سقوط ڈھاکہ ایک رِستا زخم

تحریر : ڈاکٹر جنید احمد


16دسمبر1971ء جس نے ہماری تاریخ ہی نہیں جغرافیہ بھی بدل دیابھارت کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کو پاکستان توڑنے کا ٹاسک دیا گیا، جس کا بنگلہ دیش کی سیاست اور معیشت پر آج بھی کنٹرول ہے16دسمبر ہماری تاریخ کا سیاہ ترین دن، ہمیں بھارتی مکروہ عزائم ناکام بنانے کیلئے مسلح افواج کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا چاہئے

دسمبر جب بھی آتا ہے ہمیں سقوط ڈھاکہ کی یاد آتی ہے۔ ایک ایسا زخم جو مسلسل رِستا رہتا ہے، سقوط ڈھاکہ کے اسباب کیا تھے؟ کہانیاں کیا ہیں؟ افسانے کیا ہیں؟ حقائق کیا ہیں؟ وہ اس آرٹیکل میں بیان کئے گئے ہیں۔ 

سقوط ڈھاکہ کے حوالے سے یہ بات کہی جاتی ہے کہ اس وقت پاکستان کی 93ہزار فوج نے ہتھیار ڈالے،جوسراسر غلط ہے۔ ایک لیفٹیننٹ جنرل کے ماتحت 3 ڈویژن فوج ہوتی ہے، اورایک ڈویژن میں 15ہزار فوجی ہوتے ہیں۔یوں 3 ڈویژن فوج میں 45ہزار سپاہی ہوئے ،جن میں 11ہزار افراد سپورٹنگ عملہ کے ہوتے ہیں، جن میں نائی، دھوبی، ویٹرز، باورچی،  ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف، نرسز، ڈرائیورز اور مکینک بھی شامل ہیں۔ یہ وہ عملہ ہے جو میدان جنگ میں لڑتا نہیں ہے۔اس طرح  لڑنے والے فوجیوں کی تعداد تو 34ہزار رہ جاتی ہے۔ اس پر جب میں نے مزید تحقیق کی تو تھوڑی سی تحقیق سے ہی یہ پتہ چل گیا کہ 34ہزار تو فوجی تھے جبکہ باقی لوگ سول آرمڈ فورسز کے لوگ تھے جن میں مقامی پولیس، سویلین آفیسرز، ان کی بیویاں اور بچے شامل تھے۔اس طرح یہ بیانیہ کہ 93ہزار فوجیوں نے ہتھیار ڈالے تھے غلط ثابت ہو جاتا ہے۔ 

ہماری قوم نے سقوط ڈھاکہ کے حوالے سے فوج پر لگنے والے الزامات، افسانوں اور کہانیوں کو سچ مان لیا اور کبھی اس کی گہرائی میں جانے کی کوشش ہی نہیں کی۔ اس حوالے سے کچھ من گھڑت باتیں اور ہیں جو اُس وقت میڈیا کے ذریعے خوب پھیلائی گئیں کہ پاکستانی فوج نے 30 لاکھ بنگالیوں کو قتل کیا، 2لاکھ سے زائد عورتوں کی بے حرمتی کی۔ اس پر جب تحقیق کی تو اندازہ ہواکہ ہمارے لوگوں کو گمراہ کیا گیا۔

