بدلہ دیاجائے۔
احسان شناسی کی ضد احسان فراموشی ہے، جو عصرحاضرمیں عام ہوتی جارہی ہے۔ آج کے انسان کا معاملہ نہ صرف محسن انسانوں کے ساتھ،بلکہ اپنے خالق کے ساتھ اس درجہ احسان فراموشی کا ہے کہ وہ اس کی عطا کردہ زندگی جیسی عظیم نعمت اور مزید لاتعداد نعمتوں اور رحمتوں کے باوجود بھی کفران نعمت اور ناشکری جیسی انتہا سے باز نہیں آتا۔ ارشادِباری تعالیٰ ہے: ’’تم آپس میں ایک دوسرے کے احسان کو مت بھولو، بے شک اللہ تعالیٰ کو تمھارے اعمال کی خبر ہے‘‘ (البقرہـ:237)۔
اسی طرح سورہ رحمن میں مقربین کی جنت و نعمت کے اوصاف بیان کرنے کے بعد آخر میں مخاطبین کو متوجہ کر کے نہایت بلیغ بات ارشاد فرمائی: ’’احسان کابدلہ احسان کے سوا کچھ نہیں‘‘ (الرحمن:60)
احادیث مبارکہ میں بھی نبی پاک ﷺ نے قدم قدم پر احسان شناسی کی تعلیم دی ہے اور محسن کی قدرشناسی کو ضروری بتلایا ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ رسول اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: ’’جوشخص انسانوں کا شکر نہیں اداکرتا، وہ اللہ کا بھی شکر ادا نہیں کر سکتا‘‘ (جامع ترمذی: 1955) ۔
حضرت ابن عباسؓ نقل کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے بیویوں کی ناشکری کے حوالے سے ارشاد فرمایا: مجھے دوزخ دکھلائی گئی تو اس میں زیادہ تر عورتیں تھیں جو کفر کرتی ہیں۔ عرض کیاگیا یا رسول اللہﷺ! کیا وہ اللہ کے ساتھ کفر کرتی ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ خاوند کی ناشکری کرتی ہیں اور احسان کی ناشکری کرتی ہیں۔ اگر تم عمر بھر ان میں سے کسی کے ساتھ احسان کرتے رہو پھر تمہاری طرف سے کبھی کوئی ان کے خیال میں ناگواری کی بات ہو جائے تو فوراً کہہ اٹھے گی کہ میں نے کبھی تجھ سے کوئی بھلائی نہیں دیکھی (صحیح بخاری: 5197)۔
اس وقت معاشرہ میں بگاڑکی بہت سی وجوہات ہیں جن میں ایک وجہ احسان شناسی کا فقدان ہے۔ اگر احسان شناسی طبیعت ثانیہ بن جائے تو پھر نہ خانگی زندگی میں کوئی اختلاف ہو نہ ادارہ جاتی سطح پر کوئی فساد بلکہ خاوند اپنی بیوی کا احسان شناس ہو اور بیوی اپنے خاوند کی، حاکم اپنے محکوم کا منت شناس ہو اور محکوم اپنے حاکم کا۔ اس طرح امن و سکون کے ساتھ زندگی بسر ہو اور کبھی ناچاقی کی نوبت ہی نہ آئے،مگر آج مسلم معاشرہ میں احسان شناسی کی جگہ احسان فراموشی نے لے لی ہے جس کی وجہ سے اختلاف آئے روزبڑھتے جارہے ہیں۔
نبی کریمﷺکی سیرت مبارکہ اور آپﷺ کے اسوہ حسنہ سے ہمیں یہ ہدایت ملتی ہے کہ محسن کے احسان کا شکر اداکرنا، صاحبِ فضل کا اعتراف کرنا اور احسان کا بدلہ احسان کے ذریعے دینا مسلمانوں کا وطیرہ ہونا چاہیے۔