قول و فعل میں تضاد، انسان کی بدترین صفت
ـ’’اللہ کے نزدیک بڑی نا پسند بات ہے جو کہو اس کو کرو نہیں‘‘ (سورۃ الصف: 3) جو لوگوں کو نیکی کا حکم دیتا ہے اور خود عمل نہیں کرتا اس عالم کی مثال اس چراغ کی مانند ہے جو لوگوں کو تو روشنی دیتا ہے جبکہ اپنے نفس کو جلا دیتا ہے(طبرانی: 1681)کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک اس کا دل اس کی زبان کے مطابق نہ ہو جائے اور اس کا قول اس کے عمل کی مخالفت نہ کرے (الترغیب و الترھیب: 223)
جو شخص نفس پرستی، دنیا پرستی اور مادہ پرستی کا شکار ہوتا ہے، اس کے قول و فعل میں تضاد لازمی طور پر ہوتا ہے۔ اسی طرح جو لوگ صدقِ دل اور حسنِ نیت کے ساتھ خدا اور اس کے رسول ﷺ کی بندگی اور اطاعت کو قبول کر لیتے ہیں قول و فعل میں ہم آہنگی ان کی زندگی کا جزو لاینفک ہوتا ہے۔ صاحب ایمان اچھی طرح جانتا ہے کہ قول و فعل کا تضاد ایک قسم کا جھوٹ ہے۔ جس سے بچنے کی تلقین دین اسلام نے کی ہے۔ ایسے ایمان والے جن کے گفتار و کردار میں ہم آہنگی نہیں ہوتی ان کی سرزنش و ملامت کرتے ہوئے رب کائنات ارشاد فرماتا ہے ’’ اے ایمان والو! تم کیوں ایسی بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو، بڑی ناراضگی کا باعث ہے، اللہ کے نزدیک بڑی نا پسند بات ہے جو کہو اس کو کرو نہیں‘‘ (سورۃ الصف: 2-3)
اسلام اپنے ماننے والوں میں جن اخلاق و اوصاف، صفات و کمالات، عادات و اطوار اور خوبیوں کو دیکھنا چاہتا ہے ان میں سے ایک نمایاں وصف، خوبی اور عادت یہ ہے کہ ایک مومن کے قول و فعل میں ہمیشہ اور ہر حال میں ہم آہنگی پائی جائے۔
دوسرے لفظوں میں کہنا کچھ اور کرنا کچھ، ایک بزدل اور منافق کا کام تو ہو سکتا ہے مگر ایک مومن کی شان نہیں۔ مومن کا کام یہ ہے کہ وہ جو بات کہے سوچ سمجھ کر اور تول کر کہے اورجب ایک مرتبہ کہہ دے تو اپنے کہے کا ہمیشہ پاس رکھے۔قول و فعل میں متضاد رویہ رکھنے والوں سے متعلق قرآن مجید کی تعلیمات واضح ہیں، چند آیات ملاحظہ ہوں۔’’اور یہ کہ وہ (ایسی باتیں) کہتے ہیں جنہیں (خود) کرتے نہیں ہیں‘‘(الشعراء: 226)۔ ایک اور مقام پر قرآن مجید نے نیکی کی ترغیب کرنے والوں کو یوں مخاطب کیا: ’’کیا تم دوسرے لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو حالانکہ تم (اللہ کی) کتاب (بھی) پڑھتے ہو، تو کیا تم نہیں سوچتے؟‘‘ (البقرہ: 44)۔
قول و فعل میں تضاد کے حوالے سے قرآن مجید نے حضرت صالح علیہ السلام کے قول کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’اور میں یہ (بھی) نہیں چاہتا کہ تمہارے پیچھے لگ کر (حق کے خلاف) خود وہی کچھ کرنے لگوں جس سے میں تمہیں منع کر رہا ہوں‘‘ (ھود: 88)۔ ان آیات کے شانِ نزول کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل خطاب ان مومنوں سے ہے جنہوں نے ایک موقع پر کہا تھا کہ اگر ہمیں پسندیدہ اعمال کا علم ہوجائے تو ہم انہیں ہر قیمت پر کریں گے لیکن جب انہیں بعض پسندیدہ اعمال بتلائے گئے تو اپنے عہد یا قول کے مطابق ان پر عمل کرنے کے بجائے سُستی دکھائی۔ اس لیے ان آیات کریمہ میں ایسے لوگوں کو تنبیہ کی جا رہی ہے کہ خیر کی جو باتیں کہتے ہو، کرتے کیوں نہیں ہو؟ جو بات منہ سے نکالتے ہو اسے پورا کیوں نہیں کرتے؟ جو زبان سے کہتے ہو، اس کی پاسداری کیوں نہیں کرتے؟
قول و فعل میں ہم آہنگی کے حوالے سے نبی کریم ؐ کے ارشاداتِ گرامی بھی واضح ہیں۔حضرت اسامہ بن زید ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سُنا کہ قیامت کے روز ایک شخص کو لایا جائے گا اور اسے آگ میں ڈال دیا جائے گا۔ پس اس کی انتڑیاں اور معدہ باہر آجائے گا اور وہ اس کے اردگرد چکر لگا رہا ہو گا۔ جیسے گدھا چکی کے اردگرد چکر لگاتا ہے۔ دوزخی اس سے پوچھیں گے: ارے فلاں! تجھے کیا ہوا؟ تجھے یہ مصیبت کیسے پہنچی؟ کیا تو ہمیں نیکی کا حکم نہیں دیتا تھا اور برائی سے منع نہیں کرتا تھا؟ وہ کہے گا میں تمہیں نیکی کا حکم کرتا تھا اور خود عمل نہیں کرتا تھا (صحیح بخاری، الرقم: 394)۔
خطیب بغدادی نے حضرت جابرؓ کی روایت کو نقل کیا ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جنتی لوگ دوزخیوں پر جھانکیں گے اور پوچھیں گے تمہارے دوزخ میں جانے کا سبب کیا ہے؟ ہم تو تمہاری تعلیم کی وجہ سے جنت میں داخل ہوگئے تو دوزخی کہیں گے: ہم تمہیں حکم دیتے تھے اور خود عمل نہیں کرتے تھے۔(تفسیر در منثور، 1: 176)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص کسی قول یا عمل کی دعوت دیتا ہے اور خود اس پر عمل نہیں کرتا، وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی ناراضی میں رہتا ہے۔ حتیٰ کہ وہ اس برائی سے رک جائے جس سے لوگوں کو منع کرتا تھا۔ جس کی طرف بلاتا ہے اس پر خود بھی عمل شروع کر دے (تفسیر درمنثور، 1: 177)۔
آیاتِ قرآنیہ اور فرامینِ مصطفی ﷺ سے واضح ہوتا ہے کہ ایک سچے مسلمان کے قول اور عمل میں مطابقت ہونی چاہیے کہ وہ جو کچھ کہے اسے کر کے دکھائے اور کرنے کی نیت یا ہمت نہ ہو تو زبان سے بھی نہ نکالے۔ کہنا کچھ اور کرنا کچھ، یہ انسان کی ان بدترین صفات یا برے اخلاق میں سے ہے جو اللہ کریم کی نگاہ میں سخت ناپسندیدہ ہیں۔ نبی اکرمﷺ اور صاحب خلق عظیم نے کئی مواقع پر اس امر کی تصریح فرمائی ہے کہ کسی شخص میں ایسی صفت یعنی قول و فعل کا تضاد پایا جانا ان علامات میں سے ہے جو ظاہر کرتی ہیں کہ وہ مومن نہیں بلکہ منافق ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’منافق کی تین نشانیاں ہیں اگرچہ وہ نماز پڑھتا ہو، روزہ رکھتا ہو اور مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا ہو۔ پہلی یہ کہ جب بولے تو جھوٹ بولے، دوسری جب وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے اور تیسری جب کوئی امانت اس کے سپرد کی جائے تو اس میں خیانت کرے۔‘‘(صحیح بخاری، الرقم: 33)