پہلے بات کرتے ہیں ’’آپریشن سرچ لائٹ‘‘  کی جو 25 اور 26مارچ 1971ء کی درمیانی شب کو شروع کیا گیا تھا جس کا مقصد یہ تھا کہ مشرقی پاکستان میں لاء اینڈ آرڈر اور گورنمنٹ کی رٹ کو قائم کیا جائے۔ یہ اسی قسم کا آپریشن تھا جیسے کراچی میں تین ہو چکے ہیں، سوات میں ہوا، بونیر میں ہوا، سائوتھ اور نارتھ وزیرستان میں ہوا تھا، جو ہم سب نے دیکھا ہے۔ ’’آپریشن سرچ لائٹ‘‘ 25 اور 26 مارچ کو شروع ہوا تھا جو 16دسمبر 1971ء کو ختم ہوا۔ یہ بنتے ہیں 262دن، اگر ہم 30لاکھ کو 262 سے تقسیم کریں تو 11ہزار 480 افراد کا فگر آتا ہے، یعنی 11480 افراد کو روزانہ مارا گیا۔ کیا پاکستان آرمی کے پاس یہی کام رہ گیا تھا کہ روزانہ 11480لوگوں کو پکڑ کر لائو، انہیں مارو اور گاڑھ دو، اور اگلے دن پھر یہی کام کرو، اور مسلسل 262دن یہی کام کرتے رہو۔ حقیقت یہ ہے کہ مشرقی پاکستان میں صرف 34 ہزار سپاہی موجود تھے جو 15 سو میل پر پھیلے بارڈر پر 15ڈویژن بھارتی فوج سے لڑ بھی رہی تھی، اس کے علاوہ ایک لاکھ مکتی باہنی جو سول وار ڈکلیئر کر چکے تھے، جنہیں انڈیا کی مکمل حمایت حاصل تھی، رات کو عورتیں بھی فائرنگ کرتی تھیں۔ ایسے حالات میں پاکستانی فوج جو رات بھر بھارتی فوج اور مکتی باہنی سے لڑتی بھی رہی ہے اور دن میں 11480 بنگالیوں کو بھی مارتی ہے۔ یہ کس طرح ممکن ہے۔ یہ بہت ہی آسان کیلکولیشن ہے، جسے ایک عام آدمی بھی آسانی کے ساتھ کر سکتا ہے، لیکن دشمنوں نے یہ بھی نہیں کی۔ 

کسی بھی بات کو ٹھیک یا غلط ثابت کرنے کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ اس پر پہلے مکمل تحقیق کی جائے، پھر ان الزامات کا مدلل جواب دیا جائے جو ہم پر لگ رہے ہیں۔ میں نے اپنی کتاب  ’’کری ایشن آف بنگلہ دیش متھس ایکسپلوڈڈ‘‘میں ان الزامات کا جواب دینے کے لئے اُن ریفرنسز کو استعمال کیا جو کہ بھارتی اور بنگلہ دیشی تھے، کوئی پاکستانی ریفرنس استعمال نہیں کیا تاکہ اس پر جانبداری کا الزام نہ لگے۔ 

26جنوری 1972ء کو شیخ مجیب الرحمن نے بھی ایک کمیشن بنایا تھا، جس میں 12 لوگ شامل تھے، جنہیں یہ ٹاسک دیا گیا تھا کہ بتائو 1971ء میں پاکستانی فوج کے ہاتھوں ہمارے کتنے بندے مرے اور کتنی عورتوں کی بے حرمتی ہوئی۔ 10 اگست تک انہیں مشرقی پاکستان یا بنگلہ دیش میں کوئی اجتماعی قبر نہیں ملی۔ جس پر انہیں بہت پریشانی تھی، انہوں نے اخبار میں اشتہار دیا کہ جو کوئی ہمیں آ کر بتائے گا کہ وہ کسی ایسے بندے کو جانتا ہے جو اس دوران مرا ہے تو حکومت ہر مرنے والے کے لواحقین کو ایک ہزار ٹکا دے گی۔ اس کے بعد بھی جو ریکارڈ ان کے پاس اکٹھا ہوا وہ 38 ہزار کا تھا۔بنگال حکومت نے ان سب کو ایک ایک ہزار ٹکا ادا کیا۔ جسے بعدازاں بڑھا کر 50 ہزار کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد ایک اور اشتہار کے ذریعے عوام کو پیشکش کی گئی کہ ہر اس شخص کو 3ہزار ٹکا دیا جائے گا جو کسی ایسی خاتون کے بارے میں معلومات دے گا جس کی بے حرمتی کی گئی ہو۔ پوری کمپین کے دوران مجموعی طور پر 2680 شکایات موصول ہوئیں، جسے کمیشن نے بڑھا کر 25 ہزار کر دیا۔ یہ مجموعی وارداتیں تھیں، جن میں مکتی باہنی، جرائم پیشہ افراد اور بھارتی فوجیوں کی وارداتیں بھی شامل تھیں۔ 

