بچوں کے دلچسپ جملے

تحریر : اسد بخاری


میں ایک دوست کے ہاں ڈنر پر مدعو تھا، ڈنر تھوڑا لیٹ تھا اس لیے مجھے سخت بوریت ہو رہی تھی۔ اتنے میں اُن کی 6 سالہ بیٹی کھیلتے کھیلتے میرے قریب آئی اور اپنے ہاتھ میں پکڑی ٹافی میری طرف لہرا کر بولی ’’کھائیں گے؟‘‘۔

 میں نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سرہلایا اور منہ کھول دیا۔ اْس نے اطمینان سے ٹافی کا ریپر کھولا اور ٹافی میرے منہ میں ڈالنے کی بجائے اپنے منہ میں ڈال کر چٹخارے لیتے ہوئے بولی ’’مزیدار ہے ناں؟‘‘۔ سیچوئیشنل کامیڈی کے اتنے اچھے مظاہرے نے مجھے ایک دم فریش کر دیا۔

میں جب بھی کسی بچے سے گفتگو کرتا ہوں تو ایسے ایسے تخلیقی جملے سننے کو ملتے ہیں کہ ہنس ہنس کر برا حال ہوجاتاہے۔میرے ہمسائے میں ایک صاحب ہیں جن کے سر پر 60سال کی عمر میں بھی گھنے بال ہیں، ایک دن ان کی پوتی مجھ سے پوچھنے لگی ’’انکل۔میرے دادا امیر ہیں کہ غریب؟‘‘ میں نے پیار سے کہا ’’بھئی آپ کے دادا بہت امیر ہیں‘‘۔ منہ بنا کر بولی ’’سر سے تو نہیں لگتے‘‘!!!

 ایک دفعہ میری چھوٹی بھانجی کہنے لگی’’ماموںمیں نے میکڈونلڈ جانا ہے‘‘۔ میں نے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرا ’’ٹھیک ہے، لے جاتا ہوں لیکن پہلے میکڈونلڈ کے سپیلنگ بتاؤ‘‘کچھ دیر سوچ کر بولی ’’رہنے دیں،کے ایف سی چلتے ہیں!‘‘

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

مغربی قوتیں اور پاکستانی سیاسست

نئی امریکی انتظامیہ اور اس کے عہدیداروں کے پاکستانی سیاست میں چرچے ہیں۔ نو منتخب امریکی صدر کے نمائندہ برائے خصوصی مشن رچرڈ گرینیل کے یکے بعد دیگرے ٹویٹس ملکی سیاسی صورتحال میں ہلچل پیدا کر رہے ہیں۔

مذاکراتی عمل سے وزیراعظم پر امید کیوں؟

حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکراتی عمل کے آغاز سے قومی سیاست میں کسی حد تک ٹھہرائو آیا ہے ۔کہا جاتا ہے کہ جب سیاسی قیادتیں میز پر آ بیٹھیں تو مسائل کے حل کا امکان پیدا ہو جاتا ہے اور سیاسی معاملات آگے بڑھتے نظر آتے ہیں۔

کراچی میں پانی کا بحران ،احتجاج اور مقدمے

پیپلز پارٹی اور حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) میں اختلاف ہر روز بڑھتا جا رہا ہے اور پی پی رہنما گاہے بگاہے بالواسطہ یا بلاواسطہ تنقید کررہے ہیں۔ یہ تنقید بظاہر حکومت کی پالیسیوں پر ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ اندرون خانہ کوئی اور ہی کھچڑی پک رہی ہے۔

دیر آیددرست آید

پاکستان تحریک انصاف اور وفاقی حکومت کے مابین مذاکراتی عمل شروع ہو گیا ہے جس کا پہلا دور پیر کے روز پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔ اگرچہ باضابطہ مذاکرات دو جنوری کو ہونے جارہے ہیں لیکن یہ سلسلہ شروع تو ہوا۔ پاکستان تحریک انصاف کو بھی اس بات کا احساس ہو گیا ہے کہ مذاکرات کے ذریعے ہی مسئلے کا کوئی حل نکالاجاسکتا ہے۔

خونی سال رخصت ہوا

2024ء بلوچستان کیلئے اچھا ثابت نہیں ہوا۔ عام انتخابات کے بعد 24فروری کو صوبے میں پیپلز پارٹی مسلم لیگ (ن) اور بلوچستان عوامی پارٹی کی مخلوط صوبائی حکومت نے صوبے میں اقتدار سنبھالا۔

سیاسی بحران ٹل گیا

آزاد جموں و کشمیر میں تین ہفتوں سے جاری سیاسی بحران بالآخر ختم ہو گیا۔ مسلم لیگ(ن) کے قائد میاں نواز شریف اور صدر پاکستان آصف علی زرداری کی مداخلت سے دونوں جماعتوں نے چوہدری انوار الحق کی حکومت کی حمایت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