ڈرامائی فیصلوں کے بعد سیاسی استحکام کا سفر

تحریر : عدیل وڑائچ


گزشتہ چند روز میں ملکی سیاست میں ڈرامائی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں جنہوں نے آنے والے برسوں کا منظر بھی واضح کر دیا ہے۔ ان ڈویلپمنٹس نے ملک سے سیاسی عدم استحکام کا بظاہر خاتمہ کر دیا ہے اور خبر دے دی ہے کہ نہ صرف پالیسیوں کا تسلسل جاری رہے گا بلکہ حکومت کو درپیش خطرات بھی بظاہر ٹل گئے ہیں۔

 ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ آئینی بنچ بن گیا ہے۔ اور ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ سینیارٹی میں چیف جسٹس کے بعد چوتھے نمبر پر موجود جسٹس عدالت عظمیٰ کے طاقتور ترین جج بن چکے ہیں۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بنچ بن چکا ہے جس میں پنجاب سے جسٹس عائشہ ملک، سندھ سے جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس حسن اظہر رضوی، بلوچستان سے جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس نعیم اختر افغان اور خیبر پختونخوا سے جسٹس مسرت ہلالی آئینی بنچ کا حصہ ہیں۔ جوڈیشل کمیشن کے حالیہ اجلاس میں حکومت نے اپنی اکثریت ثابت کرتے ہوئے اپنی مرضی کا آئینی بنچ تشکیل دینے میں کامیابی حاصل کی اور چیف جسٹس آف پاکستان ، جسٹس منصور علی شاہ اور  جسٹس منیب اختر، اوراپوزیشن بنچز سے عمر ایوب اور شبلی فراز اقلیت میں چلے گئے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ حکومت نے عدلیہ میں اپنے پنجے گاڑنے میں بڑی کامیابی حاصل کر لی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئینی بنچ کی تشکیل میں اسے سات اراکین کی حمایت سے کامیابی ملی ہے۔ آئینی بنچ کا سربراہ بننے کے بعد جسٹس امین الدین خان عدالتی فیصلہ سازی میں اہمیت اختیار کر چکے ہیں کیونکہ وہ نئے قانون کے مطابق پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا رکن بننے کے ساتھ ساتھ کیسز کے آئینی پہلو کا جائزہ لینے والی کمیٹی کا بھی حصہ بن چکے ہیں۔ 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد بننے والے جوڈیشل کمیشن کا وہ پہلے ہی سے حصہ تھے۔ یعنی جسٹس امین الدین نہ صرف اس تین رکنی کمیٹی کا حصہ ہیں جو یہ تعین کرے گی کہ کون سا کیس آئینی بنچ کو ریفر کیا جانا ہے۔ جسٹس امین الدین اس کمیٹی میں بھی فیصلہ سازی کا کردار ادا کریں گے جو پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت سپریم کورٹ میں کیسز مقرر کرنے کا اختیار کھتی ہے۔ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان میں بھی جسٹس امین الدین کا ووٹ اہمیت کا حامل ہو گا ۔ ان تمام اہم عہدوں کے ساتھ وہ آئینی بنچ کے سربراہ بھی ہوں گے۔ 

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی بھی بڑے دلچسپ انداز میں عدالتی معاملات کو لے کر چل رہے ہیں۔ ایک جانب وہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں اور اقلیت میں چلے جاتے ہیں تو دوسری جانب وہ آئینی ترمیم کے خلاف درخواستیں فل کورٹ میں لگانے کے معاملے پر جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کے فیصلے کا ساتھ نہیں دیتے۔ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کے چیف جسٹس آف پاکستان کو لکھے گئے خط میں انکشاف ہوتا ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے معاملے پر پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے اکثریتی ججز نے فل کورٹ بٹھانے کا فیصلہ سنایا مگر کمیٹی کے فیصلے پر عملدرآمد نہیں کیا گیا۔ یہ صورتحال بتا رہی ہے کہ عدلیہ میں اہم ایشوز پر اختلافِ رائے پایا جاتا ہے۔ 

صرف یہی نہیں حکومت نے سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد دوگنی کرنے کا قانون بھی منظور کروا لیا ہے۔ یہ قانون ایک ایسے وقت میں منظور ہوا ہے جب ججز کا تقرر جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نے کرنا ہے اور اس میں حکومت اپنی اکثریت ثابت کر چکی ہے ۔ اس اکثریت کے ساتھ حکومت سپریم کورٹ آف پاکستان میں اپنی مرضی کے ججز کا تقرر کرنے جا رہی ہے۔ یوں سپریم کورٹ آف پاکستان میں نئے ججز کے تقرر کے بعد حکومت کی عدلیہ کو اپنی گرفت میں لینے کے خواہش تقریباً پوری ہو  چکی ہے۔ تمام ایسے معاملات جو حکومت کیلئے خطرہ ہو سکتے ہیں آئینی بنچ کو جا چکے ہیں جسے حکومت نے اپنی مرضی سے تشکیل دیا ہے ، اورحکومت جن جج صاحبان کو اپنے لئے خطرہ سمجھتی تھی وہ فیصلہ سازی میں اقلیت میں ہیں۔ ایسے میں حکومت پُر اعتماد  نظر آتی ہے کہ جس معاملے کو وہ 25 اکتوبر کے بعد خطرہ سمجھتی تھی وہ ٹل چکا ہے۔ 

دوسری جانب سروسز چیفس کی مدت ملازمت کے معاملے نے بھی واضح پیغام دے دیا ہے کہ آئندہ کئی برس پالیسیوں کا  تسلسل جاری رہے گا۔ سروسز چیفس کی مدت ملازمت میں توسیع کا فیصلہ فردِ واحد کی بجائے پہلی مرتبہ ادارہ جاتی اپروچ کو لے کر چلنے کو ظاہر کر تا ہے ،مگر اس میں سب سے اہم معاملہ یقیناً آرمی چیف کی مدت ملازمت اور اس سے جڑی ڈویلپمنٹس ہیں۔ حالیہ برسوں میں آرمی چیف کی مدت ملازمت کے آخری سال میں اقتدار کے ایوانوں میں بھونچال دیکھنے کو ملتا رہا جس کا اثر براہ راست ملکی سیاست پر بھی پڑتا ہے۔ مگر حکومت نے مدت ملازمت کو تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کرنے کی قانون سازی کرکے تمام قیاس آرائیوں کو نہ صرف دفن کر دیا بلکہ سیکورٹی اور معیشت سمیت اہم ریاستی پالیسیوں کے تسلسل کو سیاست کی نظر ہونے سے بچا لیا ہے۔ آرمی ایکٹ میں ترمیم کے بعد جنرل سید عاصم منیر بغیر توسیع لئے نومبر 2027ء تک آرمی چیف رہیں گے اور حکومت نے اگر توسیع دینے کا فیصلہ کیا تو وہ نومبر 2032ء تک آرمی چیف رہ سکیں گے۔ تو جو  محرکات حکومتوں کے چلنے اور گھر جانے کی وجہ بنتے ہیں تمام میں صورتحال واضح ہو چکی ہے کہ معاملات تو ایسے ہی چلیں گے اور اگر کوئی اور وجہ نہ بنی تو حکومت اپنی مدت بھی پوری کرے گی۔ 

اس صورتحال میں پاکستان تحریک انصاف کا سیاسی کردار بھی حیران کن ہے جو آئینی ترمیم کی منظوری کے دوران بھی فرنٹ فٹ پر نہیں کھیلی ، سروسز چیفس کی مدت ملازمت کے معاملے کو افواج کا اندرونی معاملہ قرار دیا اور شورش پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اس کا مطلب ہے کہ تحریک انصاف اپنے سیاسی رویے میں کسی حد تک تبدیلی لا چکی ہے اور وہ انگیج ہونے کیلئے بھی تیار ہے۔ پاکستان تحریک انصاف امریکی صدارتی انتخاب میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت پر بھی خوش دکھائی دیتی ہے اور امید لگائے بیٹھی ہے کہ اس جیت کے اثرات پاکستانی سیاست پر بھی ہوں گے۔ بانی پی ٹی آئی نے تو جیل میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ کے ساتھ ان کے اچھے تعلقات رہے ہیں اور وہ ڈونلڈ ٹرمپ کو دوبارہ صدر منتخب ہونے پر مبارکباد دیتے ہیں۔ پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر امریکی انتخابات کے نتائج کے اثرات آنے میں تو شاید وقت لگے مگر پاکستان تحریک  انصاف کو آگے بڑھنے کیلئے اپنی ماضی کی حکمت عملی کو ترک کرنا ہو گا۔

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

مغربی قوتیں اور پاکستانی سیاسست

نئی امریکی انتظامیہ اور اس کے عہدیداروں کے پاکستانی سیاست میں چرچے ہیں۔ نو منتخب امریکی صدر کے نمائندہ برائے خصوصی مشن رچرڈ گرینیل کے یکے بعد دیگرے ٹویٹس ملکی سیاسی صورتحال میں ہلچل پیدا کر رہے ہیں۔

مذاکراتی عمل سے وزیراعظم پر امید کیوں؟

حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکراتی عمل کے آغاز سے قومی سیاست میں کسی حد تک ٹھہرائو آیا ہے ۔کہا جاتا ہے کہ جب سیاسی قیادتیں میز پر آ بیٹھیں تو مسائل کے حل کا امکان پیدا ہو جاتا ہے اور سیاسی معاملات آگے بڑھتے نظر آتے ہیں۔

کراچی میں پانی کا بحران ،احتجاج اور مقدمے

پیپلز پارٹی اور حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) میں اختلاف ہر روز بڑھتا جا رہا ہے اور پی پی رہنما گاہے بگاہے بالواسطہ یا بلاواسطہ تنقید کررہے ہیں۔ یہ تنقید بظاہر حکومت کی پالیسیوں پر ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ اندرون خانہ کوئی اور ہی کھچڑی پک رہی ہے۔

دیر آیددرست آید

پاکستان تحریک انصاف اور وفاقی حکومت کے مابین مذاکراتی عمل شروع ہو گیا ہے جس کا پہلا دور پیر کے روز پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔ اگرچہ باضابطہ مذاکرات دو جنوری کو ہونے جارہے ہیں لیکن یہ سلسلہ شروع تو ہوا۔ پاکستان تحریک انصاف کو بھی اس بات کا احساس ہو گیا ہے کہ مذاکرات کے ذریعے ہی مسئلے کا کوئی حل نکالاجاسکتا ہے۔

خونی سال رخصت ہوا

2024ء بلوچستان کیلئے اچھا ثابت نہیں ہوا۔ عام انتخابات کے بعد 24فروری کو صوبے میں پیپلز پارٹی مسلم لیگ (ن) اور بلوچستان عوامی پارٹی کی مخلوط صوبائی حکومت نے صوبے میں اقتدار سنبھالا۔

سیاسی بحران ٹل گیا

آزاد جموں و کشمیر میں تین ہفتوں سے جاری سیاسی بحران بالآخر ختم ہو گیا۔ مسلم لیگ(ن) کے قائد میاں نواز شریف اور صدر پاکستان آصف علی زرداری کی مداخلت سے دونوں جماعتوں نے چوہدری انوار الحق کی حکومت کی حمایت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