یہ رپورٹ 20 اگست 1972ء کو شیخ مجیب الرحمن کو پیش کی گئی تو وہ بہت ناراض ہوئے، انہوں نے وہ رپورٹ ایک بریگیڈیئر کے منہ پر دے ماری اور کہا کہ میں نے کہا تھا کہ 30 لاکھ اموات کو ثابت کریں، 30 لاکھ نہیں کر سکتے تھے تو 3 لاکھ ہی کر دیتے، یہ 50 ہزار کا فگر کہاں سے آ گیا۔ دو لاکھ عورتوں کو تم ایک لاکھ ہی کر دیتے، یہ 25 ہزار کا فگر ہی کیوں۔ اس رپورٹ پر شیخ مجیب الرحمن بہت ناراض ہوئے اور 15 اگست 1975ء، اپنے قتل تک اسے کبھی تسلیم نہیں کیا۔ یہ کمیشن کی رپورٹ چھپی تھی اور میں نے یہ رپورٹ حاصل کر لی تھی۔ 

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ فگر آئے کہاں سے؟ کیا بنگلہ دیش کے اس وقت کے وزیراعظم تاج الدین نے دیئے؟

یہ فگر ایسے آئی کہ 21 یا 22 دسمبر کا سوویت یونین کے ایک بڑے اخبار میں ایک آرٹیکل شائع ہوا جس میں یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ پاکستانی فوج نے بنگلہ دیش میں 30 لاکھ بنگالیوں کو قتل کیا۔ اس کے بعد 8 جنوری 1972ء کو جب شیخ مجیب الرحمن کو پاکستان سے آزاد کیا گیا اور 10 جنوری 1972ء کو جب وہ ڈھاکہ پہنچے تو انہوں نے ہوائی جہاز سے اترتے ہی اس وقت کے وزیر اعظم تاج الدین سے پوچھا کہ کتنے افراد مارے گئے ہیں۔ تاج الدین نے کہا کہ میں نے گنے تو نہیں لیکن میرا اندازہ ہے کہ تقریباً 3لاکھ ہوں گے۔ یہ 3 لاکھ کا فگر اسی رات کو یعنی 10 جنوری 1972ء کی رات کو بی بی سی بنگلہ کے ہیڈ سراج الدین نے اپنے پروگرام میں چلایا۔ 18جنوری 1972ء کو اپنے زمانے کے معروف صحافی ڈیوڈ فراسٹ نے جب شیخ مجیب الرحمن کا انٹریو کیا، اس میں جب ڈیوڈ فراسٹ نے ان سے یہ سوال کیا کہ کتنے لوگ مارے گئے تھے تو اس انٹرویو میں سوویت یونین کے اس خبار کا نمائندہ بھی بیٹھا ہوا تھا، اس نے کہا کہ ’’مسٹر پرائم منسٹر تھری ملین‘‘، تو صدر شیخ مجیب الرحمن نے اس کا فقرا دوہرایا۔ تب ڈیوڈ فراسٹ نے یہ فگر چلایا۔ اگلے دن ہی وزیر اعظم تاج الدین کی اپنے صدر کے ساتھ لڑائی شروع ہو گئی کہ میں نے تو کہا تھا کہ 3 لاکھ افراد مرے تھے تو آپ نے 30 لاکھ کیسے کر دیا۔یہ لڑائی کئی روز تک چلی۔ اس لڑائی سے جان چھڑانے کے لئے وہ کمیشن بنایا گیا جس کا ذکر اوپر کیا جا چکا ہے۔ 

