علامہ محمد اقبالؒ اور مسئلہ فلسطین
جس طرح آج دنیا کاہرحساس فرد غزہ پر ہونے والے حملوں پر مضطرب ہے نصف صدی قبل جب اسرائیل کی بنیاد رکھی گئی عالم اسلام میں اس سے زیادہ اضطراب پیدا ہوا تھا جس کا ایک مظہر یہ بھی تھا کہ اس وقت اقبالؒ اپنی قوم کی آزادی کے مسئلے پر برطانوی حکومت کی بلائی ہوئی گول میز کانفرنس میں شرکت کیلئے لندن گئے ہوئے تھے۔
مسئلہ فلسطین کے ساتھ ان کی وابستگی کا اندازہ اس بات سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ اقبالؒ نے یہاں بھی فلسطین میں برطانوی ناانصافی کے خلاف آواز بلند کی اور برطانوی پریس کے نمائندوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’انگریزوں کو بحر مردار کے مالی ذخائر اور دوسرے معاملات کا خیال ترک کرکے اخلاقی حیثیت سے اہل فلسطین کے ساتھ انصاف کرنا چاہیے اور اس سلسلہ میں سب سے پہلا کام یہ ہے کہ بالفور کا اعلان منسوخ کردیا جائے ‘‘۔
وہ گول میزکانفرنس کے دوران میں لندن سے مصر اور اور وہاں سے 5 دسمبر1931ء کو بیت المقدس کیلئے روانہ ہوگئے۔ انھوں نے موتمر عالم اسلامی کی بیت المقدس کانفرنس میں شرکت کی، اگرچہ یہودیوں نے اس کانفرنس کے انعقاد کی بھرپور مخالفت کی تھی لیکن مفتی اعظم فلسطین سید امین الحسینی کی مساعی سے یہ کانفرنس بالآخر منعقد ہوکر رہی۔7دسمبر1931ء کو شروع ہونے والی اس کانفرنس کویہ اعزاز بھی حاصل ہوا کہ اقبالؒ اس موتمر کے نائب صدر بنائے گئے ۔انھیں اس کی متعدد سب کمیٹیوں کا رکن بھی بنایا گیا جو بعض تجاویز پر بحث کرنے کیلئے مقرر کی گئی تھیں۔اقبالؒ نے ان میں سے پانچ کی کارروائی میں حصہ لیا۔ انھوں نے عالم اسلامی کے نمائندوں سے انگریزی میں خطاب کیا۔ وہ6 دسمبر سے15 دسمبر 1931ء تک فلسطین میں مقیم رہے اور ان نو دنوں میں وہاںانھوں نے فلسطین کے تاریخی مقامات کا بھی مشاہدہ کیاجس کا نتیجہ ان کی معرکۃالاآرا نظم’’ ذوق و شوق‘‘ کی صورت میں نکلا۔ ان کے مجموعہ کلام میں ،جس کے عنوان کے نیچے ،آج بھی یہ وضاحت درج ہے کہ’’ ان اشعار میں سے بیشتر فلسطین میں لکھے گئے ‘‘اقبالؒ نے موتمر کے نمائندوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’اسلام کو اس وقت دو طرف سے خطرہ ہے،ایک الحاد مادی کی طرف سے اور دوسرا وطنی قومیت کی طرف سے ہمارا فرض ہے کہ ان دونوں خطروں کا مقابلہ کریں اور میرا یقین ہے کہ اسلام کی روح ان دونوں خطروں کو شکست دے سکتی ہے ،وطنی قومیت یا وطنیت بجائے خود کوئی بری چیز نہیں لیکن اگر اس میں خاص اعتدال ملحوظ نہ رکھا جائے اور افراط و تفریط ہو جائے تو اس میں بھی دہریت اور مادہ پرستی کے پیدا ہو نے کے امکانات ہیں‘‘
اقبالؒ کا دوسرا زور جدید علوم کے حصول پر تھا جب یروشلم میں جامعہ الازہر کی طرز کی یو نی ورسٹی قائم کرنے کی تجویزپیش کی گئی تواس پر اقبال کا ردعمل یہ تھاکہ قدیم طرز کی جامعات کی بجائے عالم عرب کو جدید علوم کے مراکز قائم کر نے کی ضرورت ہے ۔کانفرنس کے اختتام پر اقبالؒ نے عالم عرب کو مخاطب کر کے کہا : ’’میرا عقیدہ ہے کہ اسلام کا مستقبل عرب کے مستقبل کے ساتھ وابستہ ہے اور عرب کا مستقبل عرب کے اتحاد پر موقوف ہے، جب عرب متحد ہو جائیں گے تو اسلام کامیاب ہو جائے گا ‘‘