قول و فعل کا تضاد یا قول و عمل میں ہم آہنگی اور مطابقت نہ ہونے کی عادت جہاں دنیا میں انسان کی شہرت، نیک نامی اور عزت کو نقصان پہنچاتی اور معاشرے میں اس پر اعتبار و اعتماد کو کھو دیتی ہے، وہاں اسلامی نقطہ نظر سے آخرت میں بھی یہ بات قابلِ گرفت ہے۔ تاریخ انسانی شاہد ہے جو قوم زبانی دعوؤں کے سہارے زندگی گزارنے کی عادی تھی وہ زندگی کے کسی میدان میں کوئی نمایاں کارکردگی انجام نہیں دے سکی۔ ہمارے اسلاف کے قول و عمل میں ہم آہنگی تھی جس کے باعث ان لوگوں نے ایسے کارہائے نمایاں انجام دیے جس کا اعتراف اغیار آج بھی کرتے ہیں۔
کچھ عرصہ سے قول و فعل کا تضاد مسلم معاشر ے میں معاشرتی بیماری بن کر ابھر رہی ہے جس کے باعث ہم مذہبی، معاشی، سیاسی، تعلیمی، معاشرتی میدان میں کوئی نمایاں کارنامہ انجام نہیں دے پا رہے ہیں۔ قول و فعل کے تضاد کا وبال ساری امت پر آرہا ہے اسی لیے قول و فعل میں ہم آہنگی پیدا کرنا وقت کی اہم ضرورت بن گیا ہے۔چنانچہ سورۃ الصف کی مذکورہ بالا آیات کی تفسیر میں مفسر قرطبی نے معروف صحابی حضرت انس بن مالک ؓ سے مروی یہ روایت لکھی ہے کہ رسول مقبول ﷺ نے فرمایا: ’’معراج کی رات میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے ہونٹ آگ کی قینچیوں سے مسلسل کاٹے جا رہے تھے۔ ادھر ہونٹ کاٹے جاتے اور اْدھر درست ہوجاتے۔ میں نے جبرئیل امین ؑ سے پوچھا: یہ کون اور کیسے لوگ ہیں؟ تو انھوں نے بتایا کہ یہ آپ ﷺ کی امت کے وہ خطیب و واعظ ہیں جو لوگوں کو تو وعظ و نصیحت کرتے تھے مگر خود اس پر عمل نہیں کرتے تھے۔ اسی طرح اللہ کی کتاب یعنی قرآن مجید کی تلاوت کرتے تھے مگر اس کے مطابق عمل نہیں کرتے تھے‘‘ (اخرجہ احمد بن حنبل: 12232)
اہلِ علم جانتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے جس چیز کا بھی حکم دیا ہے پہلے خود اس پر سو فیصد سے بھی زیادہ عمل کرکے دکھایا۔ چنانچہ پہلے چالیس سال تک قرآن بن کر دکھایا، اس کے بعد قرآن پڑھ کر سنایا اور عمل کا حکم دیا۔ پہلے خود ساری ساری رات کھڑے ہوکر عبادت کی تب جاکر لوگوں کو دن رات میں صرف پانچ نمازوں کا حکم دیا۔ پہلے خود اپنا سب کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کیا، تب کہیں لوگوں کو صرف اڑھائی فیصد زکوٰۃ کا حکم دیا۔ اگر غریبوں اور مسکینوں کی اعانت کا حکم دیا تو پہلے خود اس فرض کو ادا کیا۔ خود بھوکے رہے اور دوسروں کو کھلایا، اگر آپﷺ نے دشمنوں کو معاف کرنے کی نصیحت کی تو پہلے خود اپنے دشمنوں کو معاف کیا۔ کھانے میں زہر دینے والوں سے درگزر کیا ۔مختصر یہ کہ رسول مکرم ﷺ کی ساری زندگی قول و فعل میں ہم آہنگی کا ایک کامل اور بے مثال نمونہ ہے اور یہی سیرت و کردار آپ ﷺ اپنی امت کے ہر فرد میں دیکھنا چاہتے تھے۔