مجیب الرحمن کے قتل کے بعد جنرل ضیا الرحمن آئے، اس کے بعد حسین محمد ارشاد آئے، ان کے بعد خالدہ ضیاء آئیں، پھر شیخ حسینہ واجد آئیں، پھر خالدہ ضیا آئیں، یہ معاملہ 2008ء تک  چلتا رہا۔ 1972ء سے لے کر 2008ء تک کسی نے بھی کوئی ایسی بات نہیں کی۔ 2008ء میں جب شیخ حسینہ واجد دوبارہ وزیر اعظم بنیں تو انہیں باقاعدہ کہا گیا کہ پاکستان کے خلاف اس بات کو پھیلائیں اور انہوں نے بڑی زورو شور کے ساتھ اس بات کو پھیلایا۔

2008ء تک پاکستان کی ٹریڈ بنگلہ دیش کے ساتھ بہت زیادہ تھی، ہمارے بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات بھی بہت بہتر تھے، یہی بات بھارت سے ہضم نہیں ہو رہی تھی۔ اس لئے اس گڑ بڑ کو پیدا کیا گیا، پاکستان کو بدنام کیا گیا۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ 2008ء میں دوبارہ سقوط ہوا۔ 

ایک یہ بھی سوال اٹھتا ہے کہ کیا بنگلہ دیش بنانے میں ہماری اپنی غلطیاں بھی تھیں، کیا ہمارے کچھ فیصلے ایسے تھے جو بنگلہ دیش بنانے کا سبب بنے؟ ڈاکٹر جنید احمد کی اس کتاب کے ابتدائی تین چار چیپٹر اسی حوالے سے ہیں۔ ایک یہ کہ پاکستان بنا کیسے، ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اس نے ہمیں پاکستان جیسا ملک دیا، اور وہ بھی رمضان المبارک کی 27ویں شب کو بنایا۔

بھارت کا کردار 

قیام پاکستان کے وقت ہی بھارتی رہنمائوں نے کہہ دیا تھا کہ ہم اس ملک کو نہیں چلنے دیں گے۔ اس وقت سے ہی بھارتی خفیہ ایجنسی کو ایک اہم ٹاسک دیاگیا، وہ ٹاسک تھا سابقہ پاکستان میں مداخلت کا، پاکستان کو دو لخت کرنے کے لئے سابقہ مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کی عسکری تربیت کے لئے پانی پت کے مقام پر بڑے اور بھارتی پنجاب میں چھپے ہوئے چھوٹے چھوٹے تربیتی کیمپ بنائے گئے تھے۔ ان کیمپوں کی موجودگی کا بھارتی رہنمائوں نے بھی اعتراف کیا ہے۔جب ان کیمپوں سے نکلنے والے بچوں کی تعدادکئی لاکھ ہو گئی تو بھارت کھل کر سامنے آ گیاکیونکہ اسے سابقہ مشرقی پاکستان کے اندر ایک بنیاد مل گئی تھی۔

 بھارت نے باقاعدہ پیسے خرچ کئے کہ مشرقی پاکستان میں مغربی پاکستان کے خلاف نفرتیں بڑھائی جائیں۔ پارٹیوں میں پیسے بانٹیں گئے، پارٹیوں کو بنایا گیا۔ بھارت کی طرف سے پاکستان کو توڑنے کی پہلی کوشش 1962ء میں کی گئی مگر اس وقت انڈیا اور چائنہ کی جنگ ہو گئی جس کی وجہ سے وہ کامیاب نہ ہو سکا۔ 1965ء میں بھارت نے ایک بار پھر کوشش کی مگر پاکستان نے اسے بھرپور طریقے سے ناکام بنایا۔ 