ہندوستان واپس پہنچنے کے بعد یکم جنوری 1932ء کو لاہور کے مشہور انگریزی اخبار سول اینڈ ملٹر ی گزٹ کے نمائندے نے ان سے انٹرویو کیا تو انھوں نے اپنے سفر فلسطین کے حوالے سے بتایا کہ ’’سفر فلسطین میری زندگی کا نہایت دلچسپ واقعہ ثابت ہوا ہے فلسطین کے زمانۂ قیام میں متعدد اسلامی ممالک کے نمائندوں سے ملاقات ہوئی شام کے نوجوان عربوں سے مل کر میں خاص طور پر متاثر ہواان نوجوانان اسلام میں اس قسم کے خلوص و دیانت کی جھلک پائی جاتی تھی جیسی میں نے برطانیہ میں فاشسٹ نوجوانوں کے علاوہ کسی میں نہیں دیکھی ‘‘۔اقبالؒ نے اپنی ایک تخیلاتی سیر افلاک کی روداد اپنی بے مثال تخلیق جاوید نامہ میں پیش کی ہے جس میں وہ تاریخ عالم کی نامور شخصیات سے مکالمہ کرتے ہیں اور کبھی ان کے الفاظ میں اور کبھی اپنے الفاظ میں اپنے استفسارات پر ان کے جوابات سے قاری کو مطلع کرتے ہیں یہ ایک غیر معمولی تخلیقی تجربہ ہے۔ اس سے پہلے رسالۃ الغفران،ابن عربی کی فتوحات مکیہ اور اور دانتے کی ڈیوائن کامیڈی کو اس وضع کی کتابیں قرار دیا جاتاہے لیکن جاوید نامہ کا سکوپ ان سے مختلف اور وسیع تر ہے۔
فلک عطارد پر ان کی ملاقات سعید حلیم پاشا اور سید جمال الدین افغانی سے ہوتی ہے،وہ سید جمال الدین افغانی کو اپنا ہم نوا پاکرا س سے کہتے ہیں کہ ملت اسلامیہ کاکام تو زمانے سے باطل کے اثرات کو مٹانا تھا لیکن یہ خود دین ووطن کی آویز ش کا شکار ہو چکی ہے۔ اس کا سبب اس کے باطن میں فروزان شمع ایمان کی لو کے مدھم ہوجانے کے باعث ہے مشرق ،مغرب کی حکمرانی کے ہاتھوں برباد ہو ااور اشتراکیت کے تصور نے دین و ملت کی تاب و توان ختم کردی (واضح رہے کہ یہ کتاب فروری 1932ء میں شائع ہوئی تھی ) اقبالؒ کہتے ہیں:
ترک و ایران و عرب مست فرنگ
ہر کسی را در گلو شست فرنگ
ترک ہو یا ا یران یا عرب سب فرنگیوں کے افکار و تصورات میں مست ہیں ،ہر ایک کے گلے میں فرنگیوں کا پھندا پڑا ہوا ہے ۔اپنے اردو کلام میں انھوں نے فلسطینی عرب سے مخاطب ہو کر کہاتھا کہ اپنی آزادی کیلئے جنیوا یا لندن کی طرف دیکھنے کی بجائے اپنی خودی کو مضبوط کر نے میں امتوں کی نجات ہوتی ہے اور وہ سوز جو قوموں کو زندہ رکھتا ہے وہ فلسطینی عرب کی رگوں میں موج زن ہے۔جاوید نامہ میں اقبالؒ نے افغانی کے سامنے جو سوال نما تاثر رکھا تھااس پر افغانی کاجواب اس طرح سے ہے (یہ ایک شاعرانہ اندازِبیان ہے ورنہ اقبالؒ کا سوال بھی اقباؒل ہی کا ہے اور افغانی کا جواب بھی اقبالؒ ہی دے رہے ہیں )۔
لرد مغرب آن سراپا مکر وفن
او بفکر مرکز و تو در نفاق
تو اگر داری تمیز خوب وزشت
چیست دین برخاستن از روئے خاک
تا زخود آ گاہ گردد جان پاک
اقبالؒ کہتے ہیں: یورپ کا لارڈ جو سراپا مکر وفن ہے اس نے اہل دین کو نیشنلزم کی تعلیم دی ۔وہ خود تو مرکزیت کی فکر میں ہے اور تو (عالم اسلام)نفاق میں پڑا ہوا ہے تجھے بھی چاہیے کہ اس کی طرح متحد ہو کر شام فلسطین اور عراق کی علیحدگی کی باتیں چھوڑ دے ۔اگر تو اچھے برے میں فرق کرنا جانتا ہے تو اپنا دل مٹی پتھر اور اینٹ سے مت لگایعنی وطنیت کے محدود تصور سے اوپر اٹھ جا ۔
فلسطینی عرب سے
زمانہ اب بھی نہیں جس کے سوز سے فارغ
میں جانتا ہوں وہ آتش ترے وجود میں ہے
تری دوا نہ جنیوا میں ہے ، نہ لندن میں
فرنگ کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے
سنا ہے میں نے ، غلامی سے امتوں کی نجات
خودی کی پرورش و لذت نمود میں ہے