معیشت کے بعد حکومت بھی خطرناک زون سے نکل آئی؟کیا پی ٹی آئی احتجاجی تحریک کی پوزیشن میں ہے؟

تحریر : سلمان غنی


26ویں آئینی ترمیم کے بعد مسلح افواج کے سربراہان کی مدت ملازمت پانچ سال کرنے اور سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد بڑھانے کی قانون سازی کے بعد ملک میں جاری جمہوری اور سیاسی عمل کے حوالے سے خدشات اور تحفظات دور ہو چکے ہیں اور یہ کہنا بے جانہ ہو گا کہ ملک سیاسی و معاشی استحکام سے ہمکنار ہو نہ ہو لیکن حکومت کیلئے حالات اب سازگار ہیں۔

دوسری جانب اپوزیشن جو حکومت گرانے اور بنانے کیلئے سرگرم دکھائی دے رہی تھی فی الحال اسے آگے کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ وہ ایوان میں کی جانے والے قانون سازی پر تو احتجاج کرتی نظر آ رہی ہے البتہ سروسز چیفس کی مدت ملازمت میں توسیع کے عمل پر اس نے خاموشی اختیار کر لی ہے اور اس حوالے سے اپنی جماعت کے ذمہ داروں کو بھی غیر اعلانیہ پیغام دیا گیا ہے کہ اس پر تبصرے گریز کیا جائے۔ قانون سازی کے روز سب سے اہم بیان تو جمعیت علمائے کے امیر مولانا فضل الرحمن کا تھا جنہوں نے سروسز چیفس کی مدت ملازمت میں اضافے کے عمل کو انتظامی فیصلہ قرار دیتے ہوئے اس سے صرف ِنظر کیا۔ تحریک انصاف نے بھی اس حوالے سے کسی تبصرے گریز کی پالیسی اختیار کی جس کو تحریک انصاف کے موقف میں بڑی تبدیلی کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ نے اسے ایک واقعہ قرار دیتے ہوئے آگے بڑھنے کی بات کی ہے ۔ پارلیمنٹ میں ہونے والی اس قانون سازی کی ٹائمنگ بھی اہم ہے اور اس سے یہ نکلتا ہے کہ حکومت فوج کے ساتھ مل کر آگے چلنا چاہتی ہے۔ اس وقت صدر اور وزیراعظم سمیت بعض اہم عہدوں کی مدت پانچ سال ہے تو حکومت نے فوجی قیادت کی مدت بھی بڑھا دی ہے۔ البتہ جہاں تک سیاست یا جمہوریت کا تعلق ہے تو تاثر یہی ہے کہ یہ مضبوط نہیں ہو رہے۔ سیاست اور جمہوریت کی مضبوطی کا تعلق براہ راست حکومتوں کی کارکردگی اور ڈیلیو ری سے ہوتا ہے اور حکومتوں کی کارکردگی کے ذریعہ ہی ملک میں استحکام اور عام آدمی کی زندگی میں اطمینان آتا ہے۔ مگر آج کی صورتحال میں سیاسی و معاشی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو یہ اطمینان بخش نہیں ۔بہرحال حکومتی پالیسیوں کے باعث معیشت خطرناک زون سے نکل آئی ہے اور اندرونی و بیرونی سرمایہ کاری بارے اعلانات اور اقدامات جاری ہیں ،اس عمل میں پاک فوج کے سپہ سالار جنرل عاصم منیر کی کوششیں بھی شامل ہیں جنہوں نے مشرق وسطیٰ کے اہم ممالک خصوصاً سعودی عرب ،متحدہ عرب امارات اور قطرکو پاکستان میں سرمایہ کاری کی طرف راغب کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔یہی وجہ ہے کہ آج کی صورتحال میں ملک کو معاشی اور سیاسی حوالے سے آگے لے جانے میں ریاستی اداروں کے کردار کو اہم سمجھا جا تا ہے۔سروسز چیفس کی مدت ملازمت میں توسیع کے عمل سے ثابت ہوتا ہے کہ اب سب کو مل کر چلنا ہے اور پاکستان کو استحکام کی منزل پر پہنچانے کیلئے اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہے ،کیونکہ آنے والے وقت میں بہت سے چیلنجز در پیش ہوں گے اور ریاستی اداروں کو حکومت کے ساتھ مل کر ریاستی مفادات کو محفوظ بنانا ہے۔ تمام حکومتی اور سروسز چیفس کے عہدوں کی ایک ہی مدت سے یکجہتی کا تاثر نمایاں ہوتا ہے ۔یہ یکجہتی قائم رہ پائے ، اس کا انحصار حکومت پر بھی ہوگا۔ اگر حکومت ایک جماعت کی ہوتی تو مسئلہ بن سکتا تھا مگر مخلوط حکومت کسی رسک کی پوزیشن میں نہیں۔ جہاں تک آنے والے حالات میں اپوزیشن اور خصوصاً تحریک انصاف کی حکمت عملی کا سوال ہے تو بظاہر اس کا اب پہلے والا زور شور نظر نہیں آتا۔ بانی پی ٹی آئی کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی رہائی کی خبروں کے ساتھ کچھ اور خبریں بھی آ رہی تھیں لیکن عملاً اس حوالے سے نہ تو کوئی پیش رفت ہوئی اور نہ ہی ہوتی نظر آ رہی ہے۔ وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کو ان کی جماعت بیرون ملک بھجوانے کی کوشش کر رہی ہے۔ خواجہ آصف کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے ذمہ داران بیرونی ممالک سے خود کہہ رہے ہیں کہ پاکستان پر دبائو ڈالیں تاکہ بانی پی ٹی آئی کو رہا کرکے بیرون ملک بھیجا جائے۔ انہوں نے کسی ملک کا نام تو نہیں لیا لیکن چہ مگوئیاں برطانیہ کے حوالے سے ہیں جہاں بانی پی ٹی آئی کے بیٹے مقیم ہیں اور ان کی سابقہ اہلیہ کے حوالے سے خبریں ہیں کہ وہ اس ضمن میں سرگرم عمل ہیں۔تاہم بانی پی ٹی آئی کی سیاست ‘ ان کے طرز عمل اور ان کی اب تک کی حکمت عملی میں ان کی بیرون ملک روانگی نظر نہیں آ رہی، لیکن اس کا انحصار ان کی سیاست پر ہوگا اور اگر ان کی جماعت کی سیاست اور حکمت عملی کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو 26ویں آئینی ترمیم کے عمل سے اس کی جماعتی اہمیت اور احتجاجی صلاحیت پر بڑا اثر پڑاہے اور پی ٹی آئی دفاعی محاذ پر کھڑی نظر آ رہی ہے۔ان کے پاس اب واحد سیاسی سہارا مولانا فضل الرحمن ہیں جن سے پارٹی ذمہ داران ملتے اور مشاورت کرتے نظر آتے ہیں۔پی ٹی آئی اندرونی بحران سے بھی دوچار ہے۔ پی ٹی آئی کے فیصلوں پر خیبر پختونخوا اور علی امین گنڈا پور کا قبضہ ہے ۔ وہی پنجاب سمیت تمام معاملات کو لے کر چل رہے ہیں ۔ حالیہ قانون سازی سے پہلے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کی بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کو بھی اہم قرار دیا جا تا ہے۔ادھر پنجاب کی سطح پر پی ٹی آئی کی قیادت کا بحران بڑھتا جا رہا ہے اور پی ٹی آئی لیڈر شپ اور جماعت کی اہمیت کے باوجود کارکن مایوسی کا شکار ہیں ۔ ان کی قیادت کوئی بڑا احتجاج کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہو سکی۔ خود بانی پی ٹی آئی کی اہلیہ بشریٰ بی بی کہہ رہی ہیں کہ ان کے وکلا بھی ان کے ساتھ نہیں۔ بانی پی ٹی آئی کے جیل میں ہونے کی وجہ سے ان کا اپنی جماعت پر کنٹرول کم ہوا ہے اور پارٹی کے سنجیدہ حلقے جو معاملات کو افہام و تفہیم کے ذریعہ بہتر بنانے کیلئے سرگرم تھے ان میں بھی مایوسی پائی جا تی ہے۔ان میں سرفہرست سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی ہیں جن کے حوالے سے کہا جا رہا تھا کہ وہ اپنی جماعت کی بحالی کیلئے کوئی کردار ادا کریں گے ۔جہاں تک صوابی سے احتجاجی تحریک شروع کرنے کا سوال ہے تو موجودہ حالات میں تو احتجاج یا احتجاجی تحریک کے امکانات کم نظر آتے ہیں ۔ کیا یہ احتجاج ہو پائے گا ،ابھی اس حوالے سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ جہاں تک امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت سے وابستہ پی ٹی آئی کی توقعات کی بات ہے تو انہیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ جن حالات میں وہ صدر بنے ہیں ان کے سامنے فوری نوعیت کے کئی معاملات ہوں گے اور کوئی امریکی صدر اس صورتحال میں کسی دوسرے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا۔ شاید ڈونلڈ ٹرمپ سے بھی پی ٹی آئی کی توقعات پوری نہ ہوں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