اسی مقصد کی تکمیل کے لئے1968ء میں اندرا گاندھی نے خفیہ ایجنسی ’’راء‘‘ قائم کو بنایا ۔بظاہر بھارتی حکومت نے کہا کہ یہ ایجنسی چین پر نظر رکھنے کیلئے بنائی گئی ہے مگر اس کا اصل مقصد سابقہ مشرقی پاکستان میں پاکستان مخالف جذبات کو پروان چڑھانا  اور پاکستان کو توڑنا تھا۔ اس سلسلے میں مغربی بنگال کی سرحدیں کھول دی گئیں اور کئی لاکھ بنگالیوں کو مغربی بنگال میں آنے جانے کی اجازت مل گئی تھی۔اس سے یہ ظاہر کرنا تھا کہ بھارت بنگالیوں کے ساتھ ہے اور ہرممکن مدد بھی دے گا۔بھارت کا آج بھی بنگلہ دیش کی سیاست اور معیشت پر بہت زیادہ کنٹرول ہے۔

 

بنگلہ دیش بنانے میں ہماری غلطیاں

ڈاکٹر جنید احمد اپنی کتاب ’’کری ایشن آف بنگلہ دیش‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’ایک سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا بنگلہ دیش بنانے میں ہماری اپنی غلطیاں بھی تھیں، کیا ہمارے کچھ فیسلے ایسے تھے جو بنگلہ دیش بننے کا سبب بنے ؟ڈاکٹر ضنید احمد کی کتاب کہ ابتدائی چند چیپٹر اسی حوالے سے ہیں۔ان میں سے چند وجوہات درج ذیل ہیں۔

1: لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد 1951ء میں مسلم لیگ بہت سے دھڑوں میں تقسیم ہو گئی تھی، جس کی وجہ سے مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے درمیان ایک بہت بڑا سیاسی خلاء پیدا ہو گیا تھا۔  

2: 1971ء تک ہماری بیوروکریسی میں مغربی پاکستانیوں کا غلبہ رہا، مشرقی پاکستان کا کبھی کوئی چیف سیکرٹری نہیں آیا، کوئی بنگالی سیکرٹری پلاننگ نہیں آیا، کوئی سیکرٹری فنانس نہیں آیا، کوئی سیکرٹری داخلہ نہیں آیا، یہ وہ احساس محرومی تھے جنہوں نے بنگالیوں کو بدزن کیا۔ 

3: اس سے بڑھ کر مسئلہ مغربی پاکستان کے صنعت کاروں اورتاجروں نے کیا جنہوں نے مشرقی پاکستان میں ڈھائی ہزار فیکٹریاں لگائیں ، ان تمام فیکٹریوں میں جو ٹاپ، سینئر اور مڈل مینجمنٹ رکھی گئی وہ مغربی پاکستان سے تھی جبکہ بنگالیوں کو بطور مزدور بھرتی کیا گیا۔ حکومت، بیوروکریسی اور مغربی پاکستان کی بزنس کمیونٹی نے مل کر بنگالیوں کی جتنی بے عزتی ہو سکتی تھی کی، اس طرح ہم سب نے ہندوستان کا ساتھ دیا۔ یہ وجہ بنی بنگالیوں کی ناراضی اور سقوط ڈھاکہ کی۔

 

ڈھاکہ سے واپسی پر

فیض احمد فیض 

ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد

پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد

کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار

خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد

تھے بہت بے درد لمحے ختم درد عشق کے

تھیں بہت بے مہر صبحیں مہرباں راتوں کے بعد

دل تو چاہا پر شکست دل نے مہلت ہی نہ دی

کچھ گلے شکوے بھی کر لیتے مناجاتوں کے بعد

ان سے جو کہنے گئے تھے فیض جاں صدقہ کیے

ان کہی ہی رہ گئی وہ بات سب باتوں کے بعد

(فیض احمد فیض نے یہ نظم 1974ء 

میں ڈھاکہ سے واپسی پر لکھی تھی)

سقوط ڈھاکہ 

(نصیر ترابی )

