بزرگوں کا خیال

تحریر : سائرہ جبیں


فیضان بیٹا! ذرا پانی تو پلا دو، گھٹنوں میں اتنا درد ہے کہ کھڑا بھی ہوا نہیں جا رہا، دادی امی نے کمرے سے آواز لگائی۔فیضان جس کے ہاتھ میں بیٹ بال تھا، کمرے میں آیا، دادی کو پانی پلایا اور بھاگتا ہوا باہر چلا گیا۔

فیضان، ریحان اور صبا تینوں بہن بھائی تھے اور کھیلنے کودنے کے بہت شوقین تھے۔

صبا بیٹا! ذرا میری عینک تو ٹیبل سے اٹھا کر دے دو‘‘۔ دادی امی نے صبا کو آواز دی۔ تھوڑی دیر بعد صبا آئی اور عینک اٹھا کر دے دی۔ ابھی وہ باہر جانے کیلئے مڑی ہی تھی کہ دادی نے کہا ’’ کہاں جا رہی ہو، ادھر میرے پاس بیٹھو‘‘۔’’دادو! ابھی تو میں اپنی دوست کے ساتھ گڑیا سے کھیل رہی ہوں، آپ کے پاس بعد میں بیٹھوں گی، ابھی چلتی ہوں‘‘ صبا نے کہا اور جلدی سے جا کر اپنی سہیلی کے ساتھ کھیلنے لگی۔ 

رات کے کھانے کے بعد دادی اکیلی اپنے کمرے میں بیٹھی تھیں ۔دراصل سب لوگ اپنے اپنے کاموں میں لگے ہوتے تھے، اس لئے وہ اکیلی بور ہوتی تھیں۔

رات کے کھانے کے بعد جب سب فارغ ہو گئے تو دادی نے فیضان اور ریحان کو آواز دی’’ ریحان! فیضان! ذرا میرے کمرے میں تو آئو‘‘ ریحان اور فیضان ویڈیو گیم کھیل رہے تھے ،ان کا تو بالکل بھی اٹھنے کو دل نہیں چاہ رہا تھا مگر جب دادی نے دوبارہ آواز دی تو وہ اٹھ کر آئے۔

’’بیٹا! آئو میں تمہیں کہانی سنائوں‘‘ دادی نے کہا، ’’ نہیں، نہیں دادو! ابھی تو ہم بالکل بھی نہیں آ سکتے، ہم لوگ اپنا پسندیدہ ویڈیو گیم کھیل رہے ہیں، بعد میں آئیں گے‘‘ یہ کہہ کر دونوں جلدی سے اپنے کمرے میں چلے گئے۔ 

امی سارا دن کچن کے کاموں میں لگی رہتی تھیں، وہ کھانا ہمیشہ دادی کے ساتھ کھاتیں، ان کے ساتھ بیٹھ کر چائے پیتیں مگر وہ مسلسل دادو کے پاس نہیں بیٹھ سکتی تھیں۔ 

ابو تو ویسے بھی رات کو دیر سے آفس سے واپس آتے تھے۔ دادی چاہتیں کہ بچے بھی ان کے پاس بیٹھیں، ان سے باتیں کریں مگر بچے اپنے اپنے کھیل میں مگن رہتے اور دادی کو بالکل وقت نہ دیتے۔ 

 عصر کی نماز کے بعد دادو نے تسبیح مکمل کی اور بچوں کو آواز دی۔ فیضان اور ریحان تو باہر ہی موجود تھے اور صبا سٹڈی روم میں تھی۔ آواز سن کر وہ تینوں کمرے میں آ گئے۔ دادو نے پوچھا ’’ کیا کر رہے ہو بچو؟‘‘