اردو زبان و ادب کے بے مثال ادیب مشتاق احمد یوسفی

اردو ادب میں طنز و مزاح کی دنیا کئی قدآور شخصیات سے روشن ہے، مگر جس بلندی پر مشتاق احمد یوسفی کا نام جگمگاتا ہے، وہ ایک عہد، ایک معیار اور ایک حوالہ بن چکا ہے۔

سوء ادب:دو پیسے کا ہنر

دریا پار کرنے کیلئے کشتی روانہ ہونے لگی تو ایک درویش جو کنارے پر کھڑا تھا، اس نے ملاح سے کہا کہ مجھے بھی لے چلو۔ملاح نے کہا کہ اس کی فیس دو پیسے ہے، اگر تمہارے پاس دو پیسے ہیں تو آکر کشتی میں بیٹھ جاو۔ درویش کی جیب خالی تھی اس لیے وہ کشتی میں نہ بیٹھا۔ جب کشتی روانہ ہوئی تو درویش بھی ساتھ ساتھ پانی پر قدم رکھتے ہوئے چلنے لگا۔ جب کنارے پر پہنچے تو درویش بولا : آخر ہم نے بھی عمر بھر ریاض کیا ہے ۔

رفیق رسول کریم ؐ، کاتب وحی،خلیفہ سوم: شہادتِ سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ

حضرت عثمان غنی ؓعام الفیل کے چھ برس بعد پیدا ہوئے، آپؓ ابتدائے اسلام ہی میں ایمان لے آئے تھے۔آپ ؓ کا نام عثمان، کنیت ابو عبداللہ اور ابو عمر، لقب ذوالنورین، والد کا نام عفان، والدہ کا نام ارویٰ تھا۔

شرم و حیا اور دوسخا کے پیکر

حضرت سیدنا عثمان غنی ؓ تیسرے خلیفہ ہیں اور جناب رسول اللہ ﷺکے دوہرے داماد ہیں،جس کی وجہ سے آپ کو ذوالنورین کا لقب دیا گیا۔آپؓ کو ذوالہجرتین یعنی دو ہجرتوں والے بھی کہا جاتا ہے کیونکہ آپؓ نے پہلے حبشہ اور پھر مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی۔

خلافت عثمانی کی عظیم الشان فتوحات

عہد عثمانی میںممالک محروسہ کا دائرہ نہایت وسیع ہوا۔ افریقہ میں طرابلس، رقہ اور مراکش مفتوح ہوئے، ایران کی فتح تکمیل کو پہنچی۔ افغانستان، خراسان اور ترکستان کا ایک حصہ زیر نگین ہوا۔ دوسری سمت آرمینیا اور آزربائیجان مفتوح ہوکر اسلامی سرحد کوہ قاف تک پھیل گئی۔

جامع القرآن

ذوالحجہ کے مہینے کواسلامی سال میں خاص اہمیت حاصل ہے اس مقدس مہینے میں ایثار و قربانی کے بے شما ر واقعات رونماہوئے جن میں جامع القرآن حضرت عثمان غنی ؓکایومِ شہادت بھی ہے۔