وہ ہم سفر تھا مگر اس سے ہم نوائی نہ تھی

کہ دھوپ چھاؤں کا عالم رہا جدائی نہ تھی

نہ اپنا رنج نہ اوروں کا دکھ نہ تیرا ملال

شب فراق کبھی ہم نے یوں گنوائی نہ تھی

محبتوں کا سفر اس طرح بھی گزرا تھا

شکستہ دل تھے مسافر شکستہ پائی نہ تھی

عداوتیں تھیں، تغافل تھا، رنجشیں تھیں بہت

بچھڑنے والے میں سب کچھ تھا، بے وفائی نہ تھی

بچھڑتے وقت ان آنکھوں میں تھی ہماری غزل

غزل بھی وہ جو کسی کو ابھی سنائی نہ تھی

کسے پکار رہا تھا وہ ڈوبتا ہوا دن

صدا تو آئی تھی لیکن کوئی دہائی نہ تھی

کبھی یہ حال کہ دونوں میں یک دلی تھی بہت

کبھی یہ مرحلہ جیسے کہ آشنائی نہ تھی

عجیب ہوتی ہے راہ سخن بھی دیکھ نصیر

وہاں بھی آ گئے آخر، جہاں رسائی نہ تھی

ڈاکٹر جنید احمد پیشے کے اعتبار سے ماہر معاشیات ہیں،تاریخ اسلام سے گہرا لگائو ہے، تاریخ پر تحقیق میں بھی وہ مہارت رکھتے ہیں، سقوط ڈھاکہ پر انگریزی میں ایک کتاب ’’کری ایشن آف بنگلہ دیش متھ ایکسپلوڈڈ‘‘ لکھ چکے ہیں، جس کا اردو اور بنگلہ زبان میں میں ترجمہ ہو چکا ہے، یہ اپنی نوعیت کی منفرد کتاب ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

میدان محشر میں نعمتوں کا سوال!

’’اور اگر کفران نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے‘‘ (سورہ ابراہیم :7) ’’اور اس نے تمہارے کان اور آنکھیں اور دل بنائے تاکہ تم شکر گزار بنو‘‘ (سورۃ النحل : 78)’’اے ایمان والو! ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں کھاؤ اور اللہ کا شکر ادا کرو اگر تم اُسی کی عبادت کرتے ہو‘‘ (البقرہ )’’اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہوتا ہے جو کھاتا ہے تو اس پر خدا کا شکر ادا کرتا ہے اور پانی پیتا ہے تو اس پر خدا کا شکر ادا کرتا ہے‘‘ (صحیح مسلم)

کامیاب انسان کون؟

’’وہ اہل ایمان کامیابی پائیں گے جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرنے والے ہیں‘‘ (المومنون) قرآن و سنت کی روشنی میں صفاتِ مومناللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’جس نے خود کو گناہوں سے بچالیا حقیقتاً وہی کامیاب ہوا(سورۃ الیل)

صدقہ: اللہ کی رضا، رحمت اور مغفرت کا ذریعہ

’’صدقات کو اگر تم ظاہر کر کے دو تب بھی اچھی بات ہے، اور اگر تم اسے چھپا کر دو تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے‘‘(سورۃ البقرہ)

مسائل اور ان کا حل

’’اسے اپنے گھر لے جاو‘‘ کہنے سے طلاق نہیں ہوتی سوال :میں نے اپنی بیوی سے ایک موقع پرکہاتھاکہ میں تمہیں کبھی ناراض نہیں کروں گا،اگرکوئی ناراضی ہوئی توآپ کے کہنے پرطلاق بھی دے دوں گا۔

فیض حمید کی سزا،بعد کا منظر نامہ

آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اور سابق لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو سزا سنا دی گئی ہے جو کئی حلقوں کیلئے ایک واضح پیغام ہے۔ ریاست ملک میں عدم استحکام پھیلانے والے عناصر کیلئے زیرو ٹالرنس کی پالیسی اختیار کر چکی ہے۔

پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے امکانات

چیف الیکشن کمشنر کا مؤقف ہے کہ الیکشن کمیشن بلدیاتی انتخابات کے لیے تیار ہے،لیکن حکومتِ پنجاب نے10 جنوری تک کا وقت مانگا ہے۔ پنجاب حکومت نے انتخابی بندوبست کرنا ہے جبکہ شیڈول کا اعلان الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری ہے۔