ترقیاتی کام اور عوام۔۔۔۔
سندھ حکومت آج کل دو کاموں میں مصروف ہے، ترقیاتی سرگرمیاں اور انسداد منشیات۔ صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں کراچی کے علاقے لیاری سے رکن سجاد علی سومرو نے بتایا کہ لیاری میں منشیات کا یہ عالم ہے کہ ایک ہسپتال کے نیچے منشیات فروشوں نے اڈا بنا رکھا ہے، حکومت کو اس طرف توجہ دینی چاہیے۔
سینئر وزیر شرجیل میمن جو پہلے ہی منشیات کے خلاف مصروف عمل ہیں، انہوں نے لیاری سمیت شہر بھر میں کارروائیوں کا اعلان کردیا ہے۔ ماضی کے مقابلے کوئی شک نہیں کہ کارروائیاں نظر آرہی ہیں لیکن آج بھی اس شہر کے کسی بھی باسی سے پوچھ لیں وہ آپ کو منشیات بکنے والی کئی جگہوں کا بتادے گا۔ امید ہے یہ سبھی منشیات کے اڈے قانون کی نظر میں آئیں گی۔ اسمبلی اجلاس ہی میں یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ گزشتہ برس کے مقابلے میں نہ صرف سٹریٹ کرائمز میں 26فیصد کمی آئی ہے بلکہ موبائل چھیننے کی وارداتوں میں بھی 23فیصد کمی ہوئی ہے۔ بڑی زبردست بات ہے، ویسے اعداد و شمار اپنی جگہ لیکن یہ بھی مشاہدے میں آیا ہے کہ اب پہلے کی طرح مقدمات کا اندراج اس تیزی سے نہیں ہورہا تو ظاہر ہے شماریے تو بہتر ہونے ہی ہیں۔
کراچی کی ترقیاتی سرگرمیوں کا بھی کچھ ذکر کرلیتے ہیں جہاں سڑکوں کی استر کاری کے نام پر حیدری اور لیاقت آباد کی مرکزی شاہراہوں سمیت متعدد سڑکوں کو کھود کر چھوڑ دیا گیا ہے۔یونیورسٹی روڈ تو کئی برس سے عوام کے صبر کا امتحان لے رہی ہے۔ اب اول الذکر دونوں سڑکیں بھی یہی کر رہی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سڑک کو اس طرح سے ادھیڑا گیا ہے کہ آپ اس پر گاڑی یا بائیک چلائیں تو آپ کو دنیا کی سب سے خطرناک رولر کوسٹر کا مزا آجائے گا جبکہ کھدائی سے گاڑیوں میں پیدا ہونے والی خرابیاںٹائر شاپ سے لے کر میکینک تک سب کے روزگار کا طویل عرصے تک کے لیے معقول بندوبست کررہی ہیں۔
ادھر روزگار کے لیے جماعت اسلامی نے ملک کے نوجوانوں کو ہنرمند بنانے کا بیڑا اٹھا لیا ہے۔ سندھ میں طلبہ و طالبات کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کی تعلیم دینے کے لیے اس نے ایک مہم شروع کر رکھی ہے۔چند روز قبل کراچی میں قابلیت ٹیسٹ ہوا، بلامبالغہ اس میں ہزاروں طلبہ و طالبات نے شرکت کی۔ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن خصوصی طور پر لاہور سے کراچی تشریف لائے اور طلبہ سے خطاب کیا۔ بولے ، نوجوان آگے بڑھیں، ہنرمند بنیں، تعلیم حاصل کریں اور ملک و قوم کا نام روشن کریں۔ انہوں نے نوجوانوں سے سیاست میں عملی حصہ لینے اور جماعت اسلامی کا ساتھ دینے کی درخواست بھی کی تاکہ ملک کو ظالم حکمرانوں سے نجات دلائی جاسکے۔ ان کا کہنا تھا کہ پچھلے سال جماعت اسلامی نے 50ہزار طلبہ کو مفت آئی ٹی کورسز کرائے۔ جو طلبہ ڈگری کورس کرنا چاہتے ہیں انہیں نہ صرف مفت کورسز کی پیشکش کی بلکہ روزگار کے لیے بھی معاونت کا یقین دلایا۔ انہوں نے نوجوانوں کو ہنر مند بنانے کے منصوبے کو ملک بھر میں پھیلانے کا اعلان بھی کیا اور کہا کہ لاہور میں بھی پروگرام شروع کیا جارہا ہے۔امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ آئندہ دو سال میں 10لاکھ نوجوانوں کو کورسز کرائے جائیں گے۔ جماعت اسلامی کا یہ پروگرام قابلِ تعریف ہے۔ دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی ایسے پروگرام شروع کرنے چاہئیں کیونکہ ملک سدھارنے کے دعوؤں سے کچھ نہیں ہوگا، دنیا کا مقابلہ کرنا ہے تو اپنے نوجوانوں کو ہنرمند اور تعلیم یافتہ بنانا ہوگا۔ رہی بات حکومت کی تو اس کی دوسری ترجیحات ہیں اور ان ترجیحات میں طلبہ و طالبات اور نوجوان کہیں نظر نہیں آتے۔
میئر کراچی مرتضیٰ وہاب نے ردعمل میں کہا کہ آئی ٹی کورسز کے نام پر تشہیر کی جارہی ہے، یہ بھی نہیں معلوم کہ کورس مکمل کرنے والے طلبہ کو ڈگری کہاں سے ملے گی۔ میئر کراچی نے شہر میں چھوٹے چھوٹے پلاٹوں پر 10 ،10 اور 20 ،20 منزلہ عمارتوں کی تعمیر پر بھی تنقید کی اور بولے کہ یہ سب ایک مخصوص سیاسی جماعت کے دور میں ہوا۔ شہر کا بنیادی ڈھانچا تباہ ہوگیا، اگر ہم کچھ کرنا چاہیں تو روک دیا جاتا ہے۔میئر کراچی کا یہ بھی کہنا تھا کہ سڑکوں کا غیرمعیاری کام کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہوگی اور اب متعلقہ انجینئر بھی اس کا ذمہ دار ہوگا۔ مگر میئر کراچی کی تمام باتوں کو تسلیم بھی کرلیا جائے تو کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں۔مثلاً یہ کہ کیا میئر صاحب یہ بتانا پسند کریں گے کہ انہوں نے نوجوانوں کو ہنرمند بنانے یا تعلیم کی بہتری کے لیے اب تک کیا کام کیا ہے؟ جو عمارتیں پہلے بن گئیں اگر انہیں چھوڑ دیں تو اس وقت جو عمارتیں تعمیر ہورہی ہیں انہیں کیوں نہیں روکا جارہا؟ وہ کون سا ہاتھ ہے جو کارروائی کرنے سے روک دیتا ہے؟ غیرمعیاری سڑکوں کی وجہ سے اب تک سوائے چند کے مزید کتنے لوگوں کے خلاف کارروائی کی گئی؟ دست بستہ عرض ہے کہ آپ آگے بڑھیں شہر کو تباہ کرنے سے لوگوں کو روکیں اور سچ مچ کی کارروائی کریں ۔
میئر صاحب کی یہ بات سچ ہے کہ بہت سی طاقتیں رکاوٹیں ڈالتی ہیں، اب رانی پور کیس ہی کو لے لیں جس میں ہوس کے غلام وڈیرے کے ہاتھوں ماری جانے والی کمسن فاطمہ کے کیس کو مہینوں ہوگئے، فوٹیج موجود، ملزم موجود، مظلوم بھی موجود لیکن فیصلہ ہے کہ کسی صورت ہوکر نہیں دے رہا۔ بچی سے جنسی زیادتی اور تشدد سے ہلاکت کی تصدیق بھی ہوگئی، سارے ٹیسٹ ہوچکے لیکن کیس لٹکا ہوا ہے۔ والدین بار بار کہہ رہے ہیں کہ انہیں ڈرا دھمکا کر صلح نامے پر دستخط کرائے گئے۔ متاثرین ملزمان کے خلاف سزا کا مطالبہ کر رہے ہیں پھر بھی انصاف دور کھڑا مسکرا رہا ہے۔ مظلوم کی بے بسی پر یا پھر طاقتور کے غرور پر!!