علامہ محمد اقبالؒ کا کلام پیغامِ خود افروزی و جگر سوزی
اقبالؒ کے مطابق خودافروزی ذات کے امکانات کی دریافت کا نام ہے اور جگر سوزی ان امکانات کے حصول کیلئے تسلسل اور محنتِ شاقہ سے تگ و دو کرنے سے عبارت ہے
کلامِ اقبال میں زندگی کے حرکی تصور کی معنویت تلاش کی جائے تو خود علامہ کی پیش کردہ دو اصطلاحوں ’’خودافروزی‘‘ اور’’جگرسوزی‘‘ کی وساطت سے بھرپور انداز میں تفہیم کی جا سکتی ہے۔ گویا یہ دو شاعرانہ ترکیبیں نہیں ہیں بلکہ ان کے ذریعے کلامِ اقبال میں تصور حرکت و حرارت کو درست طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ ایک بڑی سطح پر یہ ان کے تصور خودی اور تصورِ عشق کی ترجمان اصطلاحیں ہیں۔
اقبالؒ کے مطابق خودافروزی درحقیقت ذات کے امکانات کی دریافت کا نام ہے اور جگر سوزی ان امکانات کے حصول کیلئے تسلسل اور محنتِ شاقہ سے تگ و دو کرنے سے عبارت ہے۔ وہ اپنی نثر میں بھی اس جانب توجہ دلاتے ہیں کہ ذاتی محنت کے علاوہ جو کچھ بھی حاصل ہو وہ محض سوال کی ذیل میں آتا ہے اور دریوزہ گری کے علاوہ کچھ نہیں۔ یہ احساسِ نفس اور قوتِ عشق ہے جو انسان کی زندگی کو پست سے بالا کر دیتی ہے اور وہ معاشرے اور انسانیت کیلئے قابلِ قدر ٹھہرتا ہے۔
اقبالؒ کے ہاں خودافروزی اور جگرسوزی کی تفہیم ان کی دو علامتوں کے ذریعے بخوبی سمجھی جا سکتی ہے اور وہ رمزیں پروانہ اور جگنو کی ہیں۔ اقبالؒ ان دونوں کی حیاتیاتی اور متعین خصوصیات کی بنا پر انھیں ’کرمکِ ناداں‘ اور ’کرمکِ شب تاب‘ سے بھی موسوم کرتے ہیں۔ دونوں میں بظاہر مشترک صفت نُور یا روشنی ہے کہ جس سے جگنو کا وجود تو مُستنیر ہے لیکن یہی نُور پروانے کی تمنّا ہے اور وہ اس کیلئے لپک رکھتا ہے خواہ اس کیلئے پرائی آگ میں کیوں نہ کُودنا پڑے یعنی کسی کا سہارا کیوں نہ لینا پڑے۔
شعری و ادبی روایت کی رُو سے پروانہ عاشق کی علامت ہے اور عشق میں فنا پذیری اس کا شعار ہے جب کہ جگنو ایک روشن کیڑا ہے جو نور کو مستعار نہیں لیتا بلکہ نور اس کی کوکھ سے پھوٹتا ہے۔ اقبال کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنے فلسفۂ حیات کی تفہیم کی غرض سے دونوں شعری کرداروں کو انفرادیت اور جدت سے ہمکنار کر دیتے ہیں۔ وہ چونکہ تحرک و حرکت پر مبنی مظاہر کے دلدادہ ہیں تو اسی تناظر میں پروانے کی روشنی کیلئے طلب کو سراہتے ہیں اور جگنو کا سراپا نور ہو جانا ان کی توجہ اپنی جانب کھینچ لیتا ہے۔ یوں دونوں کے متحرک عناصر وجود ان کے ہاں عمل و حرکت کے پیغام میں ڈھل گئے ہیں۔
پروانے کی طلب دراصل خودی کے امکانات کی دریافت اور سچی لگن کا استعارہ ہے اور جگنو کا اپنی روشنی پر قناعت کرنا دوسروں کی دریوزہ گری سے اجتناب کی صورت اختیار کرکے فقر و استغنا اور قلندرانہ روش میں ڈھل گیا ہے۔ یوں پروانہ و جگنو کے علائم اقبال کے بنیادی تصورات کی ترسیل و تفہیم میں موثر کردار ادا کرتے ہیں اور اسی بِنا پر انھیں کلامِ اقبال کی کلیدی رمزیں شمار کیا جاتا ہے۔
روایتی معنوں میں دیکھیں تو پروانے کے عشق کو زیادہ تر شاعری میں بلبل کے جذبۂ شوق سے کم تر گردانا جاتا ہے اور اسے کم حوصلہ کہا گیا جو محبت میں جل کر مرنے ہی کو عشق کی معراج سمجھتا ہے۔ لیکن اقبالؒ نے اپنے خاص نظامِ فکر سے اس کے معنی بدل دیے ہیں اور وہ عشق میں اس کے خاکستر ہو جانے کو تمنّائے روشنی، خودسپردگی اور سیمابیت پر محمول کرتے ہوئے نگاہِ ستائش سے دیکھتے ہیں۔ وہ پروانے کے اضطرار و اضطراب، ذوقِ تماشائے نُور، اس کے سراپا استفسار ہونے اور خاکستر ہو کر سراپا نور ہو جانے کے اوصاف کی نہایت متحرک تفسیر و تشریح کرتے ہیں، مثلاً:
پروانہ اور ذوقِ تماشائے روشنی
کیڑا ذرا سا اور تمنّائے روشنی
جلانا دل کا ہے گویا سراپا نُور ہو جانا
یہ پروانہ جو سوزاں ہو تو شمعِ انجمن بھی ہے
پروانے کے یہی اوصاف وہ افرادِ ملّت میں دیکھنا چاہتے ہیں اور ان کے سینوں میں تخلیقِ مقاصد کی حقیقی تڑپ کے منتظر دکھائی دیتے ہیں۔ اقبالؒ نوجوانوں میں ’ذوقِ خود افروزی‘ اور ’جگر سوزی‘ پیدا کرنے کی تمنّائی ہیں۔ اقبال مردِ مسلماں میں ’شعلہ آشامی‘ کا وصف پیدا کرنے کیلئے کبھی جوش و ولولے کے اسلوب میں بات کرتے ہیں تو کہیں یاس و حسرت کے انداز میں اس خواہش کا اظہار کرتے ہیں کہ افرادِ ملّت اسلامیہ اپنے باطن سے پھوٹنے والی روشنی کو پہچانیں۔ اقبالؒ ’چراغِ حرم‘ کو ملّتِ اسلامیہ کی رمزیت سے ہمکنار کرتے ہوئے اس کیلئے ایسے پروانے کے طلب گار نظر آتے ہیں جو اپنی عملی و حرکی طرزِ طواف سے اس میں ’سرشتِ سمندری‘ پیدا کر دے۔ اشعار دیکھیے جن میں انھوں نے علامتی پیکر میں بات کو خوشگوار انداز میںسمجھانے کی کوشش کی ہے:
اپنے پروانوں کو پھر ذوقِ خردافروزی دے
برقِ دیرینہ کو فرمانِ جگر سوزی دے
وہ جگر سوزی نہیں، وہ شعلہ آشامی نہیں
فائدہ پھر کیا جو گردِ شمع پروانے رہے
کوئی ایسی طرزِ طواف تو مجھے اے چراغِ حرم بتا!
کہ ترے پتنگ کو پھر عطا ہو سرشتِ سمندری
اقبالؒ نے اپنے کلام میں طنز کی کاٹ کو گہرا کرنے کیلئے پروانہ و جگنو کی رمزیں برتی ہیں، مثلاً:
یہ راز ہم سے چھپایا ہے میر واعظ نے
کہ خود حرم ہے چراغِ حرم کا پروانہ
شمع کو بھی ہو ذرا معلوم انجامِ ستم
صرفِ تعمیرِ سحر خاکسترِ پروانہ کر
اس ضمن میں کلام اقبال کا وہ پہلو نہایت دلکش ہے جہاں وہ جگنو کو پروانے سے برتر لائے ہیں اور اسے ’کرمکِ شب تاب‘(یعنی رات کو روشنی کر دینے والا کیڑا)قرار دے کر یہ موضوع پیش کر دیتے ہیں کہ جگنو ایک ایسا روشن کیڑا ہے جو پروانے کے برعکس محتاجی اور کاسہ لیسی کو اپنا شعار نہیں بناتا بلکہ خودانحصاری، خودشناسی اور خودنگری کے اوصافِ عالیہ کا حامل ہے۔ ان کے مطابق پروانہ، طُورِ شمع کا کلیم تو ہے لیکن اس کے باوجود نورِ مستعار کا اسیر ہے اور اسی وجہ سے بقا پاتا ہے چنانچہ کم حیثیت کا مالک ہے۔ تقابلی رنگ میں دیکھیں تو اقبالؒ کو جگنو زیادہ عزیز ہے، اسی لیے تو اس کی شان میں رطب اللسان ہوتے ہیں کہ یہ پھولوں کی انجمن میں جلنے والی شمع ہے، آسمان سے اُڑ کر زمین پر اُترنے والا ستارہ ہے، مہتاب کی کرن کی مجسم صورت ہے، رات کی سلطنت میں صبح کے سفیر کی طرح ہے اور ایک ایسے غریب الوطن کی طرح ہے جو وطن میں تو گم نام تھا، لیکن مسافرت میں چمک اُٹھا ہے، یہ مہتاب کی قبا کے تکمے کی طرح ہے یا پھر سورج کے پیرہن کا نمایاں ذرّہ ہے، یہ حُسنِ قدم کی کوئی ایسی پوشیدہ جھلک ہے، جسے قدرتِ حق نے خلوت سے انجمن میں اُتار دیاہے۔ یوں سمجھیے کہ جگنو ایک ایسے چھوٹے چاند کی طرح ہے جس میں تاریکی بھی ہے اور روشنی بھی، سو کبھی یہ گہن سے نکل آتا ہے تو کبھی اس پر گہن چھا جاتا ہے۔یہ ہیں وہ اوصاف جو محض جگنو کے نہیں بلکہ ملّتِ اسلامیہ کے فرد کے ہیں جو خیرالبشرﷺ کی اُمّت کا فردہے اور اشرف المخلوقات ہونے کے ناتے سربلندی و کامرانی کے اوصافِ عالیہ رکھتا ہے۔ اگر وہ ان اوصاف کی نمود کرے تو افضل ٹھہرتا ہے بصورتِ دیگر نامرادی و ناکسی کے باعث اسے گہن لگ جاتا ہے۔
درحقیقت اقبالؒ نے جگنو کے ظاہری اوصاف سے باطنی خوبیاں اخذ کی ہیں اور انھیں بے مثال حرکی مثالوں میں ڈھال دیا ہے۔ اقبالؒ اپنے محبوب طریقہ کار کے مطابق تضا وتقابل کے ذریعے خودشناسی اور عشق شعاری کا سبق دیتے ہیں اور اکثر مقامات پر پروانہ و جگنو کا تقابل کرکے عمل کی تشویق و ترغیب دلاتے ہیں، فرماتے ہیں:
پروانہ اک پتنگا، جگنو بھی اک پتنگا
وہ روشنی کا طالب، یہ روشنی سراپا
چنانچہ وہ ’’بانگِ درا‘‘ کی نظم ’جگنو‘ ہو، یا ’ہمدری‘ یا ’ایک پرندہ اور جگنو‘ یا پھر ’’بالِ جبریل‘‘ کی ’پروانہ اور جگنو‘اقبال کا بنیادی نقطۂ نظر یہی ہے کہ پروانہ ایسے افرادِ قوم کی مانند ہے جو غیر کی استعداد پر انحصار کے باعث پرائی آگ کی طرف لپکتا ہے جب کہ جگنو خودداری و خودانحصاری کی مثال ہے اور اقوام و ملک کو اسی کے اوصاف اپنانے سے ارتقا اور سربلندی ملتی ہے اور ایسی قومیں ہی اپنے زورِ عمل سے ملّت کا کردار تبدیل کرتی ہیں:
قلندرانہ ادائیں، سکندرانہ جلال
یہ اُمتیں ہیں جہاں میں برہنہ شمشیریں
ایسی کوئی دُنیا نہیں افلاک کے نیچے
بے معرکہ ہاتھ آئے جہاں تختِ جم و کے
پروفیسرڈاکٹر بصیرہ عنبرین پنجاب یونیورسٹی میں ڈائریکٹر ادارہ تالیف و ترجمہ ہیں