’’ہم دونوں سٹڈی روم میں ہوم ورک کرنے جا رہے تھے‘‘۔ ریحان اور فیضان نے کہا ’’ اور میں اپنا پراجیکٹ بنا رہی تھی‘‘ صبا نے بتایا۔’’تم سب کا جو بھی کام ہے، میرے کمرے میں آکر کر لو‘‘ دادو نے کہا۔’’نہیں دادو، سٹڈی روم میں ہمارا سامان پڑا ہے،کام کے بعد یہاں آئیں گے، یہ کہہ کر بچے اپنے اپنے کاموں میں لگ گئے۔ کام کرنے کے بعد وہ دادو کے کمرے میں نہیں گئے بلکہ ویڈیو گیم کھیلنے لگے، تینوں بچے ہر بار یوں ہی کرتے، سارا دن وہ کام اور کھیل کود میں مصروف رہتے اور دادو کے پاس نہ بیٹھتے۔

بچو! آپ کو نہیں لگتا کہ یہ غلط ہے؟ ہمارے بڑے کیا چاہتے ہیں؟ صرف ہمارا تھوڑا سا وقت! آپ بھی اپنی روز مرہ کی زندگی سے وقت نکال کر اپنے بزرگوں کے پاس تھوڑی دیر ضرور بیٹھا کریں، ان کے ساتھ باتیں کیا کریں۔اس کے بدلے میں وہ آپ کوڈھیروں دعائیں دیں گے۔اور آپ کو بھی ان کے ساتھ وقت گزار کر خوشی ملے گی۔

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

مغربی قوتیں اور پاکستانی سیاسست

نئی امریکی انتظامیہ اور اس کے عہدیداروں کے پاکستانی سیاست میں چرچے ہیں۔ نو منتخب امریکی صدر کے نمائندہ برائے خصوصی مشن رچرڈ گرینیل کے یکے بعد دیگرے ٹویٹس ملکی سیاسی صورتحال میں ہلچل پیدا کر رہے ہیں۔

مذاکراتی عمل سے وزیراعظم پر امید کیوں؟

حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکراتی عمل کے آغاز سے قومی سیاست میں کسی حد تک ٹھہرائو آیا ہے ۔کہا جاتا ہے کہ جب سیاسی قیادتیں میز پر آ بیٹھیں تو مسائل کے حل کا امکان پیدا ہو جاتا ہے اور سیاسی معاملات آگے بڑھتے نظر آتے ہیں۔

کراچی میں پانی کا بحران ،احتجاج اور مقدمے

پیپلز پارٹی اور حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) میں اختلاف ہر روز بڑھتا جا رہا ہے اور پی پی رہنما گاہے بگاہے بالواسطہ یا بلاواسطہ تنقید کررہے ہیں۔ یہ تنقید بظاہر حکومت کی پالیسیوں پر ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ اندرون خانہ کوئی اور ہی کھچڑی پک رہی ہے۔

دیر آیددرست آید

پاکستان تحریک انصاف اور وفاقی حکومت کے مابین مذاکراتی عمل شروع ہو گیا ہے جس کا پہلا دور پیر کے روز پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔ اگرچہ باضابطہ مذاکرات دو جنوری کو ہونے جارہے ہیں لیکن یہ سلسلہ شروع تو ہوا۔ پاکستان تحریک انصاف کو بھی اس بات کا احساس ہو گیا ہے کہ مذاکرات کے ذریعے ہی مسئلے کا کوئی حل نکالاجاسکتا ہے۔

خونی سال رخصت ہوا

2024ء بلوچستان کیلئے اچھا ثابت نہیں ہوا۔ عام انتخابات کے بعد 24فروری کو صوبے میں پیپلز پارٹی مسلم لیگ (ن) اور بلوچستان عوامی پارٹی کی مخلوط صوبائی حکومت نے صوبے میں اقتدار سنبھالا۔

سیاسی بحران ٹل گیا

آزاد جموں و کشمیر میں تین ہفتوں سے جاری سیاسی بحران بالآخر ختم ہو گیا۔ مسلم لیگ(ن) کے قائد میاں نواز شریف اور صدر پاکستان آصف علی زرداری کی مداخلت سے دونوں جماعتوں نے چوہدری انوار الحق کی حکومت کی حمایت